آج کل ساری دنیا میں کورپشن، بدعنوانی اور اقرباپروری کا اژدھاپھن پھیلائے کھڑا ہے ہر انسانی معاشرہ اس مہلک بیماری کی زد میں ہے ۔ اس نفسانفسی اور خود غرضی کے عالم میں بھی بساط ارضی پر ایسے لوگوں کی کمی بھی نہیں جو دیانت و امانت کے پیکر ہیں اور ایسے افراد بھی اَن گنت ہیں جو حرام ذرائع سے دولت حاصل کرنے کے مواقع فراہم ہونے کے باوجود اِس حصارِ شامت میں محصور نہیں ہونا چاہتے او رایسے نیک نفس شخصیات کی بھی کمی نہیں جنہیں دو وقت کی پوری روٹی بھی میسر نہیں ، روکھی سوکھی کھاکر زندگی کی گاڑی کو اطمینان سے چلارہے ہیں لیکن کسی کا حق مارکر یا کورپشن کی بہتی گنگا میں ڈبکی لگاکر شکم سیری اور دنیا داری کا سامان نہیں کرتے لیکن بہ نظر غائرر دیکھا جائے تو کائنات انسانی کا بڑا حصہ دنیا کی دِل فریبیوںکے جال میں بری طرح پھنس کر جائز و ناجائز کی ہر اصطلاح سے بے خبر مال و منال کے حصول میں اِس قدر سرگرداں ہے کہ دیکھتا ہی نہیں کہ اس کا یہ عمل اللہ کی اِس بستی میں فساد پھیلانے کا کس قدر موجب بن رہا ہے۔ کورپشن یا بدعنوانی محض رشوت اور غبن کا ہی نام نہیں بلکہ اپنے عہد کو توڑنا، مالی اور مادی معاملات کے ضابطوں اور قواعد کی خلاف ورزی ، حقداروں کا حق مارنا اور اپنے ذاتی مفاد کے لیے منصب، عہدے، مقام یا اثررسوخ کا غلط استعمال سب اِسی زمرے میں آتا ہے۔ کرپشن کا مرض معاشرہ کو اندر ہی اندردیمک کی طرح چاٹ رہا ہے اور ایسے بھی لوگ اللہ کی اِس بستی میں نظر آتے ہیں جو بے کار کوچہ گردی کرتے دیکھے گئے لیکن دفعتہ دولت اُن کے آنگن میں ھن کی طرح برسنے لگی یہ کسی کاروبار میں ظاہر ہے ان میں مہارت و تجربہ کا ماحصل تو ہوہی نہیں سکتا، بلکہ کوئی غلط راستہ ضرور ہے جس پر چل کر یہ لوگ دنیا کو آج آنکھیں دِکھا رہے ہیں اتنے پر بس ہوتا تو چلئے وہ جانتے اور اُن کی آخرت! لیکن اس دنیا میں ایسے بھی لوگ ہیں جو اُن کے نئے لائف اسٹائل کو دیکھ کر اور اُن کے ’’مقام‘‘ کی ہمسری کرنے کے لئے اس قسم کے جرائم کے مرتکب بھی ہوتے ہیں کہ اللہ بچائے دھن دولت کے حصول کے لئے وہ اخلاقی اور انسانی اقدار تو کیا کسی معصوم کا خون بہانے سے بھی نہیں کتراتے ، مادہ پرستی کی اِس دوڑ میں سرمست یہ لوگ نمبردو قسم کی دوائیوں کی تجارت کو بھی اپنے لئے کچھ باعث عار تصور نہیں کرتے نشہ آور ادویات ، چرس، افیون اور بھنگ کی کاشت اور پھر اِن کی خرید و فروخت کرکے وہ سوسائٹی میں ’’اعلیٰ مقام ‘‘ کے حصول کے لئے کسی بھی حد تک جانے سے نہیں ہچکچاتے ، یہ تورہی عام لوگوں کی بات دنیا میں جن لوگوں کو حکمرانی کی مسند پر بٹھا دیا گیا ہے مختلف ممالک میں جو سیاہ و سپید کے مالک کسی وزیر ، حاکم ، بیوروکریٹ کی شکل میں بیٹھے ہیں ۔ اُن کا ایک بڑا حصہ کرپشن کی اِس برستی بارش میںنہلارہا ہے ۔ تن کے اُجلے اور من کے ناپاک یہ لوگ ایمان، آخرت ، بازپرس اور انسانی ہمدردی کی اصطلاحوں سے قطعی نابلد محض اپنی عیاشیوں کو دوام بخشنے اور اپنی اولاد کو ’’پھولتا پھلتا‘‘ دیکھنے کی آرزو میں ہزاروں ، سینکڑوں کی نہیںبلکہ اربوں کھربوں کی رشوت ستانی اور بدعنوانی کرکے نام ’’کمانے‘‘ کی دھن میں سرپٹ دوڑرہے ہیں نام کیسا کمارہے ہیں بس یوں سمجھئے کہ بدنام اگر ہوں گے کیا نام نہیں ہوگا؟
