کشمیر میں بلندپایہ بزرگان دین اور اولیائے عظام ؒ نے اپنی دینی خدمات کے نقوش جابجا ثبت کرکے بندگان ِ خدا کی رہبری ہی کی ، ان سے محبتوں اور عقیدتوں کا خراج پایا بلکہ ان پاک نفوس انسانوں کو اللہ کی رضا جوئی کے ساتھ ساتھ ان کے دم قدم سے اہل وطن کو حیاتِ مستعار کے بے شمارمسائل کا تیر بہدف حل بھی ملا۔ ان کی سنہری خدمات ہمارے لئے آج بھی مشعل راہ ہیں۔ اسی کہکشاں میں سادات علویہ سے تعلق رکھنے والے حضرت شیخ الاسلام جامع السلاسل مولانا شیخ اکمل الدین بیگ خان بدخشی علیہ رحمہ شامل ہیں، آپؒ گیارہویں یا بارہویں صدی ہجری کے کشمیر کے ایک معروف ترین عالم دین،روحانی بزرگ ،چہاردہ سلاسل کے صاحب ارشاد شیخ المشائخ ، مصلح ومرشداور اعلیٰ پایہ سخن ور گذرے ہیں۔کشمیر کے اکثر مبلغین ِرُشد حضرت مرزا ؒکے حلقہ ٔ ارادت سے بالواسطہ وبلاواسطہ منسلک ہیں ۔ حضرت مرزا صاحب ؒ کے خلفاء کی تزکیاتی وتربیتی خدمات سے مزئین روح پرور تحریک کشمیر کے اطراف واکناف میں پہنچی۔حضرت مرزا ؒکے آباء واجداد حجاز مقدس سے تبلیغی خدمات کی انجام دہی کے لئے و سط ایشیاء ترکستان پہنچے جہاں ان کے مورث اعلیٰ حضرت خواجہ سلطان احمد یسوی ؒ کے روضہ کے در ودیوار سے آنجناب ؒ کی گراں قدر خدمات کی گواہی ٹپکتی ہے ؎
بود جدِجدم ترکستان
خواجہ احمد جد مندان
ان ہی کی ذُریت میں سے کچھ حضرات ہجرت کرکے بدخشاں پہنچے ۔یہی وجہ ہے کہ انہیں بدخشی کے نام نامی سے بھی پکاراجاتا ہے ۔ بدخشاں سے ہندوستان آئے جہاں حضرت مرزاؒ کے آباء و اجداد کے علمی تبحر ،انتظامی صلاحیت اوراخلاقی حسانت کی بناء پرمغلیہ سلاطین کی سے طرف انہیںعزت واکرام دے کر شاہی دربار سے وابستہ کیاگیا ۔ بادشاہ جہانگیر کے زمانے میں حضرت مرزاؒ کے دادا مرزا ملک محمدخان کو کشمیر کا صوبیدار بنایاگیا ۔ان کی خداداد قابلیت کے اعتراف میں انہیں مرزا بیگ وخان کے القاب وخطابات عطاکئے گئے ۔مرزا ملک محمد خان کے فرزند مرزا عادل خان اور ان ہی کے جلیل القدر وسرمایہ علم وعمل فرزند دلبند جناب حضرت مرزا صاحب ؒ ہیں جن کی ولادت دور شاہجہانی میںہوئی۔شاہی دربار کے ساتھ مضبوط وابستگی اورشاہی خانوادے کی نجی زندگی کے پیوست ہونے کے سبب شاہجہان نے ہی ان کانام کامل خان رکھا ؎
کاملم شاہجہاںنام نہاداست آں رون
کاندریں دارِ فنا کرد خدا میلادم
حضرت مرزا ؒ نے شاہ جہاں کے شہزادوں دار اشکوہ واورنگ زیب کا ہم درس ہوکر بے شمار علوم حاصل کرلئے۔ دینی علوم کے غواصی کی بناء پرانہیں زمانہ نے شیخ الاسلام تسلیم کیا اور حضرت مرزا ؒ نے اکتیس سال حضرت شیخ حبیب اللہ عطار ؒ کی صحبت میںگذارکران سے روحانی فیوض حاصل فرمائے ۔سلوک کے منازل طے کرتے ہوئے ظاہراً وباطناًان میں درجۂ تکامل پانے سے اکمل الدین کا خطاب مرشد سے پایا ؎
اکمل الدین لقبم کردز احسان مرشد
چونکہ بسیار بخاک در او اُفتام
حضرت مرزا ؒ اپنے مرشد کامل کے مدحت سرائی میں فرماتے ہیں کہ انہوں نے مجھے باطنی سیر میں اتنا بلند کیا کہ مجھے اعلیٰ طمانیت اوروسیع درجے کا روحانی مشاہدہ نصیب ہوا ؎
از یقینت یقین چوں شد حاصل
زاں علم الیقین شدی حاصل
گریقین یقین بہ بینی تو
اکمل الدین از ایل دینی تو
