گزشتہ دنوں وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ کا یہ بیان کہ وہ کشمیر مدعے پر سب کے ساتھ گفت وشنید کر نے کو تیار ہیں ، ایک خوش آئند سوچ کاغماز ی کرتا ہے ۔ بلاشبہ یہ بیان مرکز کے رویے میں ایک خوشگوار لچک اور تازہ ہوا کے جھونکے کا تاثر دیتا ہے ۔ قبل ازیں نئی دلی نے نیویارک میں ہند پاک وزرائے خارجہ کے بیچ مجوزہ ملاقات کو مستردکر کے اپنے تیور تیکھے کئے تھے، لہٰذا’’ کشمیر پر سب سے بات‘‘ کی یہ پیش کش نرم روی کے لحاظ سے کافی دلچسپ ہے ۔ باوجود یکہ’’ کشمیر پر سب سے بات‘‘ کی گفتنی سے اسلام آباد کو بھی شامل سمجھنے کا کوئی اشارہ نہیں جھلکتا ،پھر بھی اس سے لامحالہ مترشح ہوتاہے کہ مرکز کشمیر مسئلہ پر ڈائیلاگ پروسس سے کلی اجتناب کا روادار نہیں ۔ وزیر داخلہ کے اس بیان کے پیچھے جو بھی سیاسی مقاصد کارفرما ہوں، اُن سے قطع ِنظر، کشمیر کے تند وتلخ زمینی حقائق کا تقاضا یہ ہے کہ مذکرات کا ٹوٹا ہواسلسلہ کہیں نہ کہیں سے از سر نو شروع کیا جائے۔ ہاں، مرکزاسی صورت میں مذاکراتی عمل کو ثمر بار دیکھ سکتا ہے اگر یہ داخلی اور خارجی سطحوں پرڈائیلاگ موافق سیاسی ماحول پیدا کر نے میں سنجیدہ پہل کرے ۔اس بناپربحالی ٔ اعتماد کے تمام تر موزوں اقدامات کر نا وقت کی ا ہم ضرورت ہے۔ یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ جہاں دیر سویر اسلام آباد سے خارجی سطح پر کشمیر کی گتھی سلجھانے کے لئے مرکز کی گفتگو ازبس ناگزیر ہے، وہاں داخلی سطح پر اسے کشمیر میں بہت ساری اُلٹی پلٹی چیزیں دُرست کر نے کو زیادہ دیر نظر انداز نہیں کر نا چاہیے ۔ لازم بنتا ہے کہ ان تین نکات پر مر کز کا فکر وعمل مرکوز رہے: اول آوپریشن آل آوٹ کے اثرات ومضمر ات کا آڈٹ کیا جائے، دوم دفعہ ۳۵؍الف کے ایشو پر ایک واضح موقف اپنایاجائے، سوم ریاست کے عام آدمی کو درپیش روزمرہ معاشی مسائل کا بروقت حل ڈھونڈا جائے۔ یہاں تصویر کے اس رُخ کا حوالہ دینا بھی برمحل ہوگا کہ مر کز کی جانب سے دفعہ ۳۵؍ الف کے تئیں بے جہت اور گومگو پالیسی کے نتیجے میں آج ہند نواز علاقائی سیاسی پارٹیاں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اس حدتک دل برداشتہ اور برافروختہ ہیں کہ انہوں نے احتجاجاً میونسپل اور پنچایت الیکشن کا بائیکاٹ کیا ۔ تصویرکا دوسرا رُخ یہ ہے کہ ایک عرصے سے یہاں کے اربابِ اقتدار مزاحمتی خیمے کے لئے سیاسی سپیس مسدودکئے ہوئے ہیں ، اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ حریت ( گ ) چئیر مین سید علی گیلانی مسلسل خانہ نظربندہیں ، لبریشن فرنٹ کے سربراہ یاسین ملک کبھی گرفتار اور کبھی رہا کئے جاتے ہیں، حریت (ع) کے چئیر مین میرواعظ عمر فاروق کو خاص خاص موقعوں پر خانہ نظر بند کر کے سری نگر کی مرکزی جامع مسجد میں نماز کی پیشوائی تک سے بار بارروکاجارہاہے ، اسی طرح عوام کی نقل وحرکت پرآئے روز قدغنیں ، انٹر نیٹ پر بندشیں، نوجوانو ں کی مسلسل گرفتاریاں وغیرہ ایک رنج دہ کہانی کے مختلف عنوانات ہیں ۔ یہ سب چیزیں مل کرقدرتی طور کشمیر میںسیاسی گھٹن بڑھانے پر منتج نہ ہوں تواور کیا ہو ؟ دنیا جانتی ہے کہ گزشتہ اٹھائیس سال سے کشمیرمیں کشت و خون کی بے شماراَ ن کہی سر گزشتیںرقم ہو ئیں ، بشری حقوق پامال ہوئے ، خاص کر جوان نسل مخاصمانہ صورت حال کا خمیازہ اٹھا تی ہے ، خواتین کے تئیں بدسلوکیاں معمولات ِ زندگی کا حصہ بن ر ہی ہیں۔