دنیا کے مختلف ممالک میں یہ ناسور اندر ہی اندر انسانی معاشروں کوگھن کی طرح کمزور کر رہا ہے سبھی رازوں سے پردے کہاں اُٹھیں گے لیکن جو مشتے نمونہ از خروارے ظاہر ہورہا ہے وہ بھی کچھ کم ہوش ربا نہیں اربوں کھربوں ڈالر کی کرپشن حکومت اور حزب اختلاف سے وابستہ لوگ ہر جگہ کررہے ہیں ،عمائدین ، سیاسی لیڈر،کسی چھوٹے بڑے منصب پر فائز اشخاص یہاں تک علاقوں اور محلوں کی سطح پر بھی اگر کچھ لوگوں کے ہاتھ میں کوئی چھوٹا بڑا اختیار ہے تو اُس کا غلط استعمال ایک چھوٹے سے استثنا کے سوا کہاں نہیں ہورہا ہے؟ اِس گند کاڈھکن آج کی دنیا میں تھوڑا سا کھسک گیا ہے اور مختلف لیکس کے بعد آج دنیا میں پانامہ لیکس اور پیراڈائز لیکس کا چرچا ہے ہزاروں حکمرانوں ، بیوروکریٹوں، سیاسی و سماجی لیڈر حضرات کے منہ پر لگایہ کالک دور سے دکھ رہا ہے_____ ہر برائی مسلمانوں کے سر تھوپنے والے لوگ آج دیکھ رہے کہ اس سیلاب بلا میں ملکہ ایلزبتھ اور شہزادہ چارلس بھی بہتا ہو انظر آرہے ہیں، مختلف غیر مسلم ممالک کے بڑے بڑے حکمران اس حمام میں ننگے دِکھ رہے ہیں، ایسا بھی نہیں کہ مسلمان ممالک دودھ کے دھلے ہوئے ہیں ۔ وہاں سے بھی اس تعلق سے المناک خبریں سننے کو مل رہی ہیں ۔ پاکستا ن میں تو اس وقت حکمران اور اپوزیشن دونوں پر شکنجہ کسا ہوا ہے ۔ دنیا کے ہر کونے سے غبن ، خرد برد ، رشوت اور بدعہدی کے نتیجے میں اربوں کھربوں ہضم کرنے والے کائنات کے سبھی لٹیروں کو نشانِ عبرت بنانے کے مطالبات ہورہے ہیں۔ یہ بس چند ممالک کی بات نہیں بلکہ ایک عالم اسی ڈگر پر گامزن ہے ۔ عالمی سطح پر کرپشن اور بد عنوانی پر نگاہ رکھنے والے بین الاقوامی ادارے ٹرانسپیر نسی انٹرنیشنل نے اپنے سالانہ رپورٹ میں واشگاف کر دیا ہے کہ اس وقت عالمی سطح پر رشوت اور بدعنوانی زندگی کا ایک لازمی جز بن کے رہ چکی ہے ۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ ڈنمارک ، فن لینڈاور نیوزی لینڈ دنیا میں سب سے کم بدعنوان ممالک کی فہرست میں اور سب سے اوپر افغانستان ، صومالیہ اور شمالی کوریا یعنی سب سے زیادہ کورپٹ ممالک میں شامل ہیں، جب کہ سوئیزرلینڈ ، سویڈن ، کینیڈا اور آسٹریلیا ایسے ممالک ہیں جو کچھ کم بدعنوان ہے ۔ بدعنوان ممالک میں پاکستان ، بنگلہ دیش اور بھارت بھی اس حوالہ سے اپنا لوہا خوب منوارہے ہیں ۔ دنیا کے دو تہائی ممالک بدعنوان ہیں اور کرپشن عالمی معیشت کی رگوں میں سرایت کرچکی ہے۔
