شازیہ اختر۔پونچھ
جموں و کشمیر کی تحصیل منڈی کے علاقہ بائیلہ ابھی تک بجلی جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔جسکےباعث یہاں کے طلباء اپنی تعلیم کوپوری نہیں کرپاتے ہیں۔یہاں کی ایک 40 سالہ خاتون غلام فاطمہ کا کہنا ہے کہ بجلی کی عدم دستیابی سے گاؤں کے بچوں کو بہت سی پریشانیاں جھیلنی پڑتی ہیں۔ شادی کے 20 سال بعد بھی میں نے ابھی تک بجلی نہیں دیکھی ہے، میری دو بچیاں سکول جاتی ہیں جوکہ گائوں سے بہت دور ہے۔ وہ صبح کو اسکول جاتی ہیں اور شام میں واپس گھر لوٹتی ہیں اور بجلی نہ ہونے کی وجہ سےوہ اپنا ہوم ورک بھی نہیں کرپاتیں۔گاؤں کے سبھی بچوں کے لئے یہ صورت حال زبردست نقصان دہ ہے ۔ اس دور میں تعلیم کے حصول کے لئے زیادہ زور دیا جاتا ہے،لڑکا ہو یا لڑکی،تعلیم دونوں کے لیے اہم ہے۔ لیکن افسوس ! بجلی جیسی اہم سہولت سے محروم ہونے کی وجہ سے یہاںکے بچے زیور تعلیم سے مزّین نہیں ہوتے۔ بقولِ غلام فاطمہ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے بچوں کی پڑھائی بُری طرح متاثر ہوتی ہے۔بہت سارے بچے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر مزدوری کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
ایک مقامی بزرگ عبدلاحد،عمر 72 سال کا کہنا ہے کہ میں نے اپنے گاؤں بائیلہ سرمہ میں کبھی بجلی کے بلب روشن نہیں دیکھے۔ کاغذات میں تو بجلی ہر گھر میں موجود ہے لیکن حقیقت میں نہیں۔ ہمیں ہر مہینے بجلی کا بل آتا ہے جو کہ ہم ادا کرتے ہیںلیکن پھر بھی بجلی کا دیدار نہیں ہوسکتا۔چونکہ ہم مظلوم اور غریب عوام ہیں،اس لئے بجلی نہ ہوتے ہوئے بھی ہم سے بجلی کا بل وصول کیاجاتا ہے۔ آخر کب تک ہمارے ساتھ یہ ناانصافی ہوتی رہے گی؟بجلی سے محروم ہونے کی وجہ سے ہمارے گاؤں کے بچوں کا بہت زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔ ہمارے لڑکے پڑھائی ادھوری چھوڑ کر مزدوری کر تے ہیںاورہماری لڑکیاں بے بس اور لاچار ہو کے گھروں میں بیٹھنے پر مجبور ہیں۔بجلی نہ ہونے کی وجہ سے لڑکیوں کی تعلیم میں دلچسپی ختم ہوتی جا رہی ہے۔وہ تو برائے نام اسکول جاتی ہیں کیونکہ جب گھر آکر ہوم ورک کی ضرورت ہوتی ہے تو بجلی نہیں ہونے کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کرپاتی ہیں۔ ساتویں جماعت کی طالبہ 13 سال کی آسیہ کوثر کہتی ہے کہ’’میںصبح اسکول جاتی ہوں اور شام کو گھر واپس لوٹتی ہوں۔مجھے رات کو بیٹھ کر اپنا سکول کا کام کرنا ہوتا ہے لیکن اندھیرے میں اپنے اسکول کا کام پورا نہیں کر سکتی، میں ہی نہیں بلکہ اسکول میں پڑھنے والے میرے گاؤں کے سبھی لڑکے اور لڑکیاں اس صورت حال کا شکار ہیں۔‘‘
منڈی کے جونئیر انجینئر جاوید احمد ملک کہتے ہیں کہ بجلی کی بہتر فراہمی کے لئے مرکزی حکومت کی جانب سے ریوئپیڈ ڈسٹریبیوشن سیکٹر اسکیم (آر ڈی ایس ایس)نام سے ایک نئی اسکیم شروع کی گئی ہے،جس کے تحت اُن تمام جگہوں پر تار اور کھمبے لگائے جائیںگے جہاں کسی وجہ سے بجلی کا کام مکمل نہیں ہو سکا ہے۔ اُن کے مطابق اس پراگلے ماہ اپریل سے کام شروع ہو جائے گا۔ جس کے بعد کوئی بھی علاقہ بجلی سے محروم نہیں رہے گا۔ آر ڈی ایس ایس یعنی نظر ثانی شدہ ڈسٹری بیوشن سیکٹر اسکیم حکومت ہند کی وہ اسکیم ہے، جس میں حکومت نے قبل از اہلیت کے معیار کو پورا کرنے اور بنیادی کم از کم حصول کی بنیاد پر سپلائی انفراسٹرکچر کو مضبوط بنانے کے لیے ڈسکام کو نتیجہ سے منسلک مالی مراعات فراہم کی ہیں۔ اسکیم کو مالی امداد فراہم کرکے اس کی آپریشنل کارکردگی اور مالی استحکام کو بہتر بنانے میں مدد کرنے کے مقصد سے منظور کیا گیا ہے۔ بہر حال بجلی کی کمی کی وجہ سے لڑکیوں کی تعلیم پر سب سے زیادہ منفی اثر پر رہا ہے۔کم عمر میں ہی اُن لڑکیوں کی شادی کر دی جاتی ہےجو اعلی تعلیم حاصل کر اپنے پیڑوں پر کھڑا ہونے کا خواب دیکھتی ہیں۔