سائنس نے انسان کے لیے بہت سارے عظیم کارنامے انجام دئے ہیں. ان میں بجلی کی ایجاد سچ مچ بہت عظیم کارنامہ ہے. اس نے زندگی کے ہر شعبے میں انقلاب بپا کردیا ہے کہ اب بجلی کے بغیر زندگی مشکل سے مشکل تر ہورہی ہے۔ترقی کے لئے کو شاں ریاستیں جن میں ہماری ریاست بھی شامل ہیں، بجلی کی قلت اور عدم دستیابی کی وجہ سے ترقی کے بجائے تنزل کی طرف جارہی ہے ۔ اس وقت ریاست بالخصوص وادی کشمیر کا شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو جو بجلی کی قلت اور عدم دستیابی سے متاثر نہ ہو۔ دربار مو کے فوراً بعد اچانک عدم دستیابی کی وجہ سے ہر کوئی صارف پریشان ہیں۔ موسم سرما شروع ہوتے ہی وادی میں بجلی کا زبردست بحران زور و شور سے جاری رہتا ہے اور محکمہ پی ڈی ڈی ہمیشہ اس بحران پر قابو پانے میں بری طرح ناکام ہوتارہا ہے۔ گزشتہ کئی دن سے اب بجلی کا اکثر اوقات غائب رہنا معمول بن گیا ہے جس سے عوام کا جینا دوبھر ہورہا ہے۔یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اس وقت بجلی کے بحران نے پوری وادی کو اپنے لپیٹ میں لیا ہوا ہے کئی ماہ سے موسم خشک چل رہا ہے، بارشوں کا کہیں نام ہی نہیں ہیں، اس دوران وادی کے طول و عرض میں بجلی وقفہ وقفہ سے گل ہورہی ہے۔بجلی کے بغیر زندگی اجیرن بن گئی ہے اور زندگی کے سماجی ، معاشی ، صنعتی اور دفتری معمولات درہم برہم ہورہے ہیں۔ بجلی کٹوتی کا کوئی نظام صحیح طرح سے کام ہی نہیں کر رہا ہے۔ بجلی صارفین کو 24 ؍گھنٹوں میں بمشکل کچھ گھنٹے ہی بجلی دستیاب رہتی ہے اور وہ بھی نہایت کم وؤلٹیج کے ساتھ۔ اکثر علاقوں جن میں زینہ گیر علاقہ بھی شامل ہیں بجلی کے شارٹ فال بڑھنے کے بعد لوڈ شیڈنگ کی زد میں ہیں اور کئی جگہوں پر ٹرانسفارمروں میں خرابی پیدا ہونے سے صارفین کو مزید پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ وادی میں بجلی کی کمی تو ایک عرصے سے جاری ہے لیکن مسلسل لوڈشیڈنگ اب یہاں معمول بن چکا ہے۔شام ہوتے ہی بجلی کی آنکھ مچولی شروع ہوتی ہے۔ بیس تیس منٹ تک بجلی رہتی ہے اور پھر گھنٹوں بھر غائب رہتی ہے۔بجلی شیڈول کے برعکس 24 ؍گھنٹوں میں صرف دو تین گھنٹوں تک بجلی دستیاب رکھنا وہ بھی بالکل کم وولٹیج کے ساتھ صارفین کیساتھ سراسر ظلم و ناانصافی ہے۔ یوں بجلی فراہم کرنے کے حوالے سے محکمہ PDD کے دعوے سراب ثابت ہورہے ہیں کیونکہ اپنے پیش کردہ شیڈول پر بھی محکمہ کچھ عمل نہیں کر رہا بلکہ جو اس کی مرض اسی کے مطابق عام صارفین کو بجلی دستیاب رکھی جارہی ہے۔ محکمہ پی ڈی ڈی کو یہ حقیقت بھی تسلیم کرنی ہوگی کہ صارفین کو بجلی فیس کے عوض وہ بجلی دستیاب نہیں کر پارہا جس کی وجہ سے ہر ایک طبقۂ عوام اس سے ناراض ہے ۔
برقی رو کی عدم دستیابی سے وادی کے شرق وغرب میں لوگوں کو جن شدید مشکلات کا سامنا ہے ،ان کے پس پردہ محکمہ کی بھی غفلت شعاریاں کارفرما ہیں،جب کہ بجلی کی جتنی فراہمی اس وقت ریاست کو مل رہی ہے وہ کی کھپت سے کئی گنا سو کم ہے ۔لوگ جانتے ہیں کہ موسم سرما کے دوران بجلی سپلائی میں کمی آتی ہے تو انہیں بھی محکمہ سے تعاون کرکے بجلی کے استعمال میں کچھ اعتدال لانا چاہیے۔ موسم سرما کی سردیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے گرم پانی کا استعمال تقریباً ہر ایک کے لیے ضروری بنتا ہے، اس لئے بجلی پر چلنے والے پانی گرم کرنے کے آلوں کا استعمال لازمی بنتا ہے لیکن جو چیزیں رسوئی گیس وغیرہ کے استعمال کرنے سے تیار ہوتی ہیں اس کے لئے بجلی کا حد سے زیادہ استعمال کرنا یقیناً غیر ذمہ داری ہی نہیں بلکہ دوسروں کا حق مارنے کے برابر ہے۔ اگر عوام اور محکمہ موسم سرما کے ان مشکل ایام میں ہی سہی ایک دوسرے سے تعاون واشتراک کریں گے تو یقیناً بجلی کی اس بحرانی صورتحال پر کسی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔ مزید برآں بجلی کی چوری کو روکنا ، غیر رجسٹرڈ کنکشنوں کو بے نقاب کرنا اور ایسے دیگر جرائم کو روکنا صرف محکمہ یا سرکار کا ہی کام نہیں ہے، اس کے لیے عام لوگ بھی اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں تاکہ بجلی کی آنکھ مچولی بلکہ وقت وقت پر عدم دستیابی اور بحرانی صورتحال پر ایک حد تک قابو پایا جاسکے ۔
بجلی کے بحران سے نجات حاصل کرنے کے لیے ایسے غیر روایتی طریقے اپنانے کی ضرورت ہے جن سے عوام کو بلا کسی تعطل وکٹوتی بجلی کی فراہمی ممکن ہو۔شمسی توانائی بھی ایک متبادل ذریعۂ پاور ہے، دیگر ذرائع سے حاصل توانائی کے مقابلے میں سورج کی کرنوں سے بالکل سستی بجلی حاصل ہوسکتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ بجلی پیدا کرنے کے اس طرح کے سستے ذرائع استعمال میں لائیں اور شمسی توانائی کی مدد سے بجلی کی فراہمی میں بہت حد تک اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ سرکار کو مزید چاہیے کہ عوام میں سولر پینلز مفت یا کم قیمت میں صارفین میںتقسیم کریے ۔ اس طرح کم سے کم روشنی کی ضرورت کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ پانی کے علاوہ یہاں بجلی پیدا کرنے کے اور کون سے ذرائع ہیں؟ سب سے بڑے اوڈی پن بجلی پروجکٹ سے جو بجلی پیدا ہوتی ہے، وہ ریاست کے بجائے بھارت کے قومی شمالی گرڈ کو برقی رو فراہم کرتی ہے جب کہ ریاست کو ضرورت کے مطابق بجلی فراہم نہیں ہوپا رہی ہے۔ اس طرح ہم اپنے ہی وسائل سے فائدہ اٹھانے سے محرومی کا سامنا کررہے ہیں۔ ریاستی حکومت کو چاہیے کہ مرکز سے ریاستی عوام کا جائز حق حاصل کرنے کے لیے دباؤ ڈالیں اور بجلی کی فراہمی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں۔ کب تک ریاست کے غریب عوام یہ مشکلات سہتے رہیں گے؟ آج دنیا ترقی کرتے کرتے کہاں سے کہاں پہنچی ہے لیکن ہم ہیں کہ ابھی تک لکیر کے فقیر بنے ہیں ۔ بنابریں ہماری تمام سرکاریںبجلی کی آنکھ مچولیوں اور بجلی کی عدم دستیابیوں پر قابو پانے میں ناکام ہوتی رہی ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ سرکاری کارندے سب جانتے ہوئے بھی بجلی کے مسئلہ کو حل کرنے میں کچھ بھی نہیں کر پارہے ہیں۔ آپ جہاں بھی جائیں بجلی کی ترسیلی لائنیں اور بجلی کے کھمبے بہت خستہ حالت میں دیکھیں گے۔ شہر و دیہات میں بجلی تاروں اور کھمبوں کی حالت ناگفتہ بہہ ہے۔اس جانب محکمہ پی ڈی ڈی توجہ کیوں نہیں دے رہا ؟ صارفین کوجو کچھ بجلی فراہم ہوتی ہے وہ انہی خستہ حال ترسیلی لائنوں کی وجہ سے بہت زیادہ ضائع بھی ہوتی ہے کیونکہ جہاں پر بجلی کھمبے خستہ ہوچکے ہوں وہاں بجلی ترسیلی تاریں درختوں کے شاخوں سے جوڑ دی گئی ہیں۔ کئی دہائیوں سے محکمہ پی ڈی ڈی خستہ اور کمزور بجلی ترسیلی تاروں اور کھمبوں کی مرمت ٹال رہاہے۔ مزید برآں ہر بستی میں سروے کروا کے غیر رجسٹرڈ بجلی کنکشنوں کا اندراج کروا کے ضرورت کے مطابق نئے ٹرنسفارمر بھی لگوائیں جائیں تاکہ عام لوگوں کو بجلی کے بحران سے نجات مل سکے۔ امید ہے سرکار عوام کو بجلی کے بارے میں مزید ناامید نہیں کرے گی ۔
�������