دنیا میں جہاں جہاں خطہ ہائے مخاصمت (conflict zones) پائے جاتے ہیں، وہاں زورآور اور طاقت ور فریق کمزور و بے نوا فریق کو ڈرانے دھمکانے کے لئے نہ صرف اُسے متعدد تکالیف اور ایذاء رسانیوں سے خائف کر تا رہتاہے بلکہ ا س کے خلاف نفسیاتی جنگ بھی چھیڑ دیتا ہے تاکہ اس کی آواز دب جائے ، اس کی آرزوئیں بے سمت ہو جائیں ، اس کی ہمت جواب دے ،اس کے خواب بکھر جائیں اور اس کی جدوجہد لا حاصل رہے ۔ اس جنگ سے بالخصوص سے مظلوم فریق کے ہوش وحواس پر کاری ضربیں لگائی جاتی ہیں ، اس کی سوچ کو مسخ اور دماغ کو مائوف کیا جاتاہے۔ اس نوع کے نفسیاتی حربے طاقت ور فریق کے وضع کردہ نت نئے گھنائونے منصوبوں کو کامیاب بنانے میں معاون ومددگار بن جاتے ہیں۔ کشمیر میں گزشتہ ستائیس سال سے عوام کے خلاف حقو ق البشر کی بدترین خلاف ورزیوں اور کشت وخون کے ساتھ ساتھ نفسیاتی جنگ بھی مختلف شکلوں میں عوام کے خلاف جاری و ساری ہے۔ اسی کی ایک کڑی فی الوقت وادی ٔ کشمیر کے اطراف واکناف میں عفت مآب بہو بیٹیوں اور ماؤں کے خلاف غیبی ہاتھوں سے چلایا جارہا اشتعال انگیز اورشر م ناک بال کٹاؤ آوپریشن ہے ۔ بظاہریہ آوپریشن فریق مخالف کو ذہنی طور مفلوج بنانے کے لئے چلایا جارہاہے تاکہ اہل وطن اس کشمکش اور تذبذب میں پڑجا ئیں کہ گھرسے باہرنکلیں توگھرمیں موجودخواتین کی چوٹیاں کٹ جانے کا خدشہ ہے ،گھرمیں رہیں توآذوقہ ٔ حیات کہاں سے کمائیں ؟اسی جھمیلے میں پڑکروہ اصل ہدف بھول جائے یاکم ازکم اصل ہدف سے وقتی طور اس کی توجہ ہٹ جائے ۔ ممکنہ طور اس ننگ انسانیت نفسیاتی جنگ کا مقصد دوسروں پر جھوٹے اورناجائز الزامات لگانا، عوام کوذہنی طور پرمسلسل ہراساں کرنا، رائے عامہ پریشر ڈالنا ، قوم کوذلیل و رُسوا کرنا، عوامی جذبات سے گھناؤنا کھیل کھیلنا، طرح طرح کی سازشیں آزمانا ،صبر کا امتحان لینا اور مختلف اوچھے ہتھکنڈوں سے لوگوں کو آپادھاپی کے دلدل میں یرغمال بنانے رکھنا وغیرہ وغیرہ ۔ یہ موجودہ نفسیاتی جنگ کے چند خطرناک اورضرررساں نقصانات ہوسکتے ہیں ۔ ستم بالائے ستم دختران کشمیرکی جبری بال کٹائی کے واقعات کا سلسلہ گھٹنے کے بجائے بڑھتا جارہا ہے اور اس کی لپیٹ میں ریاست کا طول و عرض آرہاہے ۔بنظر غائردیکھاجائے تودختران کشمیرکے خلاف اس جنگ کا نچوڑ یہی دِ کھ رہاہے کہ اس آپرویشن سے نہ صرف کشمیری عوام کی حالت بے آسرا روہنگیا جیسی ہوجائے بلکہ خواتین کشمیرکی تذلیل کرنے کے ساتھ ساتھ اس بدنام زماں جنگی اسکیم سے مطلوب یہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ کشمیر کے مرد وزن ا ور پیروجواں حق خود ارادیت مانگنے کی پاداش میں اجتماعی سزا پائیں کہ وہ ذہنی پیجان میں اپنا توازن کھوبیٹھیں اورمریض ِدل اور بیمار ذہن بن کر ایسی ناپسندیدہ حرکات پر اُترآئیں کہ بال بھو ت ہو نے کے شک میں کسی باولے اور نامرد تک کو مارنے پر تُل جائیں ۔انہی اغراض کے تحت مسلسل یہ گھناؤنی سازش عملائی جارہی ہے اوراس نفسیاتی آفت نے وبائی صورت اور خطرناک رُخ اختیار کیا ہے۔
