لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی صدارت میں انتظامی کونسل نے جموں کشمیر میں گھریلو بجلی صارفین کیلئے ایمنسٹی سکیم کو منظوری دے دی ہے۔انتظامی کونسل کے اس فیصلہ سے 5لاکھ50ہزار گھریلو صارفین کو 937.34کروڑ روپے کی رقم معاف کرکے فائدہ پہنچے جو ان پر واجبات کی بروقت ادائیگی نہ کرنے کے نتیجہ میں سرچارج یا سود کی صورت میں جمع ہوئی ہے۔انتظامی کونسل کے مطابق صارفین کو یہ آخری موقع فراہم کیا گیاہے کہ وہ اس سکیم سے فائدہ اٹھاکر بجلی فیس کی مد میں اصل بقایاجات ادا کریں۔اب گھریلو صارفین 31مارچ2022تک واجبات پر لگے سود کو صد فیصد کرکے اصل واجبات کی ادائیگی 12ماہ میں 12اقساط میں کرسکتے ہیں تاہم ا س دوران انہیں اپنی ماہانہ معمول کی فیس بھی جمع کرنا ہوگی ۔فیصلہ کے مطابق اقساط کی ادائیگی میں ناکامی پر بقایا واجبات پر کمپائونڈ سود کی وصولی کے علاوہ بجلی ایکٹ2010کے تحت جرمانہ اور قانونی کارروائی ہوگی جس میں بجلی کی فراہمی منقطع تو ہوہی جائے گی ساتھ وہ اس ایمنسٹی سکیم کے فوائد سے بھی محروم ہوجائیں گے۔انتظامی کونسل کی جانب سے گھریلو صارفین کیلئے بجلی ایمنسٹی سکیم کو ایک بہت بڑی راحت کے طور پیش کیاجارہاہے اور یقینی طور پر اس میں صارفین کیلئے راحت کا سامان ہے تاہم ہمیں یہ نہیںبھولنا چاہئے کہ ایسی ایمنسٹی سکیمیں اس سے پہلے بھی کئی دفعہ یہاں دی جاچکی ہیںاور اس سکیموں کے فوائد صرف گھریلو صارفین کو ہی نہیں بلکہ صنعتی و تجارتی صارفین کو بھی دئے گئے تاہم حقیقت یہ ہے کہ ان ایمنسٹی سکیموں سے صارفین کو فائد تو ضرور ہوا لیکن حکومت کے ہاتھ کچھ نہ لگا اور بجلی کا مسئلہ جوں کا توں بنا ہوا ہے ۔اب کہا جارہا ہے کہ نئی ایمنسٹی سکیم کی موثر عمل آوری کی نگرانی کیلئے ایک خود مختار پروجیکٹ مینجمنٹ ایجنسی کی خدمات حاصل کی جائیں گی،کہنے میں یہ بہت اچھا لگتا ہے تاہم اس طرح کا تجربہ کامیاب ہو ،اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے کیونکہ جموںوکشمیر یونین ٹریٹری کا بچہ بچہ محکمہ بجلی کی کارکردگی سے بخوبی واقف ہے ۔مانا کہ اس سکیم کے نتیجہ میں سرکاری خزانہ کو قریب ایک ہزار کروڑ روپے کا نقصان اٹھانا پڑے گا اور سرکار کیلئے یہ اچھی خاصی رقم ہے تاہم ایک انفرادی بجلی صارف کیلئے سود کی رقم اُتنی نہیں ہوگی اور اُس کیلئے یہ ایمنسٹی سکیم بے معنی ہی ہوسکتی ہے کیونکہ اُس کو اصل واجب الادا رقم پر تو کوئی چھوٹ نہیں ملی ہے ۔سرکار ایک ہزار کروڑ روپے کی رعایت کا ڈھنڈورا تو پیٹ رہی ہے لیکن اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اس سکیم کے نتیجہ میں وہ ہزاروں کروڑ روپے سرکاری خزانہ میں جمع ہونگے جو برسہا برس سے گھریلو صارفین کو واجب ادا ہیں۔سرکار کو یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ یہاں گھریلو صارفین کے پاس ہی بجلی فیس بقایا نہیںہے بلکہ صنعتی و کاروباری اداروں اور خود سرکار ی محکموں کے پاس عام صارفین سے بھی زیادہ فیس واجب الادا ہے ۔