ریاست میں موسم سرما کی شروعات کے ساتھ ہی بجلی کی سپلائی میں جو بگاڑ پیدا ہوگیا ہے، وہ ہر گزرنے والے لمحے کے ساتھ شدید تر ہوتا جا رہا ہے اور حکام کی یقین دہانیوں کے باوجود اس میں بہتری کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سرمائی ایام کے دوران بجلی کی پیدا وار میں کمی واقع ہونے کے بہ سبب سپلائی کا نظام متاثر ہوتا ہے لیکن لوڈ شیڈنگ کے ایک معقول نظام کے ذریعہ کٹوتی کا سلسلہ بہتر انداز میں نافذ کیا جاتا رہا ہے، جس کی وجہ سے صارفین مشکلات کے باوجود معمولات کی ترتیب کرنے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔ لیکن رواں برس کٹوتی کا شیڈول بس نام کا ہو کر رہ گیا ہے اور محکمہ کو، جب چاہئے جس وقت چاہئے، بجلی کی سپلائی بند کرنے میں کوئی وقت محسوس نہیں ہوتی۔ جس کی وجہ سے عام لوگوں کے معمولات بُری طرح متاثر ہوجاتے ہیں، خاص کر چلۂ کلان کے ان ایام میں جب شبانہ درجہ حرارت اکثر منفی رہتا ہے۔ اب کی بار لوڈ شیڈنگ کے اس ناقص نظام کی وجہ سے صرف وادیٔ کشمیر ہی متاثر نہیں ہوتی ہے بلکہ جموں صوبہ کے بیشتر علاقے، خاص کر چناب اور پیر پنچال کے خطے، بھی بُری طرح لپیٹ میں آگئے ہیں۔چنانچہ مشرق سے مغرب اورشمال سے لیکر جنوب تک بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہاہاکار مچی ہوئی ہے۔روزانہ شاہراہوں اور سڑکوں پر احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں، چیخ و پکار ہو رہی ہے، لیکن اس پر کان نہیں دھرا جاتا ہے۔یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ آبی وسائل سے مالا مال ریاست جموں و کشمیرمیں بجلی کا بحران سلجھنے کی بجائے الجھتا ہی جارہا ہے۔ 20ہزارمیگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والی اس ریاست میں آج بھی سینکڑوں دیہات ایسے ہیںجنہوں نے بیسوی صدی میں بھی بجلی کا منہ نہیں دیکھا اور وہ آج بھی چوب چراغ اور موم بتیاں جلا کر اپنی راتوں کوروشن کرتے ہیںاور اب جہاں بجلی کی سپلائی پہنچائی گئی ہے ،وہاں بھی ترسیلی نظام کاحال انتہائی خراب ہے۔آخر کیا وجہ ہے کہ دوسری ریاستوں کو بجلی فراہم کرنے والی ریاست ، ایسے ایام کے دوران جب لوگوں کو اس کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے،کے لوگ خود اس نعمت سے محروم ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ریاستی ارباب حل و عقد ماضی کے تلخ تجربات سے کوئی سبق سیکھنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ورنہ اگر ایسا ہوتا تو شاید آج وادی میں بجلی کی ایسی ابتر صورتحال نہیں ہوتی۔جگہ جگہ میٹراورٹرانسفارمر نصب کرکے یہ تاثر دیا گیاکہ میٹر یافتہ علاقوں میں بجلی سپلائی چوبیس گھنٹے جاری رہے گی تاہم اب کے یہ حالت ہے کہ ان علاقوں میں شام کے اوقات گھر منور ہونا تو دور کی بات تھی ،میٹر کے انڈیکیٹر بھی بغیر کسی خلل کے کبھی روشن نہیں ہوتے ہیں۔ محکمہ بجلی کے نزدیک کٹوتی میں مزید اضافہ وادی میں بجلی کی طلب اور سپلائی میں بڑھتی خلیج کو پاٹنے کیلئے کیاجاتا ہے۔یہ ایک ایسا بہانہ اب بن چکا ہے جس پر اعتبار کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ہے کیونکہ ہر سال بجلی کی عدم دستیابی کیلئے یہی عذرپیش کیا جاتا ہے۔ایسے بہانے تراش کر محکمہ بجلی بالعموم اور ریاستی حکومت بالخصوص کشمیری عوام میں اپنی ہی پوزیشن مضحکہ خیز بنارہی ہے۔انتظامی مشینری کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ وہ بجلی فراہم کرکے صارفین پر کوئی احسان نہیں کررہے ہیں بلکہ یہ سرکار کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو تمام ضروری سہولیات دستیاب رکھے۔حکومت وادی میں بجلی بحران کیلئے سندھ طاس آبی معاہدہ کو ذمہ دار ٹھہرائے یا نیشنل ہائیڈروالیکٹرک پاور کارپوریشن کی سینہ زوری کا رونا روئے ،صارفین کا اس میں کوئی رول نہیں بنتا ہے کیونکہ یہ ’’رموزِ مملکتِ خویش خسرواں داند‘‘والا معاملہ ہے۔انصاف کا تقاضا ہے کہ صارفین کو حسب شیڈول وایگریمنٹ بجلی فراہم ہونی چاہئے تاہم مشاہدے میں آیا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہورہا ہے بلکہ اس کے عین برعکس سردی کے ان کٹھن ایام میں ہی صارفین کو برقی رو کی سپلائی کیلئے ترسایا جارہا ہے ۔ این ایچ پی سی نے ماضی میں بجلی پروجیکٹ ریاست کو یہ کہہ کر منتقل کرنے سے صاف انکارکر دیا ہے کہ بھارت ایک خودمختار ملک ہے اور جموں و کشمیر اس ملک کا حصہ ہے ،لہٰذا بھارت سرکار کی زیر نگرانی کارپوریشن جموں و کشمیر سمیت کسی بھی ریاست میں بجلی پروجیکٹ تعمیر کرسکتی ہے اور ان کی ریاستی سرکار کو منتقلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے ،ایسی صورتحال میں مرکزی حکومت سے سندھ طاس آبی معاہدہ سے ریاست کو ہورہے نقصان کی بھرپائی کی امید رکھنا احمقوں کی دنیا میں رہنے کے مترادف ہوگا۔جب فلائی اووروں کی تعمیر کیلئے ایشین ڈیولپمنٹ بنک ریاستی حکومت کی مالی اعانت کرسکتا ہے توبجلی پروجیکٹوں کی تعمیر کیلئے ایسے ہی آپشن تلاش کیوں نہیں کئے جارہے ہیں۔بغلیہار پروجیکٹ کے دونوں مراحل کی کامیاب تکمیل ہمارے لئے مشعل راہ ہونی چاہئے۔مرکز پر تکیہ کرنے اور بجلی کی ابتری کیلئے کبھی این ایچ پی سی تو کبھی سندھ طاس معاہدہ جیسے بہانے تراشنے کی بجائے ریاستی حکومت کو اپنے پیروں پر کھڑا ہوکر بجلی کے بحران پر قابو پانے کیلئے کوئی سبیل پیدا کرنا ہوگی کیونکہ صارفین ،جو میٹر یا ایگریمنٹ کے تحت باضابطہ فیس اداکررہے ہیں ،ان کا حق بنتا ہے کہ انہیں بوقت ضرورت وافر مقدار میں بجلی فراہم کی جائے اور سرمائی ایام سے زیادہ صارفین کو بجلی کی سب سے زیادہ ضرورت کب پڑ سکتی ہے۔لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنی کمزوریوں کا نزلہ عوام پر گرانے کی بجائے اس سنگین مسئلہ کا کوئی مستقل حل تلاش کرے تاکہ صارفین کو باربار بجلی کی عدم دستیابی کو لیکر سڑکوں پر آکر احتجاج نہ کرنا پڑے۔