قیصر محمود عراقی
باپ دنیا کی وہ عظیم ہستی ہے جو کہ اپنے بچوں کی پرورش کیلئے اپنی جان تک لگادیتا ہے۔ ہر باپ کا یہی خواب ہوتاہے کہ وہ اپنے بچے کو اعلیٰ سے اعلیٰ معیار زندگی فراہم کرے تاکہ وہ معاشرے میں باعزت زندگی بسر کرسکے اور معاشرتی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکے۔والدین دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے، غورطلب بات یہ ہے کہ باپ ایک ذمہ دار انسان ہےجو اپنی خون پسینے کی محنت سے گھر چلاتا ہے، باپ ایک مقدس محافظ ہے جو ساری زندگی خاندان کی نگرانی کرتا ہے۔ باپ اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے، جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ باپ کی عظمت سے کوئی بھی انسان دین ، مذہب ، قوم اور فرقہ انکار نہیں کرسکتا۔ باپ کا رشتہ ہر غرض ، بناوٹ اور ہر طرح کے تقاضے سے پاک ہوتا ہے، باپ وہ درخت ہے جو خود دھوپ میں جل کر اولاد کو سایہ فراہم کرتا ہے، باپ اس جنت کا دروازہ ہے جو ماں کے قدموں تلے ہوتی ہے۔ ماں کی عظمت واہمیت سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتالیکن باپ وہ رشتہ ہے جس کی اہمیت کا احساس ہمیشہ اس کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ہوتا ہے۔ باپ کی اہمیت کا اندازہ اس وقت تک نہیں ہوسکتاجب تک کہ انسان خود باپ نہیں بن جاتا۔
ہمارے شعراء اور ادباء نے باپ کے عظمت کو ہمیشہ خراج عقیدت پیش کیا اور باپ کو شجر سایہ دار کہا۔ ہمارے پیارے نبیؐ نے فرمایاکہ ’’تمہارے تین باپ ہیں، ایک وہ جو تمہاری اس دنیا میں آمد کا باعث بنا، دوسرا استاد جس نے تمہیںتعلیم دی اور تیسرا تمہارا سسر جس نے بیٹی کا رشتہ دیا۔‘‘قرآن پاک اور حدیث کی کتابوں میں باپ کی احترام اور خدمت کی بے حد تلقین کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ جب باپ بڑھاپے کی حالت کو پہنچے تو انہیں راحت اور سکون پہنچائو اور ان کے سامنے اُف تک نہ کرو۔ بلاشبہ ماں باپ کا اس دنیا میں کوئی نعم البدل نہیں ہے ، ہر انسان اس مقدم ومقدس رشتے کا صدق دل سے احترام کرتا ہے اور جہاں تک ممکن ہوتا ہے وہ ان کی خدمت کا فریضہ سر انجام دیتا ہے۔ یقیناًماں باپ کی دعائیں ہم پر ہمیشہ سایہ کئے رہتی ہیںاور دنیا وآخرت میں کامیابیوں اور کامرانیوں سے ہم کنار کرتی ہیں۔ بہت خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کو اپنی زندگی میں اپنے ماں باپ کی خدمت کا اللہ رب العزت نے موقع عطا کیا ہے۔ یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ تمام والدین بہت ہی مشکلات اور باد مخالف سے نبرد آزما ہوتے ہوئے زندگی کے ہر نئے موڑ پر مکمل رہنمائی اور بے لوث محبت کے ذریعہ اپنے بچوں کو ان کی منزلوں تک پہنچاتے ہیں جبکہ ان کی محبت بے لوث ہوتی ہے بالکل بے لوث۔ کیونکہ ضروری نہیں کہ وہ بچوں سے کوئی مفاد حاصل کرسکیں، ان کو تو صرف بچوں کی کامیابی سے حقیقی اور دلی خوشی اور راحت ملتی ہے، ساری زندگی محنت ، مشقت اور اپنی زندگی کو دائوں پر لگاکر بچوں کیلئے روزی روٹی تلاش کرکے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں، ماں اور باپ کے احسانات کا بدلہ کوئی انسان بھی ادا نہیں کرسکتاکیونکہ ان کی موجودگی ہی انسان کی ترقی کی منازل باآسانی طے کرواتی ہیں۔ باپ ایک عظیم محافظ ہے جو ساری زندگی اپنے خاندان کی حفاظت کرتا ہے اور اپنی اولادکا بڑا خیرخواہ اور سچا دوست ہے۔ ماں کے لئے تو سبھی دعا کرتے ہیںاور کرنی بھی چاہئے ، ماں کا پیار تو سب کو نظر آتا ہے کہ وہ عظیم ترین ہستی ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ باپ کا رتبہ اور خدمت کم ہیںاور اسے نظر انداز کردینا چاہئے۔ ماں کی طرح باپ کو بھی اپنی اولاد سے پیار ہوتا ہے، باپ ایک سائبان شفقت ہے جس کے سائے میں اولاد پروان چڑھتی ہے ، باپ کے ہوتے ہوئے اولاد خود کو محفوظ سمجھتی ہے، باپ اپنی اولاد کی پرورش کیلئے اپنی جان تک لڑادیتا ہے، وہ اپنی ساری زندگی اولاد کی راحت رسانی میں صرف کردیتا ہے، دنیا کی تمام نعمتیں اولاد کو لاکر دینے کی کوشش کرتا ہے، جس کے لئے اپنی خواہشات کو بھی دبا دیتا ہے، باپ یہ چاہتا ہے کہ جو کام میں نہیں کرسکا وہ کام میرے بچے کریں، یہی وجہ ہے کہ وہ بچوں کو ترقی کرتا ہوا دیکھ کر پھولا نہیں سماتا۔ یہ سچ ہے کہ ماں تو ماں ہی ہوتی ہے لیکن باپ سے بھی اولاد کا رشتہ بہت انوکھا سا ہے، شجر سایہ دار کا احساس، گھنی چھائواولاد کے تمام ضروریات کو پلک چھپکتے پوری کردینا ، ہر خواہش کی تکمیل کو اپنا اولین فرض جان کر بھی صلے سے بے پرواہ رہنا ، بظاہر شک لیکن اندر سے موم ، حساس اور شفیق اولاد کی ہر تکلیف پر بے کل ہوجانا، دنیا میں ماں کے بعد سب سے اہم اور اولین رشتہ باپ کا ہی ہوتا ہے، باپ ایک مضبوط سہارا ہے، اولاد کیلئے جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے، باپ محبت وچاہت ، خلوص ، ایثار وبردباری کا پیکر ہے۔ جس طرح دریا کو کوزے میں قید نہیں کرسکتے اسی طرح والد کی محبت وشفقت ، عنایات وخدمات ، محنت ، حوصلہ وہمت کو لفظوں میں بیان نہیں کرسکتے۔ باپ ایک عظیم انسان ہے ، ماں اگر بنیاد ہے تو باپ اس بنیاد کو مضبوط کرنے کا ذریعہ ہے۔ باپ ایک چھت کی مانند ہوتا ہے جس طرح ایک چھت گھر کے مکینوں کو موسم کے سرد گرم ماحول سے محفوظ رکھتی ہے اسی طرح باپ موسم کے ناروا سلوک سے بیٹے کو تحفظ دیتا ہے۔ آندھی ، طوفان اور گرج چمک سے بچا کے رکھتا ہے، باپ وہ ہستی ہے جو دن کو دن نہیں سمجھتا، راتوں کو بھی فکر معاش میں بے چین رہتا ہے، باپ کبھی بیٹے کو اپنی پریشانی یا الجھن نہیں بتاتابلکہ خود سیسہ پلائی دیوار کی مانند ہر مشکل اور دشواریوں کا سامنا کرتا ہے، حالات جتنے بھی ناساز ہوں وہ خود سامنا کرتا ہے، دن بھر کی مشقت کے بعد پہلا خیال اسے اپنے بچوں کا آتا ہے۔
آخر میں یہ بتاتا چلو کہ باپ کا کیا مقام ہے یہ بیان کرتے ہوئے حضورِ اکرمؐ نے ارشاد فرمایا:’’باپ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے، اگر تو چاہے تو اس دروازے کی حفاظت کرے یا اس کو ضائع کردے‘‘، حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ رسول اکرمؐ نے مزید فرمایا:’’وہ شخص ذلیل ورسوا ہوا، وہ شخص ذلیل ورسوا ہوا،وہ شخص ذلیل ورسوا ہوا، لوگوں نے عرض کیایا رسول اللہؐ کون ؟ آپؐ نے فرمایاجس نے اپنے ماں باپ میں سے دونوں یا کسی ایک کو بڑھاپے میں پایا اور پھر ان کی خدمت نہ کرکے دخول جنت کا حق دار نہ بن سکا۔ الغرض باپ کی مثال ایک ایسے درخت کی مانند ہے جس کی چھائو اپنے بچوں کو غموں کی دھوپ سے بچائے رکھتی ہے۔ آج اولاد جو بھی تعلیمی کامیابیاں طے کررہا ہے، اس کے علاوہ زندگی کی گنگناہٹ اور خوشیوں کے سارے رنگ والد کی بدولت ہی ممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ باپ کا سایہ اولاد کے سروں پر ہمیشہ قائم رکھے، کیونکہ باپ کا سایہ ،رحمت کی ایک چادر ہے۔
رابطہ۔6291697668