باپ گھر کےلئے بخت ہوتے ہیں سبق آموز

غزالہ خالد

اس جدید دور میں بھی بہت سارے خوش قسمت گھر ایسے ہیں، جہاں والدین کی عزت و قدر دن رات کی جاتی ہے، انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے ،ان کااحترام کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے اُن گھرانوں پر اللہ کی خاص رحمت بھی برستی ہے اور لوگ انہیں دیکھ کر رشک کرتے ہیں کہ کاش ہمارا گھرانہ بھی ایسا ہی ہوجائے۔

لیکن یہ بھی مشاہدے میں آرہا ہے کہ والدین جب تک جوا ن اور صحت مند رہتے ہیں انہیں اہمیت ملتی ہے لیکن عمر کے ساتھ ساتھ جب وہ بوڑھے ، کمزور اور بیمار ہوجاتے ہیں اور تب ان کی ضروریات پوری کرنا بچوں پر عائد ہوتی ہے۔ اُس وقت کچھ گھروں میں انہیں بوجھ سمجھا جانے لگتا ہے ، ان کی عادات بُری لگنے لگتی ہیں اور بڑھتی عمر کے سبب جب ان کی یادداشت متاثر ہوتی ہے ، بیماریوں کے سبب وہ چڑ چڑے ہوجاتے ہیں ، تنہائی کا شکار ہوکر ماضی میں رہنا شروع کر دیتے ہیں ، ہر وقت پرانے واقعات اور گذری ہوئی زندگی کے قصےبار بار دہراتے رہتے ہیں تو بدقسمت اولاد اُن سے دور بھاگنا شروع کر دیتی ہے۔ شاید یہی سب دیکھ کر ’’مدرز ڈے ‘‘ اور ’’ فادرز ڈے ‘‘ منانا شروع کیا گیا ہوگا کہ اس بھاگتی دوڑتی مصروف زندگی میں سے ایک دن ایسا ہو جو صرف اور صرف ماں باپ کے ساتھ گزارا جائے۔

اس کا یہ مطلب بالکل نہیں ہے کہ سال کے باقی 364 دن، ان سے بے گانہ رہ کر گزارے جائیں، ہر گز نہیں۔ جس طرح عید ایک خوشی کا تہوار ہے اور سال میں صرف ایک بار آتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سال کے باقی دنوں میں خوشیاں منانا منع ہے، بالکل اسی طرح والدین کو بھی پورا سال محبت ، احترام اور توجہ دی جائے ،ان کی ضروریات کا بن کہے خیال رکھا جائے ، جب فرصت ملے انہیں کہیں باہر لے کر جایا جائے،رشتے داروں سے ملوایا جائے لیکن یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی سال کا ایک دن ایسا بھی ہو جو والدین کے لیے مخصوص ہو، جب اپنی تمام مصروفیات ترک کرکے صرف اور صرف ان کے ساتھ وقت گزارا جائے۔

ایک بچہ جب اس دنیا میں آتا ہے تو وہ بالکل چھوٹا سا ننھا منا پیارا سا ایک ایسا وجود ہوتا ہے ،جسے مستقل سہارے کی ضرورت ہوتی ہے وہ خود سے کچھ نہیں کرسکتا، ایسے میں ماں باپ وہ ہستیاں ہیں جو اپنے چھوٹے سے بچے کی دیکھ بھال کرتے ہیں ،اس کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں اور پھر ساری عمر اپنی اس ذمہ داری کو نبھانے میں لگا دیتے ہیں۔ اگر ماں اس بچے کے کھانے پینے ،سونے جاگنے کا خیال رکھتی ہے تو باپ اسے زندگی کی بنیادی ضروریات فراہم کرنے میں دن و رات ایک کر دیتا ہے، اسی لئے ماں کا رتبہ جتنا بلند ہے اتنا ہی اونچا باپ کا مقام بھی ہے ۔
باپ ایک سائبان اور ایک ایسی مضبوط چھت ہے جس کے نیچے رہنے والے ہر سردوگرم سے محفوظ رہتے ہیں ۔ زندگی کی مشکلات اور پریشانیاں کیا ہوتی ہیں یہ ان بچوں کو بہت دیر میں پتہ چلتا ہے جن کے باپ زندہ ہوتے ہیں۔ ” ماں ” ہر وقت اولاد کے ساتھ ساتھ ہوتی ہے ،اس لئے اس کی خدمات اور قربانیوں کو زیادہ توجہ ملتی ہے لیکن باپ چونکہ روزگار کے سلسلے میں زیادہ تر گھر سے باہر رہتا ہے ،اس لئے بچے اس سے اتنے قریب نہیں ہوتے جتنا ماں سے ہوتے ہیں بلکہ کبھی کبھی تو اولاد شاکی بھی ہوتی ہے کہ ’’ ابو تو ہر وقت باہر ہی رہتے ہیں بس سونے کے لئے گھر آتے ہیں ‘‘ یا ’’ ابو ہمیں وقت نہیں دیتے، ہم سے زیادہ باتیں نہیں کرتے ، زیادہ تر خاموش رہتے ہیں یا پھر غصہ کرتے رہتے ہیں۔‘‘

