وادی ٔ کشمیر میںرواں سال کے دوران موسم گرما میں بجلی سپلائی جس بحرانی کیفیت کی شکار رہی ،وہ ماضی کی حکومتوں سے قطعی مختلف رہی اور پھر موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی بجلی سپلائی کی اس بحرانی صورت حال کا جو نظارہ منظر عام آرہا ہے ،وہ ماضی سے بھی بہت زیادہ شدت اختیار کرچکا ہے۔بجلی کی عدم دستیابی اور آنکھ مچولی کے خلاف وادی کے مختلف اطراف و اکناف میں لوگ حکومت اور بجلی حکام کے خلاف جس طرح کے مظاہروں اور احتجاجی بیانات کے ذریعے اپنی ناراضگی کا اظہار کررہے ہیں ،اُن سے بھی ماضی کی یاد تازہ ہورہی ہے۔چنانچہ آج تک ہندوستان کی آزادی کے بعد جموں و کشمیر میں جتنی بھی حکومتیں برسراقتدار آئیں ،ہر ایک نے بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لئے بڑے بڑے دعوے اور وعدے کئے،وادی میں آبی ذخائر کی بہتات اور بجلی پیدا کرنے کے زیادہ وسائل کی موجودگی کا اعتراف کرکے بڑے بڑے منصوبے بھی پیش کئے گئے لیکن افسوس!اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود آج تک وادی ٔ کشمیر کے لوگوں کو محض گھریلو ضروریات کے لئے بجلی مہیا نہیں کی جاسکی۔المیہ یہ رہا کہ اس لمبے عرصے کے دوران جموں و کشمیر میں جو کوئی بھی بڑا بجلی پروجیکٹ قائم کیا گیا ،اُس سے پیدا ہونے والی بجلی کا آٹے میں نمک کے برابر حصہ بھی وادی کو نہیں مل رہا ہے۔ایسا کیوں ہورہا ہے ،تو اس سلسلے میں یہاں کی موجودہ انتظامیہ بھی وہی پرانی انجیل کی دلیلیں پیش کررہی ہیں جو ماضی کے حکمران کرتے چلے آرہے تھے۔البتہ ریاست جموں و کشمیر کو یونین ٹریٹری بنائے جانے کے بعد جموں و کشمیر کی ترقی و خوشحالی اور یہاں کے لوگوں کی فلاح و بہبودی کے لئے جن جن اقدامات کو اُٹھانے اور انہیں کار آمد بنانے کے نعرے بلند کئے گئے ،اُن سے یہ تاثر ضرور پیدا ہوگیا تھا کہ وادیٔ کشمیر میں بجلی کی سپلائی میں بھی بہتری آئے گی اور لوگوں کو بجلی کی فراہمی میں ایسی سہولتیں ضرور ملیں گی جن سے پاور سپلائی کی مسلسل نایابی اور آنکھ مچولی کا سلسلہ بند ہوسکے گا ۔جموں و کشمیر کے عوام میں یہ اُمید بھی جاگ آئی تھی کہ مرکزی سرکار جموں و کشمیر میںچلے آرہے بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لئے یہاں کی یو ٹی انتظامیہ کو مزید بجلی فراہم کرے گی،لیکن موجودہ صورت حال کو دیکھ کر لوگوں کی یہ اُمید بھی بَر نہ آئی اورصورت حال ماضی سے بھی بدتر ہوگئی ہے۔ محکمہ بجلی نےبجلی میٹر نصب کرنے اور بجلی فیس میں دُگنا اور تِگنا اضافہ کرنے کے بعد بھی بجلی کی کمی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے ہاتھ کھڑے کرنے کا روایتی طریقہ ٔ کار اپنایا اور مختلف قصہ ٔ کہانی ،حیلے بہانے اور دریائوں میں پانی کے بہائو میں کمی آنے سے بجلی کی پیدوار گھٹ جانے کی باتیں دہرانی شروع کی تھیں،جس کے باعث وادی کے مختلف علاقوں میں بجلی کی نایابی،آنکھ مچولی نہ صرف ایک پیچیدہ مسئلہ بن چکی ہےبلکہ بیشتر دور دراز علاقے بجلی سپلائی سے مسلسل محروم ہیں۔تاجر برادری بھی الزام لگارہی ہے کہ میٹر نصب کرنے کے بعد فیس کی وصولیابی کے باوجود بجلی کی نایابی سے اُن کا کاروبار متاثر ہورہا ہے۔