کما کر اپنے بچوں کے لیے جو باپ لاتا تھا
وہ خود فاقے سے ہوتا اور بچوں کو کھلاتا تھا
نہ چلنے کی کبھی جب ضد کیا کرتے تھے یہ بچے
تو پھر مضبوط کاندھوں پر انہیں اپنے بٹھاتا تھا
کھلونے، عید پر کپڑے نئے، جوتے نئے لاتا
تقاضے اہلِ خانہ کے وہ لکھ کر لے کے جاتا تھا
کبھی میوہ، کبھی مشروب یا ماکول لے آتا
کبھی خالی نہیں لوٹا اگر بازار جاتا تھا
تھکا ہارا ہوا جب لوٹتا تھا شام کو یہ گھر
محبت سے بھری آغوش میں ان کو چُھپاتا تھا
وہ جب تشریف رکھتا حلقہ زن ہوتے سبھی بچے
بڑی پدرانہ شفقت سے ادب ان کو سکھاتا تھا
وہ جب بستر میں گھس جاتے بُلا لاتے تھے بابا کو
یہ بابا پیار سے ان کو کوئی لوری سناتا تھا
بڑے جب ہوگئے بچے بدل کر رہ گیا سب کچھ
وہ حلقے، چھوٹے بچے، اس کو یہ سب یاد آتا تھا
نہ وہ بچے، نہ وہ حلقے، نہ وہ شامیں، نہ وہ باتیں
اکیلا ہو رہا تھا وہ نہ کوئی پاس آتا تھا
اکیلا جا کے شاموں کی اُداسی سے لپٹ جاتا
وہ غم انگیز نغمے من ہی من میں گنگناتا تھا
بھلا اس کی کمائی میں کمی آخر رہی تھی کیا
پسینہ بوجھ لوگوں کے اٹھا کر جو بہاتا تھا!
اچانک بھول بیٹھے اس کے احسانات کو بچے
نکالا اپنے ہی گھر سے جو گھر کو لوٹ آتا تھا
نہ اس کے پاس اب گھر ہے نہ وہ بچے نہ وہ حلقے
ہمیشہ جن کی خاطر فرض وہ اپنا نبھاتا تھا
ترقی یافتہ بچوں کا والد بھوکا سوتا ہے
جو دسترخوان پر ہاتھوں سے بچوں کو کھلاتا تھا
یہ افسانہ نہیں یاسرؔ حقیقت ہے یہ والد کی
جو اپنی آپ بیتی سِسکیاں لے کر سناتا تھا
دُدھوت، ڈوڈہ
رابطہ؛91-7006902257