یہ گیارہ فروری ۲۰۱۸ء کی تاریخ تھی۔ وادیٔ کشمیر محمد مقبول بٹ کی برسی کے سلسلے میں ہڑتال تھی، موسم اَبر آلود تھا اور فضا سوگوار تھی۔ راقم نے شمالی کشمیر کے ہنگامہ خیز قصبہ کے بانڈی پورہ جانے کے لئے رخت ِ سفر باندھ لیا ۔اپنی گاڑی میں بیٹھے براستہ شالہ ٹینگ سرینگر سمبل سونا واری سے ہوتے ہوئے بطرف بانڈی پورہ روانہ ہوئے تو دیکھا کہ ہمہ گیر ہڑتال کے سبب سارے بازار سنسان تھے ، چہل پہل اور رونق بالکل غائب تھی، سواری گاڑیوں کی آمدورفت ٹھپ تھی،ا لبتہ بہت کم تعداد میں کوئی پرائیوٹ گاڑی یا سکوٹر سوارغیرہ سڑک پر دوڑتا نظرآرہا تھا ۔ سرینگر سے بانڈی پورہ 60 کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ جس راستہ سے ہم وہاں جا رہے تھے، وہ بیچ بیچ میں اتنا مرمت طلب اور ناہموارتھا کہ ا س پر گاڑی کا چلنا قدرے دشوار تھا ، خاص کرمیکڈم نہ ہونے کی بناء پر یہ خستہ حال تھا۔ کوئی دو گھنٹے کا سفر طے کر کے ہم نماز ظہر کے قریب بانڈی پورہ میں وارد ہوئے۔ قصبہ بانڈی پورہ جو کچھ سال پہلے تک ایک تحصیل کی حیثیت رکھتا تھا، اب باضابطہ ایک ضلع صدر مقام ہے۔ جموںو کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ جناب غلام نبی آزاد کے دورِ اقتدار میں دوسرے اضلاع کے ساتھ ساتھ اسے بھی ضلع کا درجہ دیا گیا۔ بانڈی پورہ کی اپنی ایک الگ شناخت اور تاریخی اہمیت ہے۔ تواریخ بتاتی ہے کہ زمانہ قدیم میں بہت سارے کاروان یہاں پڑائو ڈالاکر تے تھے۔ اس خطہ کو بلند وبالا پہاڑوں نے اپنی گود میں سنبھالے رکھا ہے، ہر سو خوشنما نظارے آپ کا استقبال کرتے ہیں۔ جھیل ولر کی خوبصورتی اس علاقہ کے حسن وجمال کو دو بالا کرتی ہے۔ یہاں بہت سارے اہل علم اور دانشور پیدا ہوئے ہیں۔ معروف مورخ پیر حسن شاہ کھویہامی یہیں پر گامرو گاؤں میں پیدا ہوئے ۔انہوں نے ’’تاریخ حسن ‘‘فارسی میں لکھ کر تواریخ کشمیر کے بہت سارے اوراق کو محفوظ کیا ہے۔ اس تاریخ کا ترجمہ یہاں کے نامی گرامی مترجم مرحوم شمس الدین احمد نے کیا ہے۔ کشمیری زبان کے معروف شاعر اور نعت گو جناب عبد الاحد نادمؔ بھی بانڈی پورہ کے مردم خیز علاقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی کشمیری میںلکھی گئیں نعتیں زبان زد عام ہیں۔ میر غلام رسول نازکی، مظفر فاضلی (بیرون ملک) اسی لہلہاتی سرزمین کے سپوت ہیں۔ صوفی منش لالہ ارگامی بھی اسی خاک میں آسودہ ہیں۔ ان کا صوفیانہ کلام اہل دل کو راحت اور جگر وک سکون بخشتا ہے۔ بانڈی پورہ کے بارے میں یہاں تفصیل سے لکھنے کی گنجائش نہیں ہے۔
