وادی میںسرما کا مرحلہ ختم ہوا ہے اور اب آغاز بہار کے ساتھ ہی پہاڑوں پر برف پگھلنے سے ندی نالوں میں پانی کی سطح میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہواہے لیکن بجلی سپلائی میں واضح بہتری کے آثار ہنوز نظر نہیں آرہے ہیں۔موسم سرما کی ابتدأمیں بجلی کٹوتی کا جو شیڈول جاری کیا گیا تھا وہ برابر قائم ہے بلکہ بعدا زاں جو غیراعلانیہ کٹوتی شروع کی گئی تھی اُس میںبھی فی الوقت کوئی زیادہ فرق نہیں آیاہےاور یہ ایک افسوسناک امرہے کہ وادی کے بیشتر علاقوں میں برقی رو کی طویل کٹوتیاں اب بھی برقرار ہیں،جو ایک ٹارچر سے کچھ کم نہیں ہے ۔ اس ستم ناک صورتحال کے خلاف شہرودیہات میں احتجاج ہونا شروع ہوگئے ہیںمگر انتظامیہ نے بس ایک چپ سادھ رکھی ہے ۔بجلی کی محدود سپلائی کےلئے ہمیشہ پانی کی سطح گرجانے کی وجہ سے بجلی کی پیداوار میں تخفیف کے دلائل پیش کرکے صارفین کو خاموش کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں حالانکہ برف باری کے بعد اب سطحِ آب میں واضح بہتری ہوئی ہے ،جس سے سپلائی میں یقینی طور پر بہتری آنی چاہئے تھی مگر ایسا نہیں ہورہاہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ یہ پاور سیکٹر میں ریاستی انتظامیہ کی ساٹھ سالہ کارکردگی کیلئے ایک سوالیہ نشان ہے ۔ ایک طرف محکمہ کا ہی دعویٰ ہے کہ 1050میگاواٹ کی ضرورت کے مقابلہ میں عمومی طور پر صرف 750 میگاواٹ کے آس پاس کی سپلائی میسر رہتی ہے ، جس میں ریاست کے اپنے پروجیکٹوں سے حاصل ہونے والی بجلی کی مقدار برائے نام ہے اور لگ بھگ سارا زورشمالی گرڈسے درآمد کرنے پر مرکوز ہے ، مگر محکمہ کے پاس اس درآمد کے لئے بھی بنیادی ڈھانچہ میسر نہیں ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے چار نئے ریسوینگ سٹیشن زیر تعمیر ہیں ، جو نامعلوم وجوہات کی بناء پہ مکمل ہونے کا نام نہیں لے پارہے ہیں ۔شمالی گرڈ اکثر وبیشتر ریاست کے نام بقاجات کی عدم ادائیگی کی آڑ میں اکثر درکار اضافی سپلائی کی فراہمی سے منکر رہتاہے اور اگر تھوڑا بہت اضافہ ہوتابھی ہے تو مزید بجلی کی درآمدگی کے لئے محکمہ کے پاس ترسیلی صلاحیتوں کا فقدان ہے ۔ موجودہ صورتحال کودیکھتے ہوئے صارفین پریشان ہیں کہ انکی مشکلات کب ختم ہونگی۔ یہ انتہائی افسوس کا امر ہے کہ انتظامیہ کی طرف سے اسکی طرف کوئی توجہ مرکوز نہیں ہو رہی ہے۔جموں سرینگر شاہراہ کی بار بار خرابی کی وجہ سے صارفین پہلے ہی گیس سپلائی کے بحران سے زبردست پریشانیوں کا شکار رہے ہیں۔ ایسے حالات میں عام لوگوں کاسڑکوں پر آکر احتجاج کرنا نہ صرف منطقی ہے بلکہ ان کی مجبوری بھی ہے۔اسی وجہ سےرواں ایام میں شاید ہی کوئی ایسا دن گزرتاہے ہوگا جب بجلی کی نایابی ،ٹرانسفارمروں اورترسیلی لائینوں کی خرابی پر عوام کی طرف سے برہمی کا اظہار نہ کیا جاتا ہو۔ اس پر محکمہ بجلی کی طرف سے مدعی سست گواہ چست کے مصداق برقی رو کی نایابی کے باوجود میٹرینگ کا بے ہنگم سلسلہ شروع کیا جارہا ہے۔موسم میں بہتری آنے سے یقینی طور بجلی سپلائی میں بہتری آنی چاہیے تھی ،یہی عوام کی اُمید ہے ۔لہٰذا حکومت کو چاہئے کو وہ عذرخواہی کا روّیہ اختیار کرنے کی بجائے صارفین کی مشکلات کا ازالہ کرنے کے لئے سنجیدہ کوشش کرے، کیونکہ جلد یا بدیر ہرحکومت کو اس طرح کے معاملات کے لئے عوام کے سامنے جوابدہ ہونا پڑتاہے ۔