سید مصطفیٰ احمد
والدین کے اپنے اولاد پر ان گنت احسانات ہوتے ہیں۔ اولاد اپنے والدین کے احسانات کا کبھی قرضہ نہیں چکا سکتے ہیں۔ البتہ والدین پر بھی یہ حق لازم ہے کہ وہ اپنی اولاد کی بہترین پرورش کریں، ان کی جائز حاجتوں کا پورا خیال رکھیں، اُنہیںزمانے کے تیز بہائو کے ساتھ جینا سکھائیں۔ اُن سےجائز اُمیدیں وابستہ رکھیں، بے جا ڈانٹ ڈپٹ اور انہیں طعنے دینے پرہیزکریں۔ Generation gap اکثرسے دیکھا گیا ہےکہ اولاد اپنے والدین، خاص کر والد کے سامنے زیادہ کھل کر بات نہیں کرپاتے ہیں۔ زیادہ تر لڑکوں میں یہ بات پائی جاتی ہے۔ لڑکے adventures کے شوقین ہوتے ہیں اور جو کوئی بھی اس راہ میں، (خواہ مثبت یا منفی )مداخلت کرے، اُنہیں وہ قابل قبول نہیں ہوتیں۔ہاں! لڑکے کے اوپر گھر کی ذمہ داریاں بھی زیادہ ہوتی ہیں،اپنا کیریئر، شادی، گھر بنانا، بہنوں کی شادیاں، بوڑھے ماں باپ کا سہارا بننا،وغیرہ۔ اس کے علاوہ اُسے سماج کی امیدوں پر کھرا اُترنااور اپنی مردانگی کا ثبوت دینااس کے اذہان میں نقش ہوتے ہیں۔ بعض اوقات اپنی اَنا کا پجاری بننا بھی ایک لڑکے کی زندگی کا حصہ ہوتاہے۔ ان ذمہ داریوں کے بوجھ تلے ایک لڑکا دب کر رہتا ہے، اس کی جوانی کے پنکھ کٹ جاتے ہیں یا پھر کاٹ دیئے جاتے ہیں۔ اپنے ارمانوں کا گلا کٹتے دیکھ کر ایک لڑکا مرنے سے پہلے کئی بار مرتا ہے۔ اس کا نتیجہ والدین اور اولاد کے بیچ بڑھتے ہوئے فاصلوں کی شکل میں دکھائی دے رہا ہے۔ یہ بہت مشکل گھڑی ہوتی ہے، اس کا تدارک نہایت ضروری ہوتاہے۔ رفتارِ زمانہ کے ساتھ حالات بدلتے رہتے ہیںاور اب انسان بھی بدل گیا ہے۔ غصہ کرنا اور لڑائی پر اُترنا عام سا ہوگیا ہے، برداشت کا مادہ کم ہوتا جارہا ہے۔ ایک لڑکا اپنے ماں باپ کی ادنیٰ سی بھی نصیحت کو برداشت کرنے میںآمادہ نظر نہیں آتے۔ دونوں ایک دوسرے کو سمجھ پائے سے قاصرہیں۔ ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے بہت دورہیں۔ اجسام ایک جیسے ہیں، مگر فرق نمایاں ہے۔
اس خلا کے پیچھے بہت سارے وجوہات کا عمل دخل ہیں۔ پہلا ہے مادیت پرستی: اولاد اللہ کی طرف سے نعمت ہے، البتہ ان کو اگر صرف پیسوں یا مادیت کی نگاہوں سے دیکھا جائے، تو اس کا بُرا اثر والدین اور اولاد کے درمیان دوریوں میں نکل کر آئے گا۔ لڑکا الگ نفسیات کا مالک ہے، وہ الگ طریقے سے سوچتا ہے، وہ زندگی کے متعلق الگ نظریہ رکھتا ہے، کچھ خوبیاں اور خامیاں بھی اس کے اندر موجود ہیں ۔ اس کے باوجود والدین اپنے لڑکوں پر ایسا بوجھ ڈالتے ہیں جس کے نیچے وہ دب جاتا ہے ۔ اس سے دوریوں کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ ماں باپ یہ نہیں سوچتے کیا یہ بوجھ ڈالنا ٹھیک ہے کہ نہیں۔ وہ اپنی مثالیں دیتے تھکتے نہیں ہیں، وہ صرف اپنی نوکریوں کے گُن گاتےہیں، اپنی لاچاری کا رونا روتے ہیں۔ اس سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوجاتا ہے۔ دوسرا ہے موجودہ زمانہ : موجودہ زمانے میں جینے کے لئے الگ قسم کی سوچ اور طرز عمل نہایت ضروری ہے ۔ مثلاً ایک زمانے میں گورنمنٹ نوکری سب کچھ تھی،جس کے لئے سب کچھ داو پر لگایا جاتا تھا، مگر آج صورت حال اس کے برعکس ہے۔ نجی اداروں میں کام کرنے والانوجوان سرکاری ملازمین سے زیادہ کمالیتا ہے، عالیشان زندگی گزارتا ہے، دوسروں کو بھی نوکریاں فراہم کرتاہے، البتہ ہمارے والدین پر سرکاری نوکریوں کا بھوت سوار ہے۔ اس لئے زمانے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر بھی تبدیلیاں لانا ضروری ہیں۔ پرانی ڈگر پر چلتے ہوئے کہیں انسان موجودہ زمانے کی دوڑ میں بہت پیچھے نہ رہ جائے۔ تیسرا ہے رشوت خوری : ہمیں ہر روز یہ سبق پڑھایا جاتا ہے کہ رشوت دینے اور لینے والے پر لعنت ہے، مگر یہاں کوئی بھی کام اس کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ ایک لڑکا رشوت دے کر اچھی سی نوکری حاصل کرتا ہے اور زندگی کی خوشیاں لوٹتارہتا ہے، اس کو سارے لوگ عزت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں، اس کے برعکس وہ نیک لڑکا جو قیامت کے دن پر بھروسہ رکھتا ہے اور جوابدہی کا عنصر رکھتا ہے، رشوت سے پرہیز کرتا ہے، عمر بھر محنت کش بننے کے لئے مجبور ہوجاتا ہے۔ اس کو سارے لوگ نیچی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ اس کو بے جا طعنے کھانے پڑتے ہیں۔ گھر میں بھی یہی ہوتا ہےاور گھر سے باہربھی۔ اِس سے دوری بڑھ جاتی ہے۔ یہ لڑکا خاص کر اپنے ماں باپ کو سمجھانے سے قاصر ہوجاتا ہے۔ زبان درازی بھی نہیں کرسکتا۔ چھپ رہ کر زہر کے گھونٹ پیتا رہتاہے۔ اس طرح یہ لڑکا اپنے اندر ایسی دنیا تعمیر کرلیتا ہے جو صرف سناٹوں اور اندھیروں کی آماجگاہ ہے۔ چوتھا ہے سرکار کا ہاتھ: اس صورتحال کو یہاں تک پہنچانے میں سرکار کا بھی رول ہے۔ اس نے قابل لڑکوں کو ناقص پالیسی کے تحت system سے باہر رکھا اور اَن پڑھ،نااہلوں کو اعلیٰ منصب پر فائز کیاہے۔ Nepotism کی آڑ میں اپنے گھروں کی بنیادیں مستحکم اور دوسروں کے گھروں کو ڈھایا گیا۔ اس صورتحال میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک لڑکا ذہنی کوفت کا شکار نہ ہوجائے، وہ اپنے والدین سے بات کرنا کیوں نہ چھوڑے،۔ وہ اندھیروں کا شکار کیوں نہ ہوجائے۔ جب والدین اپنے بیٹے کو اور آس پاس کے ماحول کو سمجھنے سے قاصر ہیںتو دوسروں سے کس بات کا گلہ کرسکتا ہے۔
حالات خراب سے خراب تر نہ ہوں، ان ساری باتوں کا سدباب ہمیںاپنے گھر سے شروع کرنا ہوگا۔ ماں باپ کو چاہیے کہ اپنے اولاد کو خاص کر بیٹوں کو انسان کی نگاہوں سے دیکھے۔ ہاں! وہ بھی اپنے اولاد کا بھلا چاہتے ہیں مگرشائد بھول جاتے ہیں کہ ایک لڑکے میں بھی دل ہوتا ہے، اس کو بھی ٹھیس لگتی ہے اور ٹوٹ بھی جاتا ہے۔ اس دل پر مرہم لگانے کی ضرورت ہے۔ سرکاری نوکری نہ ملے، تو نجی نوکری کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اپنا چھوٹا موٹا بزنس بھی کھولا جاسکتا ہے جس سے زندگی کی بنیادی ضروریات پوری ہو۔اگر کوئی مزدوری بھی کرے تو اس میں شرم کی کونسی بات ہے۔ مزید برآں منافقت سے پرہیز کیا جائے۔ یہ دنیا فانی ہے، جتنا آخرت کے لئے سامان کم ہوگا، اتنا ہی فائدہ ہے۔ گھر، دولت اور اولاد کام کی چیزیں نہیں ہیں، جب تک نہ ان کا صحیح استعمال کیا جائے۔ والدین نے زندگی کے بہت سارے سال گزارے ہیں، ان کے پاس تجربہ کی کمی نہیں ہے، وہ اس تجربہ کو بروئے کار لاکر اپنے بیٹوں کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ اُن کے درد کو محسوس کرکے پیار و محبت سے سمجھا سکتے ہیں۔ دوسروں سے موازنہ کرنا بند کرسکتے ہیں۔ ان کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر دو لفظ ایسے بول سکتے ہیں کہ جس سے ان میں ہمت بڑھے اور وہ زندگی کے اُتارو چڑھاو سے مقابلہ کرسکے۔ سرکار کو بھی ایسا ماحول ترتیب دینا چاہیے جہاں تعمیر کے مواقع ممکن ہوں، نہ کہ تباہی کا سامان۔ اس لئے وقت کی اہم ضرورت ہے کہ اس خلاء کوپُر کرنے کی کوشش کی جائے۔
(رابطہ۔7006031540)
[email protected]
حاجی باغ، بڈگام
باپ ، بیٹے کےمابین دوریاں کیوں؟