۱۱؍ فروری ۲۰۱۸ء کوہڑتال کی وجہ سے بانڈی پورہ قصبہ کا سارا بازار بالکل بند پڑا تھا۔ اِکا دکا دوکانیں کھلی یا اَدھ کھلی تھیں مگر مجموعی طور یہاں ہُوکاعالم تھا۔ ناک نقشہ سے یہ بازار اور دکانیں جدید قسم سجاوٹوں اور رونقوں سے عاری نظر آرہی تھیں۔ لگ بھگ ایک کلو میٹرپر پھیلی دو رویہ دکانوں سے قصبہ ایک لمبا سا بازار دکھائی دے رہا تھا۔ سڑک کے کناروں پر کہیں کہیں چھاپڑی فروش اور ریڑھی والے مختلف چیزیں فروخت کررہے تھے۔ مچھیرنوں کی ایک قطار بھی یہاں موجود تھی جو چھوٹی چھوٹی مچھلیاں بیچ کر اپنا آذوقہ کماتی تھیں۔ ان کے ساتھ ساتھ ہڑتال کے باوجود سنگھاڑے اور ان کی گریاں بیچنے والیاں بھی یہاںخریداروں کی راہ تک رہی تھیں۔ بازار سے نکل کر ہم بانڈی پورہ کے باسی دو نوجوانوں کے ہمراہ ترکہ پورہ ہاپتھ نار کے اونچے پہاڑ پر چڑھنے لگے۔ پہاڑی راستہ بہت ہی کٹھن اور دشوار گزار تھا۔ پتھریلا راستہ ہونے کی بناء پر گاڑی دھیرے دھیرے ہی چل رہی تھی۔ پہاڑ سے نیچے کی طرف نظریں دوڑا تے تو کچھ ڈر سا لگ رہا تھا۔ مشکلات سے بھرے پہاڑی راستے کی بلندی طے کرنے کے باوجود ابھی ہم اپنی منزل مقصود پر پہنچ نہیں پائے تھے تو آگے سفر کے خدشات محسوس کر کے یہی مشورہ ہوا کہ بیچ راستے سے ہی واپس مڑاجائے۔ ہمارے ہمراہ میزبانوں نے ہماری مہمان داری کے تمام انتظامات مکمل کئے تھیلیکن سفر ادھورا ہی رہا۔
پہاڑی راستے سے واپس نیچے اُتر کر ہم نے زیارت گاہ سلطان العارفین شیخ مخدوم حمزہ رحمۃ اللہ علیہ یعنی اَہم شریف پر حاضری کا فیصلہ لیا اور کئی کلو میٹر طے کر کے زیارت گاہ پر حاضر ہوئے۔ یہ میرے دل کی ایک دیرینہ آرزو تھی۔ سر زمین کشمیر کی اس اہم زیارت گاہ میں حضرت شیخ حمزہ کشمیریؒ سے منسوب کچھ تبرکات موجود ہیں۔ ان میں گھاس سے بنی گول چٹائی ’’ژانگجہ‘‘ کو شیشے کے فریم میں بغرض زیارت رکھا گیا ہے۔ یہاں کی مسجد بھی بہت ہی عالیشان ہے جہاں نمازیوں کی بڑی تعداد پنج گانہ نماز ادا کرتی ہے۔ ہم نے ظہر کی نماز ادا کی اور اللہ کے حضور سر بسجود ہوکر مغفرت کی دعائیں مانگی۔ مجھے ایک چھوٹی سی بند کوٹھری میں سکونِ قلب حاصل ہوا جہاں پر دو رکعت نفل نماز ادا کی۔ یہ زیارت گاہ سر سبز پیڑپودوں سے ڈھکے ایک اونچی پہاڑ ی کے دامن میں واقع ہے۔ یہاں بطرف شمال اونچے پہاڑ اور سر سبز جنگل آنکھوں کو طراوت بخشتے ہیں۔ راقم اکیلا ہی زیارت گاہ سے کچھ دور اس پگڈنڈی پر چہل قدمی کر تے ہوئے آگے نکل آیا ۔ کہتے ہیں حضرت شیخ العالم شیخ حمزہؒ کشمیری لوگوں سے دور اپنے مریدخاص حضرت بابا دائود خاکی ؒکی معیت میں ایک اونچے پہاڑی چٹان پرعبادت خدا وندی ہمہ وقت میں محو رہتے تھے۔ یہ بہت بڑی چٹان آج بھی اپنی جگہ پر موجود ہے اور اس کو’’ پیٔر پل‘‘ کہتے ہیں۔ یہاں تصور کی آنکھ کھول کر میں نے صدیوں پہلے اس گھنے جنگل میں ان دو عظیم المرتبت بزرگوں کی خلوت نشینی اور یادِ خدا کا منظر یاد کیا تو یہی اخذ کیا کہ دراصل اولیائے کرام کی شان ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ بقول حافظؔ شیرازی:
