محمد حنیف
کشمیر کی زعفران کی وادیاں، جو صدیوں سے دنیا کے قیمتی ترین مصالحوں میں سے ایک کی پیداوار کے لیے مشہور رہی ہیں، آج ایک غیر یقینی مستقبل سے دوچار ہیں۔ 2025 میں جب دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات نمایاں ہو رہے ہیں، وادی کشمیر کی زعفران کی فصل بھی ان ہی چیلنجز کی زد میں ہے۔ “سرخ سونا” کہلانے والی یہ فصل نہ صرف کسانوں کے معاش کا ذریعہ ہے بلکہ یہ کشمیر کی ثقافت، تاریخ اور شناخت کا بھی اہم حصہ ہے۔ تاہم، غیر متوقع موسم، زمین کے سکڑنے اور شہری توسیع نے اس روایتی کاشت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
گزشتہ ایک دہائی میں کشمیر میں زعفران کی پیداوار میں نمایاں کمی آئی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب سالانہ پیداوار آٹھ میٹرک ٹن کے قریب تھی، مگر حالیہ برسوں میں یہ کم ہو کر تین میٹرک ٹن سے بھی کم رہ گئی ہے۔ اس زوال کی سب سے بڑی وجہ بدلتا ہوا موسم ہے۔ زعفران ایک نہایت حساس اور بارش پر انحصار کرنے والی فصل ہے جسے خزاں کے موسم میں مخصوص درجہ حرارت اور نمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ درجہ حرارت یا بارش میں معمولی فرق بھی پھولوں کی نشوونما کو متاثر کرتا ہے۔ حالیہ برسوں میں غیر موسمی گرمی، تاخیر سے ہونے والی بارش اور سردیوں کی شدت میں کمی نے فصل کی پیداوار کو شدید متاثر کیا ہے۔
ماحولیاتی دباؤ کے ساتھ ساتھ شہری توسیع نے بھی زعفران کی زمینوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ پامپور، جو زعفران کی کاشت کا دل مانا جاتا ہے، میں اب وہ زرخیز کھیت تیزی سے رہائشی کالونیوں، سڑکوں اور اینٹ بھٹیوں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ اس زمین کی کمی نے نہ صرف مجموعی پیداوار کو متاثر کیا ہے بلکہ مٹی کے کٹاؤ، زیرِ زمین پانی کی کمی اور مقامی ماحولیاتی توازن کو بھی بگاڑا ہے۔
کئی کسان اور محققین اب جدید طریقۂ کاشت آزما رہے ہیں تاکہ اس قیمتی فصل کو بچایا جا سکے۔ کنٹرول شدہ اندرونی کاشت (Indoor Cultivation) اور ایروپونک فارمنگ جیسے طریقے امید کی ایک نئی کرن بن کر اُبھرے ہیں۔ ان طریقوں سے درجہ حرارت، نمی اور غذائی اجزاء پر مکمل کنٹرول رکھا جا سکتا ہے، جس سے غیر یقینی موسمی اثرات سے بچاؤ ممکن ہے۔ ایروپونک کاشتکاری میں مٹی کے بغیر صرف پانی کے بخارات سے پودوں کو غذائیت دی جاتی ہے، جو پانی کے ضیاع کو روکتی اور مٹی کی صحت کو برقرار رکھتی ہے۔ اگرچہ یہ طریقے ابھی ابتدائی مرحلے میں ہیں، لیکن یہ مستقبل کے لیے زعفران کی بقا کی امید فراہم کرتے ہیں۔
دوسری جانب، جنگلات کی کٹائی اور قدرتی مسکنوں کی تباہی نے جنگلی جانوروں کو زرعی زمینوں کی طرف دھکیل دیا ہے۔ بھارتی کریسٹڈ سُہن، ایک بڑا کانٹوں والا جانور، اب زعفران کے کھیتوں میں گھس کر پودوں کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ اس طرح کے قدرتی خطرات کے باعث کسانوں کے اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ انہیں فصل کے تحفظ پر اضافی رقم خرچ کرنا پڑ رہی ہے۔
