بجلی کرنٹ لگنے سے محکمہ بجلی کے ملازمین اور بعض اوقات عام شہریوں کی ہلاکتوں کےواقعات میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے اور آئے ورز ایسی خبریں میڈیا میں دیکھنےملتی ہیں۔چند روز قبل ایک ہی دن پیش آئے دو واقعات میں سرنکوٹ اور راجوری میں دو عام شہریوں کی موت اسی وجہ سے ہوگئی ۔راجوری میں بجلی کی ترسیلی لائن میں تکنیکی خرابی آگئی تھی جس کو ٹھیک کرنے کاکام کیاجارہاہے کہ اس دوران محکمہ کی طرف سے سپلائی چھوڑ دی گئی جس کی زد میں آکر عام شہری لقمہ اجل بن گیا، جس پر پولیس کی طرف سے محکمہ بجلی کے خلاف باضابطہ کیس بھی درج ہواہے جس پر کارروائی ہوگی بھی یا نہیں لیکن ایف آئی آر درج ہونے سے محکمہ کی طرف سے برتی گئی لاپرواہی پوری طرح سے عیاں ہوجاتی ہے۔اسی روز سرنکوٹ میں بھی ترسیلی لائن سے لگ کر ایک نوجوان لقمہ اجل بن گیاجہاں مقامی لوگوں نے الزام عائد کیاکہ یہ ترسیلی لائن زمین سے لٹک رہی تھی جس کو ٹھیک کرنے کے لئے متعدد مرتبہ حکام سے اپیل بھی کی گئی لیکن انہوں نے کوئی توجہ نہیں دی اور نتیجہ میں ایک نوجوان کی جانچ چلی گئی۔دونوں ہی واقعات کیلئے محکمہ بجلی کو ذمہ دار ٹھہرایاجارہاہے ۔اس طرح کی ہلاکتوں کے واقعات میںبتدریج اضافہ ہورہاہے اور ریاست بھرمیں کئی لوگ بجلی کرنٹ لگنے سے اپنی زندگی سے محروم ہوتے جارہے ہیں ۔ان واقعات کے رونماہونے کی ایک بڑی وجہ بجلی کابنیادی ڈھانچہ فراہم نہ ہوناہے اور دور درا ز علاقوں میں آج بھی ترسیلی لائنیں بجلی کھمبوں کے بجائے سرسبز درختوں سے لٹک رہی ہیں جہاں ذرا سا موسم خراب ہوجانے پر پہلے تو بجلی کی سپلائی ہی بند ہوجاتی ہے اور اس کی بحالی کیلئے بعض اوقات مقامی لوگوں کو خودکام کرناپڑتاہے، جنہیں یہ معلوم نہیں ہوتاہےکہ سپلائی چل رہی ہے یا نہیں۔بجلی کے بنیادی ڈھانچے کو مستحکم بنانے کے مقصد کیلئے محکمہ کی طر ف سے آر جی جی وی وائی او ر سوباگیہ سمیت کئی سکیمیں بھی چلائی گئیں لیکن نتائج سب کے سامنے ہیں اور بنیادی ڈھانچے کی فراہمی کے دعوے زمینی حقائق سے کوسوں دور نظر آتے ہیں ۔افسوسناک بات یہ ہے کہ پہلے تو بنیادی ڈھانچے کا فقدان ہے اور دوسرے اگر کوئی حادثہ رونماہوجاتاہے تو متاثرین کی کہیں داد رسی نہیں ہوتی اور نہ ہی عام شہریوں اور نہ ہی کیجول لیبروں کے لواحقین کو انصاف ملتاہے کیونکہ حکومت کے پاس ایسی کوئی پالیسی ہی نہیںہے ۔ اسی سلسلے میں ریاستی گورنر این این ووہرا کی ہدایت پر حال ہی میں محکمہ خزانہ کے پرنسپل سیکریٹری کی صدارت میں ایک میٹنگ منعقد ہوئی جس میں بجلی لائنوں کو ٹھیک کرنے کے دوران بجلی کا کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہوئے افراد کے حق میں معاوضہ جات کی فراہمی سے متعلقہ امور کا جائزہ لیا گیا۔میٹنگ میں بتایا گیا کہ بجلی کی تاروں کی مرمت کے دوران اوسطاً15 سے 20 افراد کی جانیں تلف ہوجاتی ہیں جن میں زیادہ تر کیجول لیبر ر ہوتے ہیں جن کے لواحقین ایس آر او43 کے دائرے میں نہیں آتے ہیں۔واضح رہے کہ کچھ وقت پہلے پائور ڈیولپمنٹ کارپوریشن کی انتظامیہ کمیٹی نے ایسے کیسوں کے حق میں3 لاکھ روپے کا معاوضہ مقرر کیا تھا ،جس میں اضافہ کے لئے ایک منصوبہ ایس اے سی کو بھیجنے کا فیصلہ لیاگیا۔میٹنگ میں بجلی کرنٹ سے معذور ہونے والے افراد کے حق میں بھی معاوضے پر بات ہوئی جس کیلئے ایک مسودہ تیار کرنے پر اتفاق ہوا۔بجلی کرنٹ لگنے سے لقمہ اجل بننے والے یا معذور ہونے والے افراد کے حق میں معاوضے کی فراہمی ان کا بنیادی حق ہے جوانہیں بہر صورت ملناچاہئے ۔یہ بات خوش آئند ہے کہ گورنر انتظامیہ نے اس پر غور کرنا شروع کردیاہے اور امید کی جانی چاہئے کہ بہت جلد ایسی پالیسی مرتب کرلی جائے گی جس سے نہ صرف مستقبل میں رونماہونے والے واقعات کے متاثرین سے انصاف ہوسکے گابلکہ ماضی میں پیش آچکےحادثات کے متاثرہ کنبوں کو بھی انصاف فراہم کیاجائے گا۔اس طرح کی پالیسی کے ساتھ ساتھ بجلی کے بنیادی ڈھانچے کو مستحکم بنانے کی بھی ضرورت ہے جس سے ہلاکتوں کا سلسلہ کم ہوسکتاہے ۔