گھریلو صارف کو بلی کا بکرا بنا کر نہ ہی محکمہ بجلی کی آمدن میں بڑھوتی ہوسکتی ہے اور نہ ہی محکمہ میں کوئی نیا انقلاب لایا جاسکتا ہے ۔مانا ہے کہ سرکار نے ہر گھر پہنچانے کیلئے اربوں روپے کی خطیر رقم خرچ کی ہے اور سرکار حق بجانب ہے کہ وہ جو بجلی خرید کر صارفین کو دے رہی ہے ،صارفین بھی اس کا معائوضہ ادا کریں لیکن سرکار سے یہ نہیں پوچھا جانا چاہئے کہ آخر آزادی کے 75سال بعد بھی جموںوکشمیر میں بجلی کا منظر نامہ بہتر کیوں نہیں ہورہا ہے ۔کیوں آج بھی یہاں 55فیصد سے زائد بجلی ترسیل و تقسیم کے دوران ہی ضائع ہوجاتی ہے ۔سوبھاگیہ سکیم کے تحت جموںوکشمیر حکومت کو صد فیصد بجلی کی فراہمی پر قومی ایوارڈ سے نوازا تو گیا لیکن کیا یہ بھی حقیقت نہیں ہے کہ وہ صد فیصد بجلی صرف کاغذات تک ہی محدود تھی جبکہ زمینی سطح پر ابھی بھی بیسیوں پہاڑی اور دور افتادہ بستیاں ایسی ہیں جہاں بجلی نہیں پہنچ پائی ہے ۔اور اب جہاں بجلی پہنچ بھی چکی ہے وہاں بجلی ڈھانچہ کا حال بے حال ہے ۔ترسیلی لائنوںکے نام پر آج بھی کئی علاقوں میںخاردار تاریں لگی ہوئی ہیںجبکہ دیہی اور پہاڑی علاقوں میں بجلی ترسیلی لائنوں کا درختوں کے ساتھ آویزاں ہونا کوئی نہیں بات نہیں ہے کیونکہ ان تر سیلی لائنوں کو لٹکانے کیلئے جدید طرز کے کھمبے ہی میسر نہیں ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بجلی کے موجودہ منظر نامہ کیلئے سبھی زمروںکے صارفین بھی ذمہ دار ہیں لیکن بجلی محکمہ کی زبوں حالی کا ملبہ اکیلے صارفین پر ہی گرانا جائز نہیں ہے ۔کئی سال قبل عمر عبداللہ حکومت میں ہی بجلی کی نجکاری کا عمل شروع کیاگیا تھا اور اس کیلئے چارکمپنیاں بھی وجود میںلائی گئی تھیں ۔اُس کے بعد پی ڈی پی اور بی جے پی کی حکومت بھی تین سال چلی اور 2018سے یہاں برا ہ راست مرکز کی حکمرانی ہے تو کیا ارباب بست و کشاد سے یہ پوچھنا نہیں چاہئے کہ اگر وہ نجکاری کو اس مرض کی دوا سمجھ رہے تھے تو اتنے سال انہیں ایسا کرنے سے کس نے روک رکھا ہے ۔جو انتظامیہ قریب دس برسوں میں باضابطہ قانون سازی کرکے بجلی کی پیداوار سے لیکر ترسیل اور تقسیم کاری کیلئے بنائی گئی نیم خود مختارکمپنیوں کو فعال نہ بن سکی ،وہ عوام کو سارے فساد کی جڑ قرار دے تو بات ہضم ہونے والی نہیں ہے ۔20ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والے جموںوکشمیر میں بجلی کا منظر نامہ قطعی اطمینان بخش نہیں ہے ۔آپ بلا شبہ صارفین سے پائی پائی کا حسب لیں لیکن اس کیلئے اُنہیں معیاری اور معقول بجلی بھی تو فراہم کریں ۔ایمنسٹیاں دیکر آپ وقتی فائدہ پاسکتے ہیں لیکن یہ مستقل حل نہیںہے ۔اس سنگین مسئلہ کا مستقل حل صارفین کو معیاری بجلی فراہم کرکے اُن سے استعمال شدہ بجلی کی فیس ماہانہ بنیادوںپر وصول کرنے میں ہی ہے ۔جب بجلی سپلائی کے نظام میں لین دین کا مرحلہ ٹھیک ہوگا تو سب کچھ پٹری پر آجائے گا ورنہ اس طرح کی ایمنسٹی سکیمیں دکھانے کو تو بیچی جاسکتی ہیں لیکن ان سے کوئی بھلا ہونے والا نہیں ہے۔