بال کاٹ آوپریشن کے تعلق سے صورت حال گھمبیر ہے اور دن بہ دن یہ سنگین رُخ اختیار کرتی جارہی ہے۔ان پر یشان کن واقعات کے پیش نظر پورے کشمیر میں خوف و ہراس کی ایک لہر پیدا ہونا فطری بات ہے۔ خواتین اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کررہی ہیں اور وہ سچ مچ خوف کے عالم میں نفسیاتی مرض اورذہنی تنائو کاشکار ہورہی ہیں۔ان اعصاب شکن حالات میں غیر یقینیت کی فضا بھی پیدا ہوگئی ہے اورہر سو افراتفری کا ماحول ہے۔دختران کشمیر کادورآزمائش1990سے شروع ہواجوہنوزجاری ہے۔ کشمیر کی بیٹیوں نے اس دوران بڑے ستم جھیلے اوربڑی مصیبتیںاٹھائیں ،ان کے قلوب پرکتنے بڑے اورگہرے گھائواوران کے دماغ کتنی پرشدیدچوٹیںلگ چکی ہیں، اس کا شمار نہیں۔ان کے سامنے ان کے بھائی بند پیوند خاک ہوئے۔ آلام وآفات ِکشمیر کی اندوہناک رودادمیں یہ سلسلہ ایک ایسے سیاہ باب کااضافہ ہواجوروح فرسا بھی ہے اور غیرت وحمیت پر حملہ بھی ہے ۔ جسم پر اگرزخم لگ جائے وت تھوڑی دیر رستارہتاہے، بالآخربھرجاتاہے لیکن روح پر گھائو لگ جائے جیتے جی نہیں بھر سکتا۔بنت حوا کی نفسیات کولگے ان ناقابل برداشت زخموں کا علاج کہیں بھی ممکن نہیں۔ ہمارے سامنے کنن پوش پورہ کا ناگفتہ بہ المیہ ہے ، اس کا کرب اب بھی ان عفت مآب ماؤں اور بہنوں کے قلب وجگر میں بس کر ا نہیں تڑپا رہاہے ۔ روح انسانی یاانسانی نفسیات کولگے ایسے گہرے گھائو یوں تو دیکھنے سے نظر نہیں آتے لیکن دل و دماغ پریہ چوٹ، یہ گھائواوریہ زخم ایسے دردناک ٹیسیں بن کر اپنے پیچھے اتنے منفی اثرات چھوڑدیتے ہیں کہ جو متاثرین کو مرنے دیتے ہیں نہ زندہ رہنے دیتے! یہ زندگی بھراندرہی اندر شرمساری، احساس کمتری ا ور خجالت کا طوفان برپاکرتے رہتے ہیں ۔ایسے المناک سانحات جن سے روح کی رگ وپے زخمی ہوجائے ، ان کاشکارہمیشہ کے لئے مضطرب ہوکرپیچ وتاب کھاتا رہتا ہے ۔یہ روح کی وہ اذیت ناک حالت ہوتی ہے جس کی ایک ایک خراش لاکھ کوشش کے باوجود بھی اپنا نقش کئی ایک زندگیوں پر ہمیشہ کے لیے باقی چھوڑ دیتاہے ۔بدنصیب کشمیری قوم کا رونا یہ ہے کہ افسپا کی ننگی تلوار لئے کشمیر کی بستی بستی میں فوجی جماؤ ہے جس کے چلتے سرزمین پردرندگی کو قانون کی حیثیت حاصل ہے اور ہرظلم وتشدد پر ریاستی حمایت کا ٹھپہ ثبت ہے بلکہ وردی پوشوں کے مظالم کو دیش بھکتی کے نام پر تمغوں اور ترقیوں کی شکل میں شاباشی اور پذیرائی ملتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کیچ اینڈ کل سے لے کر بال کاٹ آوپریشن تک ہر ظلم وجبر پر اربابِ اقتدار کی جانب سے ظالموں کو تالیاں اور تعریفیں ملتی ہیں ۔ اس وقت جس ناقابل بیان مصیبت میں قوم پھنسی ہوئی ہے اُ س کا مداوا کر نے کے بجائے پی ڈی پی کے لیڈر( بی جے پی اور آر ایس ایس کے چہیتے چمچے ) کھلے عام کشمیری عوام کو ہسٹیریا ( صحیح ترلفظوں میںپاگل پن ) کا طعنہ دے کر دستانہ پہنے ہوئے ظالموں کو کیموفلاج کر تے ہیں تاکہ ان کی وفاؤں کا صلہ انہیں بے وفا کرسیوں کی صورت میں اور کچھ ماہ ملتا رہے ۔ کا ش اس ننگ انسانیت آوپریشن کے راکھشس ان کے اہل خانہ کو بھی اپنا شکار بنائے تب انہیں پتہ چلے گا کہ پاگل کون ہے ۔ یہ جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف ہے اور ان لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ آسیہ اور نیلوفر کے المیہ کو نکارتے ہوئے عمر عبداللہ نے بھی اسی گھاٹے کے سودے سے دلی کی جی حضوری کی مگر عام نے انہیں بخشا نہ اللہ نے ۔
بلاشبہ صنف ِنازک پرزمین تنگ کرنے والا چاہے کوئی بھی ہو ، وہ وحشی کہلاتا ہے۔ان وحشی درندوں کی درندگی کہاں سے نموپاتی ہے، یہ ایک سوال یا معمہ ہوسکتا ہے، لیکن اس کاجواب تلاش کرنا چنداںمشکل نہیں ۔ جب زمینی صورت حا ل یہ ہو کہ کشمیری مسلمانوں کے جان ومال ،عزت و آبرو اورحال ومستقبل کو کھوٹے سکوں کے عوض نیلام کر نے والوں کو کر سیاں مل رہی ہوں ، اقتدار کی رشوت پانے کے لئے اخلاقی پابندیاں، انسانیت اور مستقبل ِ کشمیر کو بیچ کھایا جارہاہو ، اقتداری سیاست کے سودا گروں کاپاگل پن سر چڑھ کر بول رہا ہو، ان کے لئے ماں بہن بیٹی کی قدر ومنزلت کرسی کے سامنے صفر ہو ہو تو ضوانوں کو قبروں میں اُتارنا ، جیلوں میں ٹھونسنا، صنف نازک کو بے موت مارنا یا حالات کے ستم رسیدہ لوگوں کے آشیانوں پر بے تکلفانہ بجلیاں گراناکون سی بڑی بات ہے ؟ بہر کیف خواتین کشمیر نوے سے خاص کر سب سے زیادہ تکلیفوں کی شکار رہیں ۔بے آبرو بھی اسے ہی ہونا پڑا، بیوگی اورنیم بیوگی کا عذاب بھی اسے جھیلنا پڑا ، اپنے بچوں کے جنازے اٹھانے کی قیامت بھی اسے جھیلنا پڑی ، یتیموں کا بوجھ بھی اسے اٹھانا پڑا اوراسے متنوع مجبوریوں اور محرومیوں کا شکار بھی ا سے ہونا پڑا۔ اور اب موئے سر جسے ہر کشمیری مسلم خاتون اجنبی اورغیرمحرم نگاہوں سے چھپانے کیلئے اسے ہمیشہ چادر اور دوپٹے سے ڈھانک کر رکھتی ہے ،اسی پر قنچی چلاکر تقدیس ِزن پر دھاوا بولنے والا دشمن انسانیت اپنا راکھشسی آوپریشن چلا رہاہے ۔ اس پرپوری قوم میں ایک اضطرابی صورت حا ل ہے ، سب نالہ زنی کر رہے ہیں اور تمام لوگ اس طوفان بدتمیزسے نجات چاہتے ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ کشمیری مسلمان ایک زندہ قوم ہیں،وہ اس امرکوخوب سمجھتے ہیں کہ ظلم کی یہ نوع یونہی جاری رہی تو کشمیربربادی کی گہری کھائی میں فنا ہوجائے گا ۔وہ اس امرکو بھی جانتے ہیں کہ مثبت سوچ اور مثبت عمل تحریکوں کے لئے ضروری ہوتا ہے ۔اس قوم نے نوجوانوں کی ایک ایسی نسل تیار کی ہے جس کے اندرحریت فکر کی منزل حاصل کرنے کا جوش اور جذبہ ایک ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی مانند موجزن ہے ۔اس کے ناقابل شکست عزائم اس امرکی طرف بلیغ اشارہ کرتے ہیں کہ وہ بہت جلدظلم کی اس نئی ریت سے نجات پاکر اس گھنائونی سازش کا وہ توڑ کر یں گے جیسے انہوں ایسی دوسری خطرناک سازشوں کا خاتمہ کر نے کا ریکارڈ بنایا ۔