تاریخ شاہد عادل ہے کہ وادی ٔکشمیر میں 2008ء کے امرناتھ لینڈ ایجی ٹیشن ،2009 ء میں شوپیان میں آسیہ نیلوفر ٹریجڈی ، 2010ء میںایک سو بیس نوجوانوں کی وردی پوشوں کے ہاتھوں قتل عام ، 2016 ء کے ناقابل بیان المیے اسی ایک غم انگیز سرگزشت کے وہ داغ دھبے ہیں جو وردی پوشوں کے منفی رول پر دلالت کر تے ہیں ۔ بعینٖہ فروری ء میں کنن پوش پورہ میں بدنام زماں اجتماعی عزت ریزی کا سانحہ ،مارچ2000 ء کوپتھری بل میں پانچ نہتوں کی وردی پوشوں کے ہا تھوں ماورائے عدالت ہلاکت اور ان کی تحقیقات کے لئے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے عہد حکومت میں جسٹس پاندیان کمیشن کافورسز کو موردالزام ٹھہرانا ،اسی سیاہ کتاب کے کالے اوراق ہیں۔بہر حال آج جب مر کز کشمیر میں سب کے ساتھ گفت وشنید کا ایک خوش کن اعلان کر رہاہے ،اسے چاہیے کہ یہ جہاں اس سرگزشت کے شکار لوگوں کو میرٹ کی بنیادوں پر انصاف د لائے ، وہاں مرکزا ولین فرصت میںایسی قوتوں کو لگام دے جو افسپا کی آڑ میںعوام میں سیاسی گھٹن کا باعث بن رہی ہیں ۔ یہی ایک راستہ ہے جس پر چل کر اس ناگفتہ بہ سرگزشت کا حجم اور نہ بڑھنے سے روکاجا سکتا ہے۔ نیزامن کا ہدف پانے کے لئے یہ بات لازم وملزوم ہے کہ تمام وردی پوشوں کو بشری حقوق کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ احتیاط برتنے کی ٹریننگ دی جائے اور انہیں ہر ایکشن کے ضمن میں جواب دہ بھی بنایاجائے ۔ یہ بات محتاج تشریح نہیں کہ جدید معاشرے میںپولیس جرائم کے سدباب‘امن و قانون کی حفاظت اور شہری آزادیوںکے دفاع میں بنیادی اہمیت رکھتی ہے ۔ جہاں سماج میں بہتر پو لیسنگ ہو وہاں یقیناجرایم ٔ پر روک تھام ممکن ہو تی ہے ‘ امن وقانون سے چھیڑچھاڑ بہت کم ہوتی ہے ، شہری آزادیوں کی حرمت یقینی بن جاتی ہے ۔ کشمیری عوام ایک عرصے سے اُس د ن کو دیکھنے کے آرزو مند ہیں جب وردی پوشوں کی ہراسانیاں قصۂ پا رینہ بن جائیں ، جب لو گو ں کا امن وسکون لوٹ آ ئے ، جب والدین اپنے جواں سال لڑکوں کے بلاوجہ گرفتار ہونے کی فکروں اوراندیشوںسے نجات پائیں۔ جب تک ارباب ِ حکومت اس عوامی آرزو کوعملی جامہ نہ پہنائیں،یہاں قا نو ن کی حکمرانی اور انصاف کی بالا دستی دیوانے کی بڑ ہوگی۔ ان حوالوں سے ہوا کارُخ سمجھنے کے لئے غور طلب امر یہ ہے کہ مزاحمتی قوتیں حکومتی کارروائیوں سے شاکی ہیں ہی ہیں مگر اب مین اسٹریم پارٹیاں، انسانی حقو ق کے علمبردار ، دانش ور ،صحافی اور تجزیہ نگا ر بھی بیک بینی و دو گو ش متعلقہ حکام کو مسلسل یہ صلاح دیتے رہے ہیں کہ کشمیر میں امن عامہ کے وسیع تر مفاد میں ناراض نوجوا نو ں کے متعلق لاحاصل سخت گیر پالیسیاں ترک کی جا ئیں ۔ وقت آیا ہے جب کشمیر میں بحالی ٔ اعتماد اور مفاہمت کے نقطہ ٔ نظر سے انتظامی مشنری کی رَگ رَگ میں نظم وضبط ، عوام دوستی اور جوابدہی کا خون دوڑایا جائے، زیر حراست نوجوانوں کے ساتھ نرمی کی جائے، جہاں تک ممکن ہو انہیں جلدرہاکیا جائے ، البتہ جب تک وہ قید وبند میں ہیں ،اُن کے ساتھ بہتر سلوک روا رکھاجائے ، پیلٹ گن کا اندھا دُھند استعمال فوراً سے پیشتر ترک کیاجائے، سیاسی مخالفین سے کھلے دل ودماغ کے ساتھ افہام وتفہیم کا راستہ اختیار کیا جائے ۔ ان نکات پر مخلصانہ عمل درآمد سے اُمید ہے کہ کشمیر میںداخلی سطح پر امن عمل تقویت پاجائے ۔