یہ جون کی تپتی دوپہر تھی۔سورج اپنے جوبن پر تھا۔اصغر کا حلق جیسے سوکھ گیا تھا۔بھوک سے اس کی ہمت جواب دے رہی تھی۔ایسے میں اصغر کو یاد آیا کہ فریج میں کولڈڈرنک اور کچھ کھانے کی چیزیں موجود ہیں۔آج تو میرا روزہ ہے وہ بھی پہلا۔نہیں نہیں۔۔۔میں ایسا نہیں کرسکتا۔ہاں تو کیا ہوا ویسے بھی یہاں کون دیکھ رہا ہے ؟لفظ ہونٹوں پرکا نپنے لگے تھے۔۔۔۔ہاں۔۔ہاں۔۔۔نہیں۔۔۔اللہ کی نگاہ ہر ایک پر ہوتی ہے۔دادی اپنے کمرے میںنماز پڑھ رہی ہے ۔امی اور با با ویسے گھر پر نہیں ہیں۔ارم ابھی بہت چھوٹی ہے اس کو کیا پتا ۔۔۔ اپنی چھوٹی بہن کا خیال آتے ہی اصغرسوچ میں پڑ گیا۔ارم کو کیا پتا روزہ کیا ہوتا ہے۔اب اصغرکے دل ودماغ ایک دوسرے کا ساتھ چھوڑرہے تھے۔فریج میں قسم قسم کے کھانے اور لذیذمیوے صاف نظر آرہے تھے۔یہ لذیذ میوے سوکھے حلق کو سیراب کر سکتے تھے۔آخر اللہ کی ناراضگی کے خوف کاخیال غالب آنے لگا تھا۔
اصغر نے فریج کا دروازہ بند کیا۔اب اصغر اپنے کمرے میں آگیا تھا۔ابھی تک اصغربھوک اور پیاس کی وجہ سے تکلیف میں تھا۔اپنی توجہ ہٹانے کے لیے ٹی وی ریموٹ پکڑا اور چینل تبدیل کرنے لگا ۔ایک چینل پر جیسے اس کی انگلیاںریموٹ پر جم گئی تھیں۔یہ چینل شام(syria)پر رپوٹ دکھا رہا تھا۔جس میں شام کے بچوںکو جب اناج کا ایک پیکٹ دیا جاتا تو سب اس پر جھپٹ پڑتے۔یہ پیکٹ ایک ہیلی کا پٹر کے ذریعے پھینکے جارہے تھے۔اصغر کو یاد آگیا کہ ایک دن جب اس نے اسٹرابیری کیک آرڈر کیا تھاتو کیک لے کر آنے والالڑکا غلطی سے دوسرا کیک لے کے آیا تھا۔اصغر نے اس لڑکے کو برا بھلا کہا تھا،کیک لے کر اس لڑکے کے سامنے پھینک دیا تھا۔اصغر کی آنکھوں کے سامنے ایک منظرگھومنے لگا۔جیسے کسی برے خواب نے اس کی آنکھیں کھول دی ہوں۔اصغر نے موٹر سائیکل کی چابی پکڑی اور حیدر کے گھر جانے کا ارادہ کیا۔اصغر اور حیدرکلاس فیلوبھی تھے۔حیدر کاگھر کچھ زیادہ دور بھی نہیں تھا۔وہ جب بھی فارغ ہوتا حیدر کے گھر چلا جاتا تھا۔اصغر جب حیدر کے گھر پہنچا،لان میں سفید داڑھی والے مقبول چچاکام کر ہے تھے۔مقبول چچا حیدر گھر پر ہے؟ نہیں بیٹا گھر پر تو کوئی نہیں ۔ چلیں ٹھیک ہیں۔حیدر واپسی کے لیے مڑا ہی تھا کہ کیا دیکھتا ہے کہ مقبول چچا کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔یہ مقبول چچا عرصہ دراز سے حیدر کے گھر میں باغ کی دیکھ بھال کرتے تھے۔اصغر نے کبھی بھی کام کرنے والوںمیں کوئی دلچسپی نہ لی تھی ۔مقبول چچا کیا آپ نے روزہ رکھا ہے؟اصغر نے کاپنتے ہاتھوں سے پودوں کو درست کرتے مقبول چچا سے سوال کیا۔۔۔۔
جی بیٹا الحمد اللہ روزہ سے ہوں۔مقبول چچا آپ روزوں میں بھی سخت محنت کرتے ہیں۔آپ کو بھوک اور پیاس نہیں لگتی؟بیٹا لگتی تو ہے لیکن جس اللہ کے لیے میں یہ تکلیف برداشت کرتا ہوں وہ پروردگار صبر بھی دیتاہے۔بیٹا اللہ تعالی فرماتے ہیں روزہ خاص میرے لیے ہے اس کا اجر بھی میں دوں گا۔ " میرا رب جس کام کا اجر دینے کے لئے خود کہہ رہاہے تو بیٹا میں دنیا کے کاموں کے لئے کیوں چھوڑ دوں۔ "اچھا مقبول چچا اب میں چلتا ہوں۔ اصغر گھر پہنچا۔ اس کے ابو فیکٹری سے آچکے تھے۔ابو جی میں آپ سے ایک ضروری بات کرنا چاہتا ہوں۔جی میرے جگر 'اصغر کے ابو نے پیار بھرے لہجے میں بیٹے کو جواب دیا۔ابو اگر ہمارا پیٹ تھوڑے سے کھانے سے بھر سکتا تو ہم کیوں مختلف اقسام کے کھانے بناتے ہیں۔کیا مطلب ؟ میں کچھ سمجھا نہیں بیٹاآپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟۔۔۔۔ابو جی میرا مطلب ہے ہمارے گھر میں روز وافر مقدار میں کئی قسم کے کھانے پکتے ہیں جبکہ ہم سب تو اس میں سے تھوڑا سا کھاتے ہیں باقی سب ضائع ہوتا ہے۔کیا ایسا نہیں ہوسکتاکہ ہم اپنی خوشیوں میں لوگوں کو شامل کریں۔اس طرح سے کھانا بھی ضائع نہیں ہوگا ۔اللہ تعالی ثواب بھی دیںگا۔امی ٹیبل پر افطاری کا سامان لگانا شروع کرچکی تھی۔آج شیخ شوکت اپنے بیٹے اصغر کی باتیں سن کر خوش ہورہے تھے۔
ہاں کیوں نہیں بیٹا !اچھا مسلمان تو وہی ہے جو اپنے دوسرے بھائیوں کو اپنی خوشی میں شریک کرے۔۔ آج معصوم بچے نے پھرشیخ شوکت کو بیدار کیا۔۔کچھ لمحوں بعد قریبی مسجد سے افطار کی دعا کی آواز آنے لگی ۔ہاتھ دعاکے لیے آسمان کی طرف بلند ہونے لگے۔آج اصغر کی آنکھوں میں نمی تھی۔مگر یہ بدلائو کی نمی تھی جو شیخ شوکت نے بھی محسوس کی۔
���
رعناواری سرینگر،ربط نمبر9697330636 [email protected]