حکومتی سطح پر بھی کچھ اقدامات کیے گئے ہیں۔ حکومت نے زعفران کے کاشتکاروں کے لیے مالی امداد، جدید تربیت اور زمین کے تحفظ کے منصوبے شروع کیے ہیں۔ جدید آبپاشی کے نظام، کیڑوں کے انسداد، اور بہتر مارکیٹنگ کے منصوبوں پر بھی کام ہو رہا ہے۔ ان پالیسیوں کا مقصد صرف پیداوار میں اضافہ نہیں بلکہ زعفران کے اس تاریخی ورثے کو بچانا ہے جو کشمیر کی پہچان ہے۔
زعفران کی پیداوار میں کمی کے معاشی اثرات بھی نمایاں ہیں۔ چونکہ یہ ایک قیمتی فصل ہے، اس کی پیداوار میں کمی براہِ راست کسانوں کی آمدنی اور مقامی معیشت پر اثر ڈالتی ہے۔ روزگار کے مواقع کم ہوتے ہیں، برآمدات گھٹتی ہیں اور عالمی منڈی میں کشمیر کے زعفران کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ زعفران کی کوالٹی میں معمولی کمی بھی قیمتوں پر بڑا اثر ڈالتی ہے، اس لیے اس کی حفاظت محض معاشی ضرورت نہیں بلکہ خطے کی اقتصادی سلامتی سے جڑی ہوئی ہے۔
2025 میں کشمیری کسانوں کی حوصلہ مندی اور جدت پسندی نمایاں طور پر دیکھی جا رہی ہے۔ وہ روایتی علم کو برقرار رکھتے ہوئے سائنسی طریقے اپنا رہے ہیں۔ زمین اور پانی کے تحفظ، فصلوں کی تنوع، اور جدید ڈھانچوں میں سرمایہ کاری جیسے اقدامات ثابت کرتے ہیں کہ کسان اب موسمی خطرات سے نمٹنے کے لیے فعال حکمتِ عملی اختیار کر رہے ہیں۔
زعفران کی ثقافتی اہمیت بھی کم نہیں۔ یہ محض ایک فصل نہیں بلکہ کشمیر کی روح سے جڑا ایک استعارہ ہے۔ شادی بیاہ سے لے کر مذہبی تقریبات تک، زعفران کشمیری معاشرت کا حصہ ہے۔ کھانوں، ادویات اور روایتی مصنوعات میں اس کا استعمال نہ صرف ذائقے بلکہ ایک تاریخی تسلسل کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس لیے اس کی حفاظت محض معیشت کا سوال نہیں بلکہ ایک تہذیبی ضرورت بھی ہے۔
تاہم، موسمیاتی تبدیلی سب سے بڑا غیر متوقع خطرہ بنی ہوئی ہے۔ درجہ حرارت میں اضافہ اور بے ترتیب بارشیں آئندہ برسوں میں مزید شدت اختیار کر سکتی ہیں۔ اس لیے پالیسی سازوں کو ایسی جامع حکمتِ عملی اپنانا ہوگی جس میں تحقیق، تربیت، پانی کے مؤثر استعمال، اور پائیدار زراعت کو فروغ دیا جائے۔
مجموعی طور پر 2025 میں کشمیر کی زعفران کی کاشت ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ ایک طرف موسمی دباؤ، زمین کی قلت اور ماحولیاتی خطرات ہیں، تو دوسری طرف کسانوں کا عزم، جدید ٹیکنالوجی، اور حکومتی معاونت امید کی نئی راہیں دکھا رہی ہیں۔ اگر روایتی علم اور سائنسی ترقی کو ہم آہنگ کر کے جامع پالیسی اپنائی جائے تو کشمیر کا “سرخ سونا” آنے والے برسوں میں نہ صرف باقی رہ سکتا ہے بلکہ مزید ترقی بھی کر سکتا ہے۔
 [email protected]
 
								 
			 
		 
		 
		 
		 
		 
		 
		