بال جبریل( ۱۹۳۵ء )آخری عمر میں تخلیق کردہ علامہ کا دوسرا مجموعۂ کلام اور اردو شاعری کا ایک حسین گلدستہ ہے ۔ اسے اسرارخودی (۱۹۱۴ء)،رموزبے خودی(۱۹۱۵ ء )پیام مشرق( ۱۹۳۲ء)،زبور عجم (۱۹۲۷ء )اور جاوید نامہ( ۱۹۳۲ء )کا عطر مجموعہ یا معجون مرکب کہا جا سکتا ہے ۔ اسمیں چھوٹی بڑی تمام نظمیں ۵۹،غزلیں ۶۱،قطعات ۲اور کل رباعیات ۳۹ ہیں ۔ مجموعہ کے سر ورق پر مرقوم یہ شعر ؎ ’’ پھول کی پتی سے کٹ سکتاہے ہیرے کا جگر ۔مرد ناداں پرکلام نرم و نازک بے اثر ‘‘نادان و کج فہم افراد پر گہرا طنز ہونے کے ساتھ ساتھ نا قدر شناسانِ اقبال کے لئے ایک زبردست تازیانہ ہے :’’بال جبریل ‘‘کی انفرادیت و خصوصیت کے سلسلے میں پروفیسر آل احمد سرور اپنی کتاب’’ دانشور اقبال‘‘ میں صفحہ نمبر ۲۷۷پر رقمطرازہیں :
’’اسمیں اقبال کی شاعری کابدر کا مل ہی نہیں اردو شاعری کی صدیو ں کی چمن بندی کا حاصل بھی مل جا تاہے ۔ اسکی نظمیں ، غزلیں دونو ں
اردو شاعری کی آبرو ہیں ۔بنا بریں اگر مجھے ہزاروں کتابوں میںسے ایک کا انتخاب کر نا ہو ،سمند ر میں سے ایک موج پر توجہ مرکوزکرنی ہو ،باغ میں سے ایک پھول چننا ہو،دھنک کے سات رنگوں میں سے ایک کا نام لینا ہو تو بال جبریل کا نام لو ںگا ،،
بلاشبہ اقبال کی شعری تصنیف’’ بال جبریل‘‘ سر تا پاانسانی زندگی کے اہم عناصر کا ایک دلکش اوردیدہ زