بالآخر وہی ہوا ،جس کا ڈر تھا ۔جموںوکشمیر میں بجلی کا بحران سنگین سے سنگین تر ہوتا جارہاتھااور اب تو 10سے12گھنٹے کی یومیہ کٹوتی معمول بن چکی تھی۔ایسے میں بجلی کی سپلائی میں معقولیت لانے کے دعوئوںکے بیچ گزشتہ روز اقتدار کے اعلیٰ ترین عہدہ یعنی چیف سیکریٹری ڈاکٹر ارون کمار مہتا نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں یہ انکشاف کیا کہ غیر میٹر یافتہ علاقوں میں اعلانیہ 8گھنٹوں کی کٹوتی کا فیصلہ لیاجاچکا ہے جبکہ سمارٹ میٹر یافتہ علاقوں ،جہاں ترسیلی نقصانات معمول کے مطابق ہوں،میں بلاخلل بجلی سپلائی یقینی بنانے کیلئے اقدامات کئے جائیں گے۔گوکہ محکمہ بجلی کا کہنا ہے کہ آنے والے دو ایک روز میں بجلی کا سرمائی کٹوتی شیڈول مشتہر کیاجائے گا لیکن ایک بات طے ہے کہ حکومتی دعوئوں کے عین برعکس بجلی بحران سے فی الوقت یوٹی باسیوںکو چھٹکارا ملنے والا نہیںہے ۔آپ اندازہ کریں جب چیف سیکریٹری کہتے ہیں کہ اعلانیہ غیر میٹر یافتہ علاقو ں میں8گھنٹوں کی کٹوتی ہوگی تو یہ کٹوتی کہاں پہنچے گی ۔عمومی طور پر دیکھاگیا ہے کہ غیر اعلانیہ طور پر بھی اُتنی ہی کٹوتی کی جاتی ہے جتنی اعلان شدہ ہوتی ہے ۔یعنی اگر 8گھنٹوںکی کٹوتی اعلاناً ہوگی تو یہ مان کرچلیں کہ یہ کٹوتی 12سے 15گھنٹوںکے درمیان رہ سکتی ہے کیونکہ ماضی کا تجربہ ہمیں یہی بتاتا ہے ۔یہاں ہم بغیر میٹر علاقوں کی کٹوتی پر اس لئے زیادہ زور دے رہے ہیں کیونکہ میٹر یافتہ صارفین آبادی کا دس فیصد بھی نہیں ہے اور یوں عملی طور تقریباً ساری آبادی کو سرما کے کٹھن ایام میں بجلی کے بغیر ہی آدھا دن گزارا کرنا پڑے گا۔
اس انتہائی ظالمانہ کٹوتی شیڈول کیلئے حسب دستور محکمہ رسد اور طلب میں واضح خلیج کو وجہ قرار دے رہا ہے اور محکمہ کا کہنا ہے کہ انہیں کشمیر میں 1600میگاواٹ بجلی درکار ہے جبکہ دستیاب بجلی صرف 1000سے1100میگاواٹ ہی ہے اور ڈیمانڈ اور سپلائی میں موجود اس خلیج کو پاٹنے کیلئے کٹوتی ناگزیر بن چکی ہے۔اب تو محکمہ ایک اور عذرِلنگ سامنے آیا ہے کہ آبی وسائل میں پانی کی سطح میں کمی آئی ہے جس کے پیش نظر بجلی کی پیداوار کم ہوئی ہے اور نتیجہ لوڈشیڈنگ ہے ۔حالانکہ کون نہیں جانتا کہ محکمہ کو بجلی شمالی گرڈ اور این ٹی پی سی سے خریدنا پڑتی ہے اور اس میں مقامی آبی وسائل کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ چونکہ ابھی سرماکی شروعات ہونے والی ہے اور آنے والے دنوں اور مہینوں میں سردی کی شدت بڑھتی چلی جائے گی جس کے نتیجہ میں بجلی کی طلب بھی بڑھتی ہی چلی جائے گی اور یوںیہ بحران بھی بڑھتا ہی چلے گا اور عملی طور ایک طویل عرصہ کیلئے اندھیروں کا راج قائم رہے گا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سرمامیں بجلی کی طلب بڑھ جاتی ہے لیکن کیا محکمہ سے پوچھا جاسکتا ہے کہ ایسا پہلی دفعہ ہورہا ہے؟۔ سردیاں ہر سال آتی ہیں اور ہر سال سردیوںمیںبجلی کی طلب بڑھ جاتی ہے اور اسی لحاظ سے ملکی سطح پر بجلی کی طلب پورا کرنے کیلئے انتظامات بھی کئے جاتے ہیں۔آخر اس سال ایسا کیا ہوا کہ اب موسم خزاں میں ہی محکمہ بجلی نے ہاتھ کھڑے کردئے ہیں جبکہ ابھی سرماآنا باقی ہے ۔ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ عالمی اور مقامی سطح پر طرز زندگی کی تبدیلی کے سبب بجلی کی ضرورت بدستور بڑھتی ہی چلی جارہی ہے اور یہ بڑھتی ہی رہے گی۔ایسے میں سرکاروں پر بھی لازم آتا ہے کہ وہ مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ مقدار میں بجلی دستیاب رکھے ۔ایک زمانہ تھا جب پن بجلی پروجیکٹ ہی بجلی کا واحد ذریعہ تھے ۔پھر تھرمل بجلی پیدا ہونے لگی ۔اُس کے بعد وِنڈ انرجی کا بھی تصور آیا اور سولر انرجی پر زیادہ زور دیاجانا لگا۔گوکہ ہماری سرکار بھی توانائی کے ایسے متبادل ذرائع کے فروغ کیلئے کام کررہی ہے لیکن وقت کا تقاضا ہے کہ اس سمت میں کوششیں تیز کی جائیں کیونکہ توانائی کے روایتی ذرائع محدود ہوتے چلے جارہے ہیں اور ان پر انحصار اب نہیں کیاجاسکتا ہے ۔اس صورتحال میں شمسی توانائی سے بڑے پیمانے پر بجلی پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی وِنڈ انرجی یا تیز ہوائوں کو بھی توانائی میں تبدیل کرنا ناگزیر بن چکا ہے کیونکہ یہ توانائی کے وہ ذرائع ہیں جو انسان کے کنٹرول میں نہیں ہیں اور ان پر عالمی تغیرات کا زیادہ اثر بھی نہیں پڑسکتا ہے ۔ موجودہ دور میں بجلی ایک ایسی ضرورت بن چکی ہے جو شہر سے لیکردیہات تک ہر ایک شخص کو بہر صورت چاہئے ہوتی ہے لیکن اگر اس دور میں بھی غیر اعلانیہ کٹوتی اور خراب ٹرانسفارمروں کو ٹھیک نہ کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا تو پھر اس محکمہ کا خدا ہی حافظ ہے ۔ آپ سمارٹ میٹر لگانے کے چکر میں ہیں اور نہ صرف جموںاور سرینگر شہر وںکے بیشتر علاقے ان میٹروںکی زد میں آچکے ہیں بلکہ مزید علاقوںمیں تیزی کے ساتھ انکی تنصیب جاری ہے ۔سمارٹ میٹر لگانے کے خلاف کوئی نہیں ہے ۔بلا شبہ آپ سمارٹ میٹر لگائیں لیکن سمارٹ میٹر لگانا ہی مسئلہ نہیںہے اور نہ ہی سمارٹ میٹر لگانے سے محکمہ بجلی سمارٹ بن سکتا ہے ۔سمارٹ بننے کیلئے سمارٹ منصوبہ بندی ضروری ہے ۔آپ اپنی ساری کوتاہیوں کا نزلہ صارفین پر نہیں گراسکتے ہیں۔مانا کہ کہیں کہیں بجلی چوری ہوتی ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ چوری آپ کے فیلڈ عملہ کی مدد سے ہوتی ہے اور اگر فیلڈ عملہ نہ چاہے تو بجلی چوری کا تصور بھی ناممکن ہے۔ یہ بھی کسی حد تک صحیح ہے کہ کچھ صارفین بجلی فیس کی ادائیگی میں لیت و لعل سے کام لے رہے ہیںتاہم اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ بیشتر صارفین حسب ایگریمنٹ اور میٹر ریڈنگ کے مطابق ماہانہ بجلی فیس ادا کررہے ہیں۔اس کے باوجود بھی آپ بجلی خسارے کا بہانہ بناتے رہیں تو یہ بات ہضم ہونے والی نہیں ہے۔ وقت آچکا ہے جب بجلی حکام کو اپنے گریبان میں جھانک لینا چاہئے اور اصلاح احوال سے کام لیکر صارفین کو بلی کا بکرا بنانے کی روایت ترک کرنی چاہئے ۔صارفین معیاری بجلی کی فراہمی کے حقدارہیں اور معیاری بجلی فراہم کرنامحکمہ کی ذمہ داری ہے۔امید کی جاسکتی ہے کہ محکمہ فوری طور حرکت میں آئے گا اوربجلی کی اعلانیہ و غیر اعلانیہ کٹوتی میں کمی کی جائے گی تاکہ لوگوں کو بجلی کی بحرانی صورتحال سے نجات مل سکے۔