ہر گز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بہ عشق
ثبت است بر جریدئہ عالم دوام ما
یہی اولیاء کاملین اور بزرگانِ دین ہیں جن کی بے لوث خدمات اور دینی رہنمائی سے کراہتی ہوئی انسانیت کو سکون ملتارہا اور انہی مستجاب الدعوات دوستان ِ خدا سے اللہ تعالیٰ دنیا والوں پر رحمت و رافت کی بارشیں برساتا ۔ صدیاں گزرنے پر بھی ان کی تعلیمات اور زندگی کے روشن کارناموں سے ہم اپنی اندھیری راہوں کو روشن کر سکتے ہیں۔ سچ کہا ہے حکیم الامت علامہ اقبالؒ نے ؎
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ارادت ہو تو دیکھ اُن کو
ید بیضاء لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
اس فیض رسان مقام سے نکل کر میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ریاست بھر میں مشہور و معروف دار العلوم رحیمیہ بانڈی پورہ کی جانب روانہ ہوا۔ اپنے ہم سفر زاہد کی رہنمائی میں دار العلوم جاتے ہوئے میری نگاہیں بانڈی پورہ کے ارد گرد بلند و بالا پہاڑوں کو دیکھ رہی تھیں۔ اللہ کی یہ شان کہ کچھ پہاڑ بالکل ننگے تھے جن پر رواں موسم سرما کی مناسبت سے برف کی پرت جمی تھی، حالانکہ اس بار ہلکی سی ہی برف باری ہوئی۔ بہت سارے پہاڑی چوٹیوں پر درخت قطاراندر قطاردکھائی دے رہے تھے جس سے یہ جنگل نما پہاڑ لگ رہے تھے۔ اللہ کی شان دیکھئے کہ جھیل ولر میں اکثر وبیش ترپانی کی سطح کم ہونے سے زمین کے اکثر حصے اُبھرے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ ادھر گائوں کی کھر دری سڑکیں، چھوٹے چھوٹے مکانات اور دوکانیں دیہاتی منظر پیش کررہی تھیں۔ چلتے چلتے ایک مکان کی چھت پر بندر سے بھی نظریں چار ہوئیں ۔اس کی طرف ہم نے ایک عدد کیلا پھینکا تو اس نے جھٹ پٹ اس کا چھلکا الگ ہٹا کر اسے پیٹ میں پہنچادیا۔ ہمارے ساتھ میرے پوتے اور پوتی نے یہ نظارہ دیکھا تو معصومانہ خوشیوں سے اُچھل گئے اور وہ اسی نظارہ میں بہت دیر تک کھوئے رہے۔
دارالعلوموں پر چاہے امریکہ بہادر کتنی ہی سنگ دلی اور حیوانیت کا مظاہرہ کر تے ہوئے بمباریاں کر ے،ان کی کتنی بدنامیاں کر تا پھرے ،ا نہیں غلط ناموں سے پکارتا رہ مگر بقول کسے اَٹل حقیقت یہ ہے کہ’’مدارس اسلامیہ عالم ِاسلام کا مرکز و محور کے مانند ہیں جہاں نہ صرف اسلامی آبادی بلکہ انسانی آبادی میں علم تقسیم کیا جاتا ہے۔ یہاں ذہن و دماغ ہی نہیں قلب و نگاہ بھی ڈھلتے ہیں ان کا تعلق کسی عہد، تمدن، کلچر، تہذیب زبان و ادب سے نہیں بلکہ ان کا تعلق براہ راست نبوت محمدیؐ سے ہے جس علم سے اللہ کی معرفت حاصل ہو اور خلق خدا کو فائدہ پہنچے وہی علم محمود و مطلوب ہے او رجو علم انسان کو گمراہی اور فسق و فجور میں مبتلا کردے اور خلق خدا کے لیے ضرر رساں ہو وہ مذموم اور غیر مطلوب ہے‘‘۔ چلتے چلتے ہم دار العلوم رحیمیہ کی برکات والے مسکنِ علم وعمل میں پہنچ گئے۔ گیٹ پر السلام علیکم کے دعائیہ اور اسقبالیہ ایک سبز رنگ کے چھوٹے سے بورڈ نظریں ٹکرایں تو دل کی زبان سے نکلا وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔ دربان نے گیٹ کھول کر گاڑی اندر لے جانے کی پوری آزادی سے راستہ چھوڑا۔ سرکاری دفاتر میں ادخال کر تے وقت کن تکلیف دہ مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور کس ذہنی کوفت اور ایذاء رسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ بیان سے باہر ہے۔ اندر قدم رکھتے ہی دار العلوم کی عظیم الشان عمارتیں نظروں میں سماں گئیں۔،دائیں بائیں سبز رنگ کی چھوٹی چھوٹی تختیوں پر سفید پینٹ سے لکھے ہوئے اسلامی کلمات مثلاً سبحان اللہ، الحمد للہ، اللہ اکبر، درود پڑھئے، ذکر اللہ کیجیے۔ دعا کیجیے وغیرہ سے روح پرور ذہنی فضا دل کی دنیا میں حاوی ہوگئی۔ دار العلوم رحیمیہ زمین کے ایک وسیع و عریض رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ مختلف عمارتوں میں اس کے متعدد دفاترہیں، جیسے دار الافتاء النور، مکتبہ دار العلوم رحیمیہ، شعبہ کمپیوٹر،مطبخ، لائبریری، وغیرہ وغیرہ ۔ شمالی کشمیر میں یہ دانش گاہ برصغیر میں ازہر الہند کہلاتا ہے اور اسے دار العلوم دیوبند کے طرز پر قائم کیا گیا ہے۔ یہاں اسلامی تعلیم وتدریس سے نئی پود کو بہرہ ور کیا جاتا ہے۔ حفظ کلام اللہ، درس حدیث کے علاوہ یہاں دیگر اسلامی علوم کا بھر پور انتظام ہے۔ یہاں کے طلبہ علم اور اخلاقیات کے زیور سے آراستہ و پیراستہ ہوتے ہیں۔ ادارے کا عملہ اور مدرسین وطلبہ مہمانوں کے ساتھ یہ حسن سلوک سے پیش آتے ہیں اور قدم قدم پر ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔ دار العلوم کی عظیم الشان لائبریری دوسری عمارت کی منزل میں واقع ہے ۔ یہاں لوہے کے شلفوں پر اسلامیات اور دیگر علوم و فنون پر لاتعداد کتابیں موجود ہیں۔ مجھے یہ کتابیں دیکھ کر یہاںعلم و ادب کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بہتا محسوس ہوا۔ خالق کائنات نے ابتداء میں ہی ’’اقراء ‘‘سے وحی کا آغاز کر کے ہمیں علم حاصل کرنے کی تلقین کی۔ اس لیے مسلمان جہاں جہاں بھی آباد ہوئے، وہاں مساجد کے ساتھ ساتھ درسگاہوںکی بنیاد ڈالی اور تعلیم و تعلم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔ شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کو یورپ جانے پر وہاں اپنے اسلاف کی علمی کتابیں نظر آئیں اور ان علمی نوادر ات سے غیروں کے مستفید ہونے پر تاسف کے ساتھ یہ کہنا پڑا ؎