اور وہ اس بات کو سمجھ نہیں پاتے ہیں کہ ’’بابا ‘‘ اگر دیر سے گھر آرہے ہیں تو صرف اور صرف اس وجہ سے کہ وہ زیادہ سے زیادہ محنت کرکے اپنے بچوں کو زندگی کی تمام ضروریات فراہم کرسکیں ۔جس سے بچوں کے اسکول و کالج کی فیسیں ادا ہوتی ہیں ، وہ اپنے دفاتر میں یا کام کی جگہوں پر اپنے افسروں کی کتنی کڑوی کسیلی باتیں برداشت کرکے کام کر رہے ہوتے ہیں ،اس بات کا بھی بچوں کو علم نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی تو ایسا وقت بھی آجاتا ہے کہ انہیں اپنی عزت نفس داؤ پر لگا نی پڑتی ہے تب جا کر بچے کہیں سیرو تفریح کر رہے ہوتے ہیں ۔ کبھی کبھی جب والد بہت غصہ کررہے ہیں تو آپ کو نہیں معلوم کہ اس وقت آپ کے بابا کے دماغ میں کتنے مسائل ایسے گھوم رہے ہوتے ہیں جنہیں حل کرنے والے صرف اور صرف آپ کے والد ہوتے ہیں ۔ وہ ہر پریشانی ، ہر ضرورت ، ہر مسئلہ آپ تک پہنچنے سے پہلے خود حل کر لینا چاہتے ہیں تاکہ ان کے بچوں کو کوئی تکلیف نہ پہنچے ۔ باپ چاہے آفیسر ہوں یا مزدور، اے سی آفس میں کام کرنے والے ہوں یا سڑک کوٹنے والے، پھل فروش ہوںیا ڈرائیور ، جمعدار ہوں یا تھانیدار، سب باپ ایک جیسے ہوتے ہیں جو اپنی اولاد کی محبت دلوں میں لیے صبح گھر سے نکلتے ہیں اور سب کا مقصد حیات صرف یہ ہوتا ہے کہ اپنے بچوں کی ضروریات زندگی پوری کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں جو آسائشیں بھی فراہم کرسکتے ہیں وہ کس طرح دیں۔

ہر باپ دن ڈھلے کام سے گھر واپس جاتے وقت بھی اپنے بچوں کو ہی دل میں بسائے گھر واپس لوٹ رہا ہوتا ہے، تب ہی تو ہر باپ اپنی اپنی بساط کے مطابق دکانوں سے ان کے لئے کچھ نہ کچھ خرید رہا ہوتا ہے ۔ ایک ننھے منے وجود سے لے کر بڑے ہونے تک آپ کے والد نے آپ کے لئے کیا کچھ نہیں کیا ہوتا ۔ سو پیارے بچو! جب بھی زندگی کی سہولیات سے فائدہ اٹھاؤ ،اسکول کی فیس یا ٹیوشن کی فیس ادا کرو، نئے کپڑے ، جوتے ، کھلونے، گیم ،ٹیبلٹ یا کچھ اور خریدو، کہیں گھومنے پھرنے جاؤ ، مزے مزے کے کھانے کھاؤ ،تب اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے بعد اپنے والد کا بھی خصوصی شکریہ ادا کرو، اس کے لیے الفاظ کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ اپنے فرماں بردار رویے سے ، اپنی محبت واطاعت سے ان کے شکر گزار بنیں۔ یاد رکھو!ماں کے قدموں تلے جنت ہے تو باپ کو جنت کا دروازہ کہا گیا ہے۔ اگر آپ کے پاس یہ دروازہ موجود ہے تو آپ بہت خوش قسمت ہیں۔ ان کی قدر کریں ان کی دعائیں لیں ان سے پیار کریں انہیں وقت دیں۔ ابھی آپ کے والدین طاقتور اور صحت مند ہوںگے۔ ابھی انہیں آپ کے سہارے کی ضرورت نہیں ہوگی ۔ لیکن بس آج عہد کرلیں کہ اپنے والد کی قربانیوں کی قدر کریں گے ۔ ابھی ان کے لئے اس سے بڑی خوشی کچھ اور نہیں ہوگی کہ آپ لوگ ان کا کہنا مانیں ، وہ خواب جو آپ لوگوں کے مستقبل کے حوالے سے وہ دیکھ رہے ہیں انہیں قابل تعبیر بنانے کی پوری پوری کوشش کریں ،اس کے لئے پڑھائی میں دل لگائیںاور جن کے والد فوت ہوچکے ہیں،وہ اپنے پاس موجود نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے والد کی مغفرت کے لئے خصوصی دعائیں کریں، اپنے ان رشتوں کی قدر کریں جنہوں نے آپ کے والد کے بعد آپ کو سہارا دیا۔ وہ دادا، نانا، چچا،ماموں یا کوئی بھی بزرگ رشتہ ہو سکتا ہے ۔