چاچا جان نے رضیہ کے سر پر ہاتھ رکھ کرلڑکھڑاتی آواز میں کہا ۔۔۔۔
ب۔۔بہ۔۔۔بٹیا : آج سے اس گھر کی دیکھ بال تمہارے ذمے ہے ۔۔۔۔ رو مت ۔۔دیکھو کیا حالت بنائی ہے اپنی ۔۔۔اوپر والا سب کچھ ٹھیک کردے گا۔۔۔۔ صبر کرو ۔۔۔۔۔۔نہ جانے اس گھر کو کس کی نظر لگ گئی ۔۔۔۔۔نہیں تو کیا ! اللہ میرے جوان بھائی کو یوں ہی ہم سے چھین لیتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رو مت بٹیا ۔۔۔۔۔۔خالق کی جو مرضی تھی وہی ہوا ۔۔۔۔آخر ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔۔۔۔۔اور آگے بھی وہی ہونا ہے جو اس کو منظور ہوگا۔۔۔۔
ہمارے بس میں تو کچھ بھی نہیں ۔۔۔موت تو اٹل ہے ۔۔۔۔اس لقمئہ اجل کا مزہ تو ہر جان کو چکھنا ہے۔ دنیا کی روایت یہی ہے کہ جو یہاں آیا اس کو ایک نہ ایک دن جانا ہی پڑتا ہے ۔۔۔۔
ہمارے رونے دھونے سے وہ واپس تو نہیں آئیں گے۔۔ ۔۔زندگی کا تو یہی دستور ہے ۔۔۔۔ ہمارے اور تمہارے بس میں کیا ہے ۔۔۔بہتر تواوپر والاہی جانے ۔۔۔
بٹیا ، تمہارے ابا نظام الدین اگر اس دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں تو کیا ہوامیں ابھی زندہ ہوں ۔۔۔۔چلو اٹھو ۔۔۔منہ ہاتھ دھولو ۔۔۔اوپر والے پر بھروسہ رکھو ۔ تم خود کو اکیلا نہ سمجھو۔ میں اپنی آخری سانس تک تمہارے کنبے کا خیال رکھوں گا اور تمہیں اپنے ابا کی کمی کبھی محسوس نہیں ہونے دوں گا۔
رضیہ بٹیا ۔۔۔میرے جیتے جی تمہیں کوئی بھی نیچ نگاہوں سے نہیں دیکھے گا ۔ میں تمہیں اپنی اولاد سے زیادہ پیار دوں گا۔۔۔تو کسی بھی بات کی فکر نہ کر۔۔۔۔۔بٹیا اگر رونے دونے سے کوئی واپس آجاتا ۔۔۔تو ہم خوب رولیتے اور جب تک وہ واپس نہ آجاتے تب تک ہم ایسے ہی رولیتے ۔۔۔۔۔۔۔مہربانی کرکے اس بے حسی سے باہر نکل آئو۔۔۔ میرا نہیں کم سے کم اپنی اماں کا تو خیال کرو۔۔
کچھ وقت گذرا۔۔بیچاری رضیہ ، بے حسی کی حالت میں ہی چاچا جان کی باتوںپر غور کرنے لگی ۔۔۔۔من ہی من سوچنے لگی ۔۔۔کہ ۔۔۔ حقیقت تو یہی ہے۔۔۔۔ مجھے اس کو جلدی اپنا کر اپنے گھر والوں کی حالت سدھارنی ہوگی ۔۔۔۔۔اوراسی مایوسی میںکئی دن گزرگئے ۔۔۔
رشتہ داروں کے دلاسوں اور اپنے چاچا جان کے حوصلے نے رضیہ کو یہ تلخ حقیقت قبول کرنے میں آسانی فراہم کی اور رضیہ نے گھر گرہستی کے چکر میںاب اپنی اور اپنی ماں کی باقی زندگی گزارنے کے لے کمر باندھ لی اور چھوٹا موٹا کام ڈھونڈنے کیلئے نکل گئی ۔۔۔ لیکن اس کشمکش میں مایوسی شاملِ حال تھی۔۔