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ
موجودہ لائبریری کو اب ایک عظیم الشان تین منزلہ عمارت میں منتقل کیا جائے گا۔ان شاء اللہ۔ امید یہی ہے کہ آنے والی نسلیں اس دینی کتب خانہ سے مستفید ہوجائیں گی۔ دار العلوم کی مسجد شریف بھی بہت ہی عظیم الشان ہے، یہ بہت کشادہ اور دو منزلہ ہے۔ اس کے پُر کشش گنبد سے ادارے کی شان و شوکت دوبالا ہوتی ہے۔ یہاں مجھے دو رکعت نفل نماز ادا کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ گر قبول افتد زہے نصیب۔ ساتھ ہی صحن میں دار العلوم کی ملکیت کچھ گاڑیاں دیکھیں جو طلباء کے لانے لے جانے کے لئے مخصوص ہیں۔ چائے نوشی کے لیے یہاں الگ سے ایک ٹی سٹال موجود ہے۔ مکتبہ دار العلوم سے شائقین ِ کُتب کتابیں خرید تے ہیں۔ دار العلوم رحیمیہ سے ایک ماہنامہ رسالہ اردو اور انگریزی میں شائع ہوتاہے جن میں مختلف دینی عنوانات سے مقالات شامل اشاعت ہوتے ہیں۔ راقم نے اس کے دو شمارے حاصل کئے۔ میری ذاتی لائبریری میں رسالے کے پرانے شمارے اور کچھ خصوصی نمبرات موجود ہیں۔ الغرض سر زمین کشمیر میں یہ دار العلوم روشنی کا ایک بلند و بالا منارہ ہے جس کی روشنی سے ہزاروں کشمیری اور غیر کشمیری سے آنے والے طلباء فیض حاصل کرتے رہے ہیں۔ واقعی مدارس کے بارے میں اقبال مرحوم نے فرمایا کہ ہندوستان میں یہ دینی مدرسے اسلام کے قلعے ہیں۔یہ دار العلوم قائم کرنے کاسہرہ مولوی محمد رحمت میر قاسمی کے سر جاتا ہے۔ اس کارخیر میںاُن کے رفقائے کار بھی پیش پیش رہے ہیں۔ جناب مفتی نذیر احمد قاسمی صاحب اسی دار العلوم میں اپنی علمی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ دونوں حضرات کسی دوسری ریاست میں گئے ہوئے تھے اس لئے اُن کی ملاقات، دعاؤں اور شفقتوں سے محروم رہا۔ دار العلوم کو دیکھ کر طمانیت قلب کا خزانہ دل میں بھر تے ہوئے ہم بانڈی پورہ سے رخصت ہوئے ، البتہ واپسی پر دوسرا راستہ اختیار کر کے کئی گھنٹے سفر کے بعد ہم بخیر و عافیت گھر پہنچ گئے۔ اگرچہ بانڈی پورہ میں اور بھی کئی تاریخی جگہیں دیکھنے کی خواہش تھی مگر ہڑتال اور وقت کی کمی کی وجہ سے میں یہ خواہش پورہی نہیں کر سکا۔ اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا تو آئندہ کبھی بانڈی پورہ کی یہ جگہیں دیکھنے کا ارادہ ہے۔
فون نمبر9419674210