ریاست کے دور افتادہ اور پہاڑی علاقوں میں بجلی کا بنیادی ڈھانچہ اس قدر غیر مستحکم ہے کہ موسم میں ذراسی غیر معمولی تبدیلی آنے یا بارش ہوجانے پر بجلی کاٹ دی جاتی ہے اور ترسیلی لائنیں ٹکراجانے سے ٹرانسفارمر جل جاتے ہیں اوراگر برفباری ہوجائے توپھرا س کے پگھلنے تک سپلائی بحال نہیںہوتی ۔یہ صورتحال ہر ایک موسم اور خاص طور پر سرما کے دوران بار بار دیکھنے کو ملتی ہے تاہم سکیموں اور پروگراموں کے عملائے جانے اور حکام کی طرف سے بڑے بڑے دعوے کئے جانے کے باوجود بنیادی ڈھانچے میں اب تک کوئی استحکام نہیں لایاجاسکا ہے اور لوگوں کو آج بھی وہی مشکلات درپیش ہیں جن کا سامنا وہ برسہا برس سے کرتے آرہے ہیں۔حالیہ برفباری کے دوران بھی ایسی ہی مشکلات دیکھی گئیں اور کئی علاقوں میں بجلی سپلائی ہنوز بند پڑی ہے ۔ریاست میں بجلی پیدا کرنے کے وسائل تو بہت ہیں مگر اس کا ڈھانچہ متاثر ہونے پر متبادل یا فوری طور پر اس کی مرمت کا کوئی مؤثر انتظام موجود نہیں ہے اور ٹرانسفارمروں کو ٹھیک کروانے کیلئے کہیں ہفتے تو کہیں مہینے لگ جاتے ہیں ۔ حالانکہ کئی جگہوں پر ضلعی سطح پر ٹرانسفارمر بینک قائم کئے گئے ہیں مگر ان سے بھی صورتحال میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئی اور ٹرانسفارمروں کی مرمت کیلئے ورکشاپ ضلع سطح پر نہ ہونے کے باعث انہیں ٹھیک کرانے کیلئے دیگر اضلاع میں منتقل کیاجاتاہے اور دور دراز اضلاع سے جموں یا سرینگر شہروں تک ٹرانسفارمر لیجانے اور پھر انہیں ٹھیک کراکے واپس لانے میں مہینوں لگ جاتے ہیں ۔ریاست کے جغرافیائی خدوخال اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ ہر ایک ضلع میں ورکشاپ قائم کئے جائیں مگرنہ جانے کیوں اب تک ایسا نہیں کیاجاسکاہے ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حکام کے سوفیصد گھروں کوبرقی رو فراہم کرنے کے دعوئوں کے باوجود جہاں آج بھی خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب میں کچھ گائوں بجلی کی سپلائی سے محروم ہیں وہیں بیشتر علاقوں میں ترسیلی لائنیں کھمبوں کے بجائے درختوں سے بندھی ہوئی ہیں ،جس کے نتیجہ میں کئی مرتبہ حادثات رونما ہونے سے انسانی جانیں تلف ہوچکی ہیں ۔بجلی کی فراہمی کے نظام میں ایک اور پریشانی یہ بھی ہے کہ بھاری برفباری یا طوفانی ہوائیں چلنے سے بجلی کے ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصان کی بھرپائی بدقسمتی سے کئی کئی سال بعد بھی نہیں ہوپاتی، جس کی مثال سرحدی ضلع پونچھ کو جانے والی بجلی کی 132کے وی ترسیلی لائن ہے ۔اس لائن کو تباہ ہوئے 5سال ہونے کو آرہے ہیں مگر ابھی تک اس کی دوبارہ مرمت نہیں ہوپائی ہے باوجود اس کے کہ اس ضلع میں بجلی سپلائی کازیادہ تر انحصار ہی اسی لائن پرہے۔مجموعی طور پر برقی رو کی فراہمی سے لیکر ترسیلی لائنوں اور ٹرانسفارمروں کی دیکھ ریکھ اور تجدید تک کا سارا نظام کام چلائو پالیسی جیسا لگتاہے اور بجلی کے بنیادی ڈھانچے کو دیکھ کر ایسا ظاہر ہوتاہے کہ حکام کسی بھی سطح پر سنجیدہ نہیں اورجس طرح سے وہ بجلی کی غیر اعلانیہ کٹوتی پر قابو پانے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں اسی طرح سے بجلی کے ڈھانچے کو مضبوط اور مستحکم بنانے میں بھی کامیابی حاصل نہیں ہوپائی ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ بجلی کے شعبے میں عوام کو حسین خواب دکھانے کے بجائے حقیقی معنوں میں سنجیدگی کے ساتھ بہتری کے اقدامات کئے جائیں اور سپلائی کے نظام میں معقولیت لانے کے ساتھ ساتھ بنیادی ڈھانچے کو مستحکم بنایاجائے ۔