اسی یقین وطمانیت کی بیش بہا دولت کو اپنی استعداد سے خلفاء میں منتقل کرکے دین کی تعلیم عام کی اور کشمیر کے بزرگانِ دین میں ایک امتیازی مقام حاصل کیا ۔ آپ ؒ کے خلفاء میں سے حضرت شیخ نعمت اللہ کلو، شیخ عبدالوہاب نوری ؒ ،خواجہ عبدالسلام قلندر ؒ، سید محمد اعظم دیدہ مریؒ (مورخ کشمیر) مرزا فرہاد بیگ ؒ، شیخ نعمت اللہ ترنبوؒ، مولانا نورالدین نوشہریؒ، خواجہ قایم الدین پتلو ؒ وغیرہ سرفہرست ہیں اوران کے جانشین خلفاء نے کشمیر نے پیغام حق کو عام کیا ۔ان کی دینی خدمات تاریخ کشمیر میں آب ِ زر سے رقم ہیں۔ حضرت مرزا ؒ کی تحریری خدمات اتنے فکری وپُر اثر ہیںکہ اگر ان کی تشریحات کی جائے تو قلم اشجار وبرگ اشجار برائے کاغذکا محاورہ صادق آئے ۔
’’بحرالعرفان ‘‘ حضرت مرزا صاحب ؒ کی یادگار و شاہکار مثنوی ہے جو اصول دین کے مضبوط اشجار کی واضح آبیاری کر تی ہے اوران اصولوں کی روحانی کیفیت ’’احسان‘‘ کی شرح ہے ۔ حضرت سروردوعالم ﷺ نے درجہ ٔ احسان کی توضیح فرمائی ہے کہ احسان یہ ہے کہ بندہ ٔ مومن عبادتِ خداوندی ایسے اندز امیں کرے گو یا وہ اللہ کو دیکھ رہاہو اوراگر یہ کیفیت پیدا نہ ہو تو یہ سمجھے کہ اللہ مجھے دیکھ رہاہے ( حدیث جبرئیل ) ۔ اس مثنوی میںتوحید روزہ نماز زکوٰۃ حج ذکر واذکار جذبیت مرشد ومرید کے اوصاف وتعلقات پر مستقل ابواب سے اس منظوم شہکار کو مزین کر کے آں جناب ؒ نے اہل ایمان کی صحیح رہنمائی کا ایمانی دفتر کھولا ہے۔ذکر اللہ کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں اپنے زرخیز زمین قلب میںذکر اللہ کی تخم ریزی کر واور اعمال صالحہ وخلوص کے آبِ زلال سے سیراب ہو کر تفکر سے اسے حفاظت کر نا تاکہ یہ ایک مضبوط قامت شجر یقین وایمان بنے جسے کوئی ہوائے باطل گرانہ سکے ؎
تخم اللہ دردِلت میکار
زاں برویہ شجر خود از دیار
اس درخت کامیوہ دیدار اقدس ِمولیٰ ہے جہاں صبح ہے شام نہیں ،جہاںطلوع ہے غروب نہیں ،جہاںکے انوار روح اوربدن کو فیض یاب کرکے مقام ِصمدیت سے نوازا جاتا ہے، جہاں آسمان کی بلندیوں سے مائدۃ من السمآء سے مہمان نوازی کی جاتی ہے جو دنیا فضلات دنیا سے پاک ہے۔
آکل نور شدم نیست غذائیم خاکی
للہ الحمد کہ من دوچہ مقام اوفتام
یہ ذکر مومن وسالک کو معدوم ہونے سے بچاکر حیات جاودانی نصیب کرتی ہے ۔قطرے کو سمندر اپنے وحدت میں سمیٹ کر دوئی کی فرق ختم کرتا ہے ؎
از دوئی گفتگو غیب ہست
آں دو بین صورتی نہ خواہد ہست
جناب حضرت مرزا اکمل الدین ؒ کی ایک اور علمی وروحانی رموزات پر مبنی لافانی تخلیق ’’مخبر الاسرار‘‘ ہے جس کی شرح ہزاروں ابیات میں از فرزند شاہ ہمدان میر سید محمد ہمدانی ؒ جناب میر سید محترم لاہوری نقشبندیؒ سے ہوا ہے ۔اس کا انکشاف کر نے والے جناب حضرت مرزا ؒ کے خلیفہ حضرت شیخ عبدالوہاب نوریؒ ہیں ۔ ممکن ہے یہ شرح ان کے مقفل کتب خانے میں بصورت ’’خدایَس حوالہ‘‘ موجود ہو، اس میں حضرت مرزا ؒ نے مقامات ناسوتی ، ملکوتی ، جبروتی ، لاہوتی ، وہاہوتی وغیرہ پر دقیق بحث کی ہے ۔سننے میںآیا ہے کہ جب میر سید غلام محمد اندرابی کرالہ پورہ نے اس کتاب سے چند اشعار امرتسر کے ایک معروف اہلحدیث عالم دین کے سامنے پیش کئے کہ وہ استغراق میں اتنے مست ومحو ہوئے کہ واپسی پر امرتسر سے اس کتاب کی نقل بھیجنے کی استدعا کی ۔اسی کتاب کے ایک شعر میں فرماتے ہیں کہ یہ ’’بحرالعرفان ‘‘کا ایک قطرے کی تشریح میرے زبان سے ظاہر ہوئی ہے، ایسے بے شمار ’’بحرالعرفان‘‘ میرے دل میں جھومتے ہیں جس میں معرفت کے بے حساب وبے شمار دُرِ بے بہا موجود ہیں۔