اسی طرح بجلی کی عدم دستیابی کے نتیجے میں پینے کے پانی کی سپلائی میں بھی خلل پڑرہا ہے،جس سے یہ عندیہ بھی ملتا ہے کہ بیشتر علاقوں کے لوگوں کو آنے والے چلہ کلاں کی یخ بستہ سردیوں میں درپیش بنیادی مسائل میں مزید اضافہ ہوگا۔ظاہر ہے کہ پاور سپلائی کی مسلسل نایابی ،بڑے پیمانے پر کٹوتی یا آنکھ مچولی سے زندگی کے تقریباً تمام شعبے متاثر ہورہے ہیں ۔چنانچہ محکمہ بجلی کی طرف سے پاور سپلائی کے جو شیڈول مشتہر کئے جاتے ہیں ،اُس پر بھی عملدرآمد نہیں ہوتا اور جب شیڈول کے بغیر بھی پاور سپلائی بند رکھی جاتی ہے تو دریافت کرنے پر محکمہ کے افسر اور اہلکار اپنی روایتی بہانہ بازی سے کام چلاکر کبھی یہ کہتے ہیں کہ فالٹ آگیا ،کبھی کہا جاتا ہے کہ ضروری مرمت کی وجہ سے پاور سپلائی بند رکھی گئی ہے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ ٹرِپ گِر گیاہے۔جبکہ آج کل بجلی بند رکھنے کی ایک اور وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ جموں و کشمیر سرکار،ناردرن گرڈ ،جس سے ہمیں بجلی فراہم ہوتی ہے کی مقروض ہے اور قرض کی عدم ادائیگی کے کارن مطلوبہ بجلی حاصل نہیں کرپاتی ہے۔اسی طرح یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اس وقت وادی کو 1700میگاواٹ کی ضرورت ہے لیکن محکمہ کے پاس صرف 1000سے 1200میگاواٹ ہی دستیاب ہے ،جس کے نتیجے میں انہیں بجلی کٹوتی کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔گویا اس معاملے میں بھی جموں و کشمیر کی موجودہ انتظامیہ نے آج تک جو کوششیں کی ہیں،تا ایں دم کسی صورت میں موثر اور فعال ثابت نہیں ہوسکیں،نہ سسٹم میں کوئی واضح تبدیلی لائی گئی، نہ نظام میں بدلائو پیدا کیا گیا ،ناقص حکمتِ عملی اور بوسیدہ پروگرام کے تحت جہاں بعض لوگوں کو بہلایاگیا وہیں عام لوگوں کو ٹرخایاگیا،صورت حال وہی رہی جو عرصۂ دراز سے چلی آرہی ہے۔حالانکہ عصرِ حاضر میں بجلی کتنی اہمیت کی حامل ہے،اس سے کوئی فردِ بشر ناواقف نہیں۔زندگی کا تقریباً سارا نظام بجلی پر ہی منحصر ہے۔تعلیم ،تجارت اور علاج و معالجہ کا سلسلہ بھی اسی سے جاری رہتا ہے۔اگرچہ وادی بھر میں بجلی کے ناجائز استعمال پر قدغن لگ چکی ہے ۔صارفین بجلی فیس بھی ادا کررہے ہیں،شہروں،قصبوں اور دیہات کے بیشتر علاقوں میں میٹر بھی نصب کئے جاچکے ہیں، کٹوتی شیڈول بھی مرتب کئے گئے ہیں،پھر بھی بجلی کی عدم دستیابی اور آنکھ مچولی جاری ہے ایک حیران کُن بات ہے۔ضرورت اس بات کی جموں وکشمیر کی انتظامیہ بجلی کی فراہمی کے مسئلے پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرے ،پاور سپلائی کی ابتری میں بہتری لانے کے اقدام اٹھائے،پاور ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کی کارکردگی میں سدھار لانے کا اعادہ کرےاور غور کرے کہ کب تک بجلی سپلائی کی اس ناقص صورت حال کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑے گا جو پہلے ہی مختلف معاملات میںبدحالی کے شکار ہیں۔
�����������������
بجلی بحران،عوام پریشان اور انتظامیہ کے روایتی بیان