کشمیرکرۂ ارض پر واحد خطہ ہے کہ جہاں ایسے گھنائونے جرائم انسانی حقوق کی دہائیاں دینے والے عناصر کے نیم دلانہ شور وغل کے باوجو رونما ہو تے رہے ہیں ۔ رہا بھینگی آنکھ والا متعصب میڈیا ، اِس طرح کی ظالمانہ وارداتوں پر اس کی زبان گنگ ہوجاتی ہے ، بالخصوص بھکاؤ اینکروںکے منہ میں گھنگنیاںپڑجاتی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے آج تک بھولے سے بھی کشمیر اور جموں کے مسلم بلیٹ میں لوگوں پر ظلم وستم کو اجاگر کر نے میں کوئی ریاکارانہ دلچسپی بھی نہ دکھائی بلکہ انہوں نے بے وردی اور با وردی مجرموں کی ہر سیاہ کارستانہ پر تالیاں پیٹیں۔ اس لئے کشمیر میں سرگرم بال بھوتوں کے بارے میں بھی انہوں نے انسانیت یا اپنے پیشے کا تقدس کا تھوڑا سا بھی خیال نہ رکھا۔ ہمیں ان سے آئندہ بھی یہ امید نہیں ۔سچی بات یہ ہے کہ وردی پوشوںکے ہاتھوںکشمیرکی صنف نازک کے ساتھ جو جو وحشیانہ سلوک ہو ا یا ہورہا ہے ، اس پر انسانیت دل افسردہ اور شرمندہ ہے۔اس گھمبیرصورت حال کا ہلکا ساانکشاف جب سبینہ اسکنڈل کی شکل میں ہوا تو اس کا توڑبھی عدل کو توڑ مروڑ کر اسی طرح کیا گیا جیسے کرنل پروہت کو ہر جرم سے بری الذمہ قراردیا گیا ۔بلاشبہ ہمار ایمان ہے کہ دختران وطن کی قربانیاں ،ان کی مظلومیت اور ان کی بہادارنہ خدمات کا تذکرہ کئے بغیر تواریخ کشمیر نامکمل رہے گی۔ تاریخ کے صفحات میں درج ہے کہ دختران کشمیر اخوانی دورِ ظلمت میںاور ماقبل و مابعد بھی وردی پوشوں کے دست ِتظلم کی شکار رہیں ، کہیں کہہیں وہ گھر سے بے گھر ہوئیں،ان میں بعض ایسی اولوالعزم بہنیں بھی ہیں جنہیں کشمیر کازکی حمایت کے ’’جرم‘‘ میںتعذیب خانوں سے گذاراگیا، جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا ۔ عصری تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ ظلم و جور کے خلاف کشمیر کی بیٹیوں کے ہاتھوں میں پتھراورلاٹھیاں، کانگڑیاں اورکلہاڑیاں بھی آگئیں اورمظالم کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے یہ سڑکوں پربہادرانہ انداز میں آگئیں۔ چشم فلک نے دیکھا کہ جبروجور ان بہنوں اور بیٹیوں کوکسی بھی طورپرقبول نہیں بلکہ مبنی برحق کشمیرکازکے ساتھ ان کی نظریاتی اور جذباتی کمنٹمنٹ مستقل بالذات ہے ۔تاریخ کشمیران کی بہادری اوران کی عظمت کو سلام پیش کر تی ہے۔ خود ہی اندازہ کیجئے کہ جب دختران کشمیر کے عین سامنے ان کے بھائی اور بیٹے اور دوسرے عزیز درندگی کاشکاربن کرابدی نیندسوجاتے توان کے قلب وجگرپہ کیاگذرتی رہی ہو رنج و غم کی اس کیفیت کو شایدالفاظ میںبیان نہیں کیاجاسکتا۔ 1990ء سے آج تک مزاحمت و مصابرت کا کوہ گراں بنیںدختران کشمیر کی بے لوث کمٹمنٹ ،ان پرروارکھے جانے والا کثیرالجہت مظالم یا جبر جب انہیں جادۂ حق سے منحرف نہ کرسکا ۔ اس لئے یاد رکھئے کہ حالات کے مدوجزرکے ساتھ ساتھ دشمن کشمیرمیں کتنے بھی فتنہ وفساد جگائے( جن میں’’بھوت آپریشن ،فتنہ نابدیت اور اب بال کٹاؤ مہم شامل ہیں ) ان کثیر الانواع حربوں سے حالات کتنی بھی مختلف کروٹیں بدلیں ، اس سب کے باوجوددختران کشمیر اپنے بنیادی حق کے حصول سے قطعاَ دل برداشہ ہوکر نہ بیٹھیں گی بلکہ ان کی شناخت بطوربہادر وباحیاخواتین کے طورپرقائم رہے گی۔دختران کشمیرکے خلاف زیر بحث شورش اورتازہ یلغارگوکہ ایک خوفناک اسٹرٹیجی لگتی ہے،مگرصبر وثبات کی پیکرکشمیرکی خواتین اس نفسیاتی جنگ کامقابلہ کرکے دشمن کی اس سازش کواس کے منہ پرماردیںگی۔ ان شاء اللہ
جیساکہ اوپرعرض کیاجاچکاہے کہ وادی میںدختران کشمیرکی چوٹیاں کاٹنے کی پُر اسرا لہر فی الحال کہیں رُکنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔تادم تحریرمجموعی طورپرڈیڑھ سوسے زائددخترانِ کشمیرکی چوٹیاں کاٹ کر مظلوم قوم کی تحقیر تذلیل کی گئی ہے ۔صرف ایک دن میںیعنی 17؍اکتوبر کو سرینگر، گاندربل ،کپوارہ، بانڈی پورہ، بارہمولہ اور پلوامہ میں مزید10خواتین کی چوٹیاں کاٹ ڈالی گئیں ۔ ریڈی چوکی بل میں بال کاٹ مہم کے حوالے سے ٹرٹورئل آرمی کے ایک جوان کو مبینہ طور بال تراشی میں پکڑ اگیا ، اس چشم کشابعدبھی کیااس امر میں کوئی ابہام باقی رہتاہے کہ دختران کشمیرکی تذلیل کون کررہاہے ؟کون انہیں نفسیاتی مریض بنانے کے درپے ہے ؟کون انہیں ذہنی تنائو کاشکاربنارہاہے ؟ کیااس ٹھوس شہادت اوربین ثبوت کے بعد بھی کسی کرسی والے یا پولیس کے پاس کسی شک کی کوئی گنجائش باقی رہتی ہے ؟وادی کے شمال وجنوب میں اس بابت ایک سروے کرائیں اور راجیہ سبھا ممبر اور ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد سے لے کر عوام الناس تک ہر ایک سے پوچھئے کہ یہ سب کس کی شرات ہے ؟ کون یہ کرار ہاہے ، توہرسمت ایک ہی جواب ملے گاکہ وردی پوش اوران کی معاون ایجنسیاں تذلیل ِنسواں میں ملوث ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اب کون ا س حوالے سے کشمیریوں کو بچائے اورانصاف دلائے ؟؟؟ جواب یہ ہے کہ آسمانوں اورزمینوں کوپیداکرنے والا۔ اسی پرمظلومان ِ کشمیر کی نظرہے اوریقین کامل ہے کہ وہی انہیں انصاف دے گااس کے سواکوئی نہیں جو کشمیر کو اس درد وکرب کے دور سے نجات دلائے ۔ البتہ یہ بات طے ہے کہ بہت جلد یہ خوف ناک ہتھیار بھی کشمیریوں کے خلاف آزمائے گئے دیگر ہتھیاروں کی طرح کند پڑے گا ۔
�����