مستورات کی زُلف تراشی کے اذیت ناک سلسلے نے ایک دو ہفتوں سے پوری وادی کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ تمام ذی شعور اور حساس لوگ انگشت بدنداں ہیں کہ یا الہیٰ یہ ماجرا کیا ہے؟ دوسری طرف کچھ لوگ سوشل میڈیا پر متاثرہ بہن بیٹیوں کی تصاویر اور ویڈیو عام کرنے میں سبقت لے رہے ہیں، جب کہ کئی بے غیرت لوگ اس سلسلے پر کف افسوس ملنے کی بجائے فیس بک ، وٹس اَپ ، ٹویٹراور دوسری سوشل میڈیا سائٹوں پر ہماری ا جتماعی پر یشانی کا خوب مزے لے رہے ہیںاوریہ بھول جاتے ہیں کہ کل کویہ نا قابل بیان سانحات ان کے ساتھ بھی پیش آسکتے ہیں۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ایک مدت دراز سے ہندوستانی ایجنسیاں یہاں پر پہلے سے ہی ابتر حالات کو کسی نہ کسی بہانے اور بھی خراب کرنے کر تی رہی ہیں۔ ان کا یہ مشن یہ بھی ہے کہ یہاں کے عوام میں ایک دوسرے کے تئیں نفرت اور دشمنی کا جذبہ جنم پائے اور وہ ایک ودسرے کے درپے آزار ہو جائیں۔ وہ یہی چاہتے ہیں کہ لوگ اس نئے فتنہ سے وابستہ اصل ظالموں کی شناخت سے بے خبر رہ کر اس سیاہ کارستانی کا ملبہ شک کی بنیاد ایک دوسرے پر ڈالنے میں ہوائی قلعے بنائیں ۔ یہ ان ایجنسیوں کی مکارانہ اسٹرٹیجی ہوسکتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ چوٹیاں کاٹنے کے شک وشبہ میں وہ لوگ بھی خواہ مخواہ دھر لئے جاتے ہیں جن کا اس شیطانی کام سے کوئی لینا دینا نہیں ، مثلاً گزشتہ دنوں ہدی پورہ رفیع آباد میں ایک پھیری والے کی چوٹیاں کاٹنے کے الزام میں ہڈی پسلی ایک کر دی گئی۔ اس شخص کا قصور یہ تھا کہ وہ کپڑے فروخت کرنے کے لیے گائوں کا چکر لگا تارہا ہے۔ پریشانی کے عالم میں لوگوں نے کسی بھی تحقیق اور پوچھ تاچھ کے بغیر مذکورہ شخص کو چوٹیاں کاٹنے والاسمجھ کر اسے اپنے تشدد کا نشانہ بنایا۔ ایسا ہی ایک واقعہ دلنہ بارہمولہ میں پیش آیاجہاں پر لوگوں نے ایک نوعمر لڑکے کی پوری طرح دھلائی کی، اور بر سر موقع ویڈیو بنا کر اس کا خوب چرچا کیا گیا۔ کھڈونی اسلام آبا اور گاندربل میں بھی اسی نوع کے واقعات وقع پذیر ہوئے ۔ ستم یہ ہے کہ وہ پولیس اور دوسری سرکاری ایجنسیاں جو ہمیشہ پیلٹ اور گولیوں کا ذخیرہ عوام الناس پر استعمال کر نے میں دلیر بنی ہیں ،وہ جان بوجھ کر ا س نئے فتنے کے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ حالانکہ کشمیر پولیس اگر چاہے تو ایک دن میں اس پورے ظالم وجابر اور فتنہ بار گروہ کو بے نقاب کر سکتی ہے لیکن یہ اس کی ترجیح کیوں نہیں ، ا س کی وضاحت کر نے کی ضرورت نہیں۔ حکومت اور پولیس نے ہمیشہ یہاںکے عوام کے ساتھ روزاول سے کیا سلوک روا رکھا ہے وہ کسی باشعورشخص سے پوشیدہ نہیں اور عیاں راچہ بیان کے مصداق اس پر تبصر ہ کر نے کی حاجت بھی نہیں ہے۔ ایسے میں یہاں کے عوام خاص کر پڑھے لکھے نوجوانوں اور بزرگوں پر زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیںکہ وہ نہ صرف انسانیت کے خلاف اس ناقابل معافی جرم کے خلاف سینہ سپر ہوکر کشمیری خواتین کی عزت وناموس بچائیں بلکہ جو لوگ شک کے دائرے میں آتے ہوں ،ان کی شناخت کے بارے میں کسی بھی نتیجہ پر پہنچنے سے پہلے پوری تحقیق کیا کریں تاکہ کوئی بے گناہ اجتماعی غصے کا ہدف نہ بنے ۔ ایسے مناظر کواحتیاط اور ہوش مندی کے ساتھ فیس بک یا وٹس اَپ پر صرف اس نیت کے ساتھ اَپ لوڈ کیاکریں کہ لوگوں میں بیداری بھی آئے اور وہ چوکنا رہوکر اس خفیہ دشمن کو بے نقاب کرنے کا حوصلہ پا سکیں۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ کسی مظلوم کا درد بانٹنا ہی انسانیت ہے اور ظالم کو ظلم سے روکنا بھی ہمارا فرض ہے۔ اہالیان ِ کشمیر کو دست بدعا ہونا چاہیے کہ ا للہ کریم اس قوم کی ہر بہن بیٹی بہو کو اس نئی آفت وشامت سے محفوظ فرمائیں ۔ آمین