رضیہ کے ابا کے انتقال نے تو دونوں ماں بیٹی کو صدمے کے دلدل میں دھکیل دیا تھا۔۔۔۔۔یہ صدمہ ان پر کسی پہاڑ کے گر آنے سے کم نہیں تھا۔۔۔یہ لمحات انہوںنے کیسے گذار ے ہوں گے۔۔۔یہ انکے سوا کون جان پاتا ۔۔۔۔
نظام الدین کے اس دارِ فانی سے گذرجانے کے بعد گھر کا سارا بوجھ رضیہ نے اپنے نازک کندھوں پر لے لیا اور دھیرے دھیرے اس کو اپنی ذمہ داری کا پورا احساس ہونے لگا۔ ۔۔۔ لیکن دوسری جانب رضیہ کی امی سائرہ اپنے شوہر کی جدائی کے صدمے میں دن بہ دن پیچھے ہی جاتی رہی،جس کا اثر بیچاری رضیہ پر بھی آن پہنچا اور اسکی مصیبتوں میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔۔۔
اوپر والے کے کرم سے رضیہ کو ایک کمپنی میں چھو ٹی موٹی نوکری مل گئی ۔۔۔جس سے ان کے گھر کا کچھ حد تک گذارہ ہوگیا۔۔۔۔ وہ دن میں کمپنی میںکام کرتی رہی اور رات میں اپنی امی کے دل میں زندگی گذارنے کی خواہش جگاتی رہی۔۔۔۔
مصیبتوں کے دن گذر جانے کے ساتھ ساتھ رضیہ اب جوان ہوگئی ہیں ۔۔آج بھی اپنے ابا کی یاد میں برابر آنسو بہائے جارہی ہے ۔جب انکی یاد آتی ہے تو اباکے انتقال کاسارا منظر آنکھوں کے سامنے عیاں ہوجاتا اور کہیں تنہائی میں جاکراپنے دل کے بوجھ کو ہلکا کرنے کی خاطر خوب روتی ہے، گڑگڑاتی ہے، چلاتی ہے اور خاموش ہوجاتی ہے اور روزمرہ کا کام سنبھالنے لگتی ہے جیسے کہ یہ عمل اب زندگی کا حصہ بن گیا ہو۔
رضیہ کی کوششوں اور کشمکش سے اب گھر کے حالات پہلے سے بہتر ہوگئے ۔۔گھر میں اب رونق ،چہل پہل کے آثار اور خوشی کے لمحات نظر آنے لگے۔۔۔ سائرہ، جو ادھیڑ عمر کی ہوگئی،میں اتنی جان بھی اب کہاں تھی، مگر پھر بھی اب گھر گرہستی میں دھیان دینے لگ گئی،جس سے گھر کی فضا میں اور رونق بڑھ گئی۔۔۔۔ رضیہ کام پہ جاتی ہے، تو سائرہ آہستہ آہستہ گھر کے چھوٹے موٹے کام نپٹا رہی ہے۔ اب سائرہ بھی زندگی جینا چاہتی ہے ۔۔شاید اپنی جوان بیٹی کی خاطر۔۔۔۔۔
