وادی میں گو کہ موسمِ سرما کا کلیدی حصہ چلہ کلان گزرچکاہے اور حالیہ برف باری سے ندی نالوں اور دریاؤں میں پانی کی سطح میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہواہے لیکن بجلی سپلائی میں واضح بہتری کے آثار ہنوز نظر نہیں آرہے ہیں۔اعلان شدہ شیڈل تو پہلے ہی ماضی کی بات بن گیا تھا لیکن اس کے بعد جو غیر اعلانیہ کٹوتی شروع کی گئی تھی اُس میںبھی فی الوقت کوئی زیادہ فرق نہیں آیاہے۔ انتظامیہ بار بار اس صورتحال میں بہتری لا کر بجلی کے کٹوتی شیڈلوں میں تبدیلی لانے کی یقین دہانیاں کرتی ہے لیکن زمینی سطح پر کچھ زیادہ نہیں ہوتا۔بجلی کی فراہمی میں تخفیف کے حوالے سے محکمہ کی طرف سے گزشتہ ایک ماہ کے دوران جوکچھ کہا گیا ہے۔ وہ کبھی پورا نہیں ہوا اور یہ ایک افسوسناک امرہے کہ وادی کے بیشتر علاقوں میں برقی رو کی طویل کٹوتیاں اب بھی برقرار ہیںجو ایک ٹارچر سے کچھ کم نہیں ہے ۔ اس ستم ناک صورتحال کے خلاف شہرودیہات میں روزانہ احتجاج ہو رہے ہیں مگر انتظامیہ نے بس ایک چپ سادھ رکھی ہے ۔
اول اول توصرف پانی کی سطح گرجانے کی وجہ سے بجلی کی پیداوار میں تخفیف کے دلائل پیش کرکے صارفین کو خاموش کرنے کی کوشش کی جاتی ہیں لیکن حالیہ برف باری کے بعد اب سطحِ آب میں واضح بہتری ہوئی ہے ،جس سے سپلائی میں یقینی طور پر بہتری آنی چاہئے تھی مگر ایسا نہیں ہورہاہے۔ حالانکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سردیوں کے ایام میں وادی کے دریائوں اور ندی نالوں میں پانی کی سطح ہمیشہ کم ہوجاتی ہے اور حکومت اس سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لئے بجلی کی درآمد کا بندوبست کرتی رہی ہے اور تھوڑے بہت پھیر بدل کے ساتھ برقی رو کی فراہمی یقینی بنا کر سردیوں کے ایام میں صارفین کی پریشانیوں کا خیال رکھا جاتا تھا مگر بار بار یہ سارے انتظامات دھرے کے دھرے کیوں رہ جاتے ہیں، یہ پاور سیکٹر میں ریاستی انتظامیہ کی سات دہائیوںکی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان لگاتی ہیں ۔ ایک طرف محکمہ کا ہی دعویٰ ہے کہ بجلی کی پیداوار میں بھاری کمی پیش آتی ہے اور ریاست کے اپنے پروجیکٹوں سے حاصل ہونے والی بجلی کی مقدار برائے نام رہ جاتی ہے اور لگ بھگ سارا زورشمالی گرڈسے درآمد کرنے پر مرکوز ہوتی ہے ، مگر محکمہ کے پاس اس درآمد کے لئے بھی بنیادی ڈھانچہ میسر نہیں ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سےکئی نئے ریسوینگ سٹیشن زیر تعمیر ہیں ، جو نامعلوم وجوہات کی بناء پہ مکمل ہونے کا نام نہیں لے پارہے ہیں ۔شمالی گرڈ اکثر وبیشتر ریاست کے نام بقاجات کی عدم ادائیگی کی آڑ میں اکثر سردیوں کے لئے درکار اضافی سپلائی کی فراہمی سے منکر رہتا ہے اور اگر تھوڑا بہت اضافہ ہوتابھی ہے تو مزید بجلی کی درآمدگی کے لئے محکمہ کے پاس ترسیلی صلاحیتوں کا فقدان ہے ۔ موجودہ صورتحال کودیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سپلائی میں مزید ابتری سے صارفین کو اضافی مصائب کا سامنا ہوگا۔کیونکہ صارفین پہلے ہی گیس سپلائی کے بحران سے زبردست پریشانیوں کا شکار ہیں۔
ایسے حالات میں عام لوگوں کاسڑکوں پر آکر احتجاج کرنا نہ صرف منطقی ہے بلکہ ان کی مجبوری بھی ہے۔اسی وجہ سےرواں ایام میں شاید ہی کوئی ایسا دن گزرتاہے ہوگا جب بجلی کی نایابی ،ٹرانسفارمروں اورترسیلی لائینوں کی خرابی اور اس پر محکمہ بجلی کی طرف سے مدعی سست گواہ چست کے مصداق اب پری پیڈ میٹر لگانے کے اعلانات سے انتظامیہ کی نیت کے فتور کا واضح اشارہ مل رہاہے۔ ریاست کے اندر پیداہونے والی بجلی کےلئے ہی صارفین کی چمڑی ادھیڑنے کےعمل کی کاروائی کسی بھی طور سے نظام میں بہتری کی غماز نہیں ہوسکتی، بلکہ پہ پرائیوٹ سیکٹر اداروں کی تجوریاں بھرنے کا عمل ہے، کیونکہ ماضی میں بھی سمارٹ میٹر نصب کرتے وقت سپلائی میں بہتری کے بلند بانگ دعوے کئے گئے تھے، جو سراب ثابت ہوئے اور ماضی کی تاریخ کودیکھتے ہوئے معلنہ نئے نظام کی ناکامی کو بعید از قیاس قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