دنیا کے 176 ممالک میں اس ادارے نے جو سروے کیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈنمارک ، فن لینڈاور نیوزی لینڈ 90 پواینٹس سے سب سے اوپر ہیں جس کا مطلب ہے کہ ان ممالک کا کرپشن گراف لیول کم ہے۔ افغانستان ، صومالیہ اور شومالی کوریا صرف آٹھ پواینٹس کے سب سے نچلے مقام پر ہیں اور اس طرح ان ممالک میں بدعنوانی سب سے زیادہ تصور کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مندرجات کے مطابق پاکستان176 ممالک کی اس فہرست میں 139 ویں نمبر پر ہے ۔ بنگلہ دیش اور پاکستا ن کے پواینٹس 27 ہیں جب کہ بھارت میں بدعنوانی کی اس سطح میں قدرے کمی ہے ۔ بھارت کے پواینٹس 36 اور نمبر 96 ہے ۔ سال 2011 میں یونان میں بدعنوانی کا نمبر 80 تھا اور اب یہ 94 کے نمبر پر آگیا ہے ۔ اسی طرح بلقان ریاستیں بوسنیا ہر زیگونیااور اٹلی 76 ویں نمبر پر ہیں ۔ اور دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی طاقت چین میں بدعنوانی کی سطح مزید بلند ہوئی ہے اور 39 پواینٹس کے ساتھ اس کا نمبر 80 ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکہ کا نمبر 19 واں ہے ۔ جاپان 17 ویں نمبر پر ہے۔ اور یورپ کی سب سے بڑی معیشت جرمنی کا 79 پواینٹس کے ساتھ اس فہرست میں 13واںمقام ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال روس نے بدعنوانی سے نمٹنے میں کچھ کامیابیاں ضرور حاصل کی ہیں۔ اور 2012 کی فہرست میں اس کانمبر 133 واں ہے۔ اس طرح عرب ممالک میں بھی بدعنوانی کی یہ لہر عروج پارہی ہے۔
درج بالا تفصیلات دینے کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کا ہر گوشہ ٔ زمین کرپشن کی زد میں ہے اور فطرت کا دستور ازلی ہے کہ جب عوامی مال کو ذاتی جاگیر سمجھا جائے گا، حق داروں کا حق مارا جائے گا، حرام ذرائع سے کمائی دولت سے ضمیر پر ہلکی آنچ بھی نہ آئے، زیر دستوں کے حقوق پر شب خون مار کر حویلیاں بنائی جائیں،زمینوں کی خریداری ہو ،آف شور کمپنیاں بنیں، ہوٹلوں اور محلات کی تعمیر ہو، اس حال میں کہ اللہ کی اس بستی میں ایسے بھی لوگ ہوں جو دانے دانے کو ترستے ہوں ، پیسے پیسے کے محتاج ہوں، ہلکی بیماریوں کے علا ج تک کے لئے تہی دست ہوں ، بھوک سے ان کے بچے تڑپ تڑپ کر جان دیتے ہوں تو اللہ کی بے آواز لاٹھی اُٹھ کر دنیا میں بھی ان بے ضمیروں کی چھوٹی موٹی خبر لے ہی لیتی ہے ____ آج دنیا بہ چشم سر دیکھ رہی ہے، وہ جنہیں دنیا سلام کرنے کے لئے حالت قیام میں رہتی تھی ،بد عنو انیوں سے عبارت لیکس سرعام ہونے کے بعد ہر کوچہ و بازار میں رسوائی اور ذلت کے داغ ان کے لئے کھڑے ہیں ۔ ان بے شرموں کو کوئی لاج شرم یہاں ہو نہ ہو لیکن آخرت کی دنیا میں یہ داغِ ضلالت اُنہیں عبرت ناک انجام کو پہنچاکے ہی رہے گا۔ اللہ کی مخلوق کا حق غصب کرنے ، اقرباء نوازی، کنبہ پروری ، بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ سے اپنے محلات تعمیرات کرنے والے کیا آخرت کی اس باز پرسی سے نابلد ہیں جس کا تصور قرآن نے اور اس کے لائے عظیم پیغمبرﷺ نے دیا ہے؟ یہی احتسابِ آخرت کا تصور اصحابِ رسول ﷺ اور ہمارے اسلاف کو لرزاں و ترساں کرکے رکھ دیتا تھا۔ وہ مخلوق کے حقوق کے بارے میں کس قدر حساس ہواکرتے تھے، وہ رُودادیں سن کر انسان ورطۂ حیرت میں پڑ جاتا ہے۔ ایک صاحب کو محاصل کی حیثیت سے کسی دوسری جگہ بھیج دیا جاتا ہے۔ وہاں سے اموال لے کر واپس لوٹتا ہے۔ کوئی خیانت اور بد عہدی بھی نہیں کی ہے۔ البتہ کچھ مال الگ کرکے رکھ دیتا ہے ،وجہ پوچھی جاتی ہے توجواب ملتا ہے کہ یہ چند چیزیں ہیں جو وہاں کے لوگوں نے مجھے تحفے میں دی ہیں ۔ اُسے ڈانٹ پلاکر ہدایت دی جاتی ہے کہ انہیں بیت المال میں فوراً داخل کردو، تم گھر بیٹھے رہتے ؟ حکومت تمہیں یہ عہدہ نہ دیتی ؟ تو کیا یہ تحفے تمہیں گھر بیٹھے مل جاتے ؟ سوال دُرست تھا اور جواب دینے والے نے بھی جواب درست دیا : نہیں ۔فرمایا گیا یہ سب تمہیں نہیں عہدہ اور منصب کو دیا گیا ہے ۔ داخل ِخزانہ کرلو فلاح پاؤ گے ۔یہی محاسبہ ٔ آخرت کا تصور تھا کہ سیدنا ابو بکر الصدیق ؓ نے وصیت میں کہا کہ مجھے اپنے ہی کپڑوں میں دفن کرنا، نئے کپڑوں کی ضرورت زندوں کو ہوا کرتی ہے۔ سیدہ حفصہ ؓ جیسی عظیم بیٹی نے بے مثال باپ سیدنا عمر ؓ کو پھٹے کپڑوں پر پیوند پر پیوند لگاتے دیکھ لیا، عرض کیا آپ شب و روز امت کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں۔ کچھ نئے کپڑے سلوائیں جواب ملا بیٹی عمر کو مسلمانوں کے اموال میں تصرف کرنے کا کوئی حق نہیں ۔ عتبہ بن فرقد ؓنے ایک بار آپ کو سوکھی روٹی مشکل سے حلق سے اُتارتے ہوئے دیکھ کر عرض کیا : کچھ تو اپنی صحت کا خیال کیجئے یا امیر المومنین !اپنی غذا میں تھوڑی سی تبدیلی لائیں، بیت المال کیا کمزور ہوگا ؟ جواب ملا عتبہؓ یہ کیسے ہوسکتا ہے میں تو اس خزانے کا امین ہوں مالک نہیں، مجھ سے اس تعلق سے پوچھا جائے گا ۔عمر بن عبدالعزیز ؒکو ایک عامل نے دفتر کے لئے مزید کاغذ کی درخواست بھیج دی ،جواب میں لکھا: عامل صاحب ! اسراف سے بچو، سطر چھوڑے بنا اور باریک قلم سے لکھا کرو تاکہ کاغذ زیادہ استعمال نہ ہو ۔یہ اللہ کی مخلوق کی ملکیت ہے، تیری میری نہیں ،اس کا مناسب اور حسب ضرورت استعمال کرو۔ اس حوالے سے بھی اللہ کے یہاں باز پرس ہوگی _اور یہی ہیں وہ حکمران جن کی تعریفوں میں آج گبن، ویدرک، بارناڈشا، گاندھی اور فلپ ہٹی جیسی شخصیات رطب اللسان ہیں کیونکہ یہ بے نفس وبے لوث لوگ تھے ۔ یہ اسلام کا نظام تربیت تھا کہ جس شخص کو کوئی منصب عطا ہو ،وہ اسے امانت سمجھے ،اس عہدہ و مقام کا کسی بھی صورت ایسا استعمال نہ ہو جو رسوائی آخرت کا باعث بنے۔ یہ عظیم لوگ آج اس دنیا میں نہیں لیکن ان کا نام سنتے ہی رو ح و بدن میں لذت کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ اب رہے آج بساط عالم پر قابض عیش پرست حکمران اور خود غرض منصب دار کہ جن کا ذکر آتا ہے توتیوریوں پر بل چڑھ جاتے ہیں۔ کتنا فرق ہے؟ ایک واضح فرق !آخرت پسندی اور آخرت فراموشی کا ، اور ہمارا ایمان ہے وللآخرۃ خیر وابقی۔عربی میں ایک مقولہ ہے کہ مچھلی کے خراب ہونے کا عمل اس کے سر سے ہی شروع ہوجاتا ہے۔ اس لئے سر کا سلامت رہنا ہر لحاظ سے ضروری ہوتا ہے۔ اسی طرح کورپشن اور بدعنوانی کا عمل بھی اُوپر یعنی حکمرانوں ، سیاست دانوں ، بیوروکریٹوں اور دیگر عمائدین سے شروع ہوتا ہے جو نیچے جاکر بنیادوں کو کھوکھلا کرتا ہے۔ اس لئے اس طبقے کے احتساب کے صاف و شفاف اور کھلے عام بندوبست سے ہی اصلاح ممکن ہے ۔ اس کے لئے عدل کا بے باک اور بے لاگ نظام چاہیے جس سے اس فساد کی روک ممکن ہو اور یہ نظام بس اسلام کے پاس ہے جس کا مشاہدہ خود جشم فلک نے ایک مدت تک کیا ۔
اپنے اس خطۂ مینو سواد کا ذکر بھی اس حوالہ سے کیا کیا جائے یہاں بھی آپا دھاپی کا عالم ہے۔ حصول ِ دھن کی دوڑ میں چھوٹے سے استثنا کے سوا ہر شخص اسی دوڑ میں سر مست ہے۔ مال و سیم و زر کے حصول کی اس خواہش نے کس قدر کچھ لوگوں کو اندھا بناکے رکھ دیا ہے ۔ ایک محفل میں دفعہ 35-A اور دفعہ 370 کے حوالے سے حکمرانوں کی نیت بد پر تشویش کا اظہار کیا جارہا تھا تو ایک مردہ ضمیر بندہ جمائیاں لیتے اور پاؤپسارتے ان لوگوں سے مخاطب ہوا :افسوس ہے تمہیں نہیں دِکھتا کہ دنیا مادی ترقی کے کس عروج پر ہو اور تم ابھی ان دفعات کے محافظ بنے بیٹھے ہو؟ آخر ان سے ہمیں کیا ملنے والا؟ اور جب اس پر ان دفعات سے مبینہ طور چھیڑ چھاڑ کے نتائج بیان کرتے ہوئے کہا گیا کہ ان کے خاتمے سے ہمارا تشخص اور شناخت ختم ہوکے رہے گی، تو جواب میں اس عقل کے اندھے نے کہا کہ کتنے دقیانوسی ہو کب تک اس کی حفاظت میں آسن جمائے بیٹھو گے ؟ تمہیں کیا پتہ کہ یہ دفعات ختم ہوں تو یہاں زمینوں کے معمولی ٹکڑے اربوں کھربوں بکیں گے اور پھر دیکھئے کہ ہم ترقی کے ایسے زینو ںپر ہوں گے کہ کائنات عش عش کر ے ۔ حاضرین نے اس سوچ پر آیت استرجاع ضرور پڑھی لیکن ہمارے یہاں اس قبیل اور اس سوچ کے لوگوں کی بھی کمی نہیں جن کی حُبِ دنیا نے ان کی بصیرت اور بصارت دونوں چھین لی ہے۔ اور ان کے سامنے دین، تشخص اور اسلامی شناخت کی بھی کوئی حیثیت نہیںانا للہ وانا الیہ راجعون ۔ حاصل بحث یہ کہ جب تک حاکم و محکوم کے اذہان و قلوب میں دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کی جواب طلبی کا تصور جاگزیں نہیں ہوتا ہر شخص حسب اختیار رشوت بد عنوانی اور کنبہ پروری کی زد میں رہے گا۔ ہے کوئی جو سبق حاصل کرے ؟ اور کتنا خوب کہہ گئے حضرت علی ؓ اپنے انصاف پر ور فرما نروا عمر ابن الخطاب ؓ :’’آپ خود پاک باز بنے تو آپ کی رعایا پاک باز ٹھہری اور اگر آپ ہر جگہ منہ مارتے پھرتے تو آپ کی رعایا بھی بھٹک جاتی!‘‘
رابطہ 9419080306