۔۔۔آج فجر کی نماز ادا کرنے کے بعدرضیہ اپنی اماں سے یوں مخاطب ہوکے بولی ۔۔۔۔اماں۔۔۔ آج ابو کے انتقال کو برابر چھ سال ہوگئے مگر چاچا جان نے ایک بار بھی گوارا نہ کیا ۔۔۔۔یہاں آتے ۔۔۔یا پھر فون پہ ہی خبر پوچھ لیتے ۔۔۔۔پتا نہیں دہلی میں جاکے ان کا آج کون سا نمبر چل رہا ہے ۔۔۔کیا پتہ وہ کس حال میں ہونگے ۔۔۔۔رضیہ کی باتیں سن کر سائرہ کا دل گبھرانے لگا ۔۔۔۔اور کسی سوچ میں یوں ڈوب گئی جیسے انہیں وہ گزرے ہوئے لمحات یاد آگئے ۔۔۔۔۔۔
رضیہ اپنی اماں کے لئے چائے لانے گئی اور اسی اثنا میں کسی انجان نمبر سے فون آیا۔ ۔۔سائرہ تو اپنی ہی سوچ میں گم تھی ۔۔ماضی کی یادوں میں ڈوبی سائرہ فون کی گھنٹی نہ سن پائی۔۔۔۔رضیہ نے پیالی میں چائے بھرتے بھرتے اپنی اماں کو آواز دی ۔۔۔۔اماں ۔۔۔فون ۔۔۔۔۔ ارے امی ۔۔۔۔فون ۔۔۔۔ رضیہ کی زور دار آواز سے سائرہ نے اپنے ہوش سنبھالتے ہوئے کانپتے ہاتھوں سے ریسیور اٹھایا جیسے کہ کسی انہونی کا الہام اس کو پہلے سے ہی ہوا ہو۔ ۔۔۔۔صرف دو تین باتیںہی کیں کہ سائرہ کے ہاتھ سے ریسیور گرگیا ۔۔۔لڑکھڑاتی زبان سے صرف ایک ہی آواز نکلی ۔۔ر۔۔رض ۔۔رضیہ۔۔۔۔ رضیہ ۔۔۔۔۔اور ایک بار زور سے رضیہ۔۔۔۔
یہ کہہ کے سائرہ فرش پر گر گئی ۔۔۔۔۔۔
اماں کی یوں اچانک چیخ سے ادھر رضیہ کے ہاتھ سے چائے کی گرم پیالی اسکے پیروں پر گرگئی ۔۔۔مگرہانپتے ہوئے گبھرائی رضیہ سائرہ کے نزدیک آپہنچی ۔۔اماں کو بے ہوش پاکر بیچاری رضیہ کے من میں عجیب خیالوں نے سفر شروع کیا اور وہ بے بس ہوکر ایک ہاتھ سے اپنے جلے پیروں کو سہلاتی ہے تو دوسری جانب اماں کے منہ پر سرد پانی کا چھڑکائو کرتی ہے۔۔۔۔
اپنے درد کو قوت میں تبدیل کرکے زور زور سے چیخنے لگی۔۔۔۔ اماں۔ ۔۔اماں ۔۔۔۔مجھے اکیلا نا چھوڑا۔۔۔اماں ۔۔۔۔لیکن اماں کی آنکھوں سے صرف آنسو کے قطرے لگاتابہتے رہے ۔۔۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہو گئیں۔۔ ۔ موت کو اپنی آغوش میں دیکھ کربے بس رضیہ کا دم گھٹنے لگا۔۔۔۔وہ چیختی چلاتی ۔۔۔پر بے یار و مدد گار۔۔۔۔۔۔۔
’’فون ظالم چاچا کا تھا، جو صرف چھہ سال کی مدت میں ہی اپنے وعدے بھول گیا ۔ دہلی میں رہ کے ان کے بیٹے ’عرفان‘ کو کسی بزنس میں خسارہ ہوگیا ۔۔ قرضہ بھرپائی کی خاطرچاچا ’مراد علی‘ نے گاؤں کی ساری زمین جائیداد یہاں تک کہ رضیہ کے ابا مرحوم نظام الدین کا حصہ بھی ہڑپ لیا ۔۔۔۔اور پوری جائداد کا اکلوتا و ا رث بن گیا۔۔۔۔‘‘
برنٹی اننت ناگ,موبائل نمبر؛9906705778
ای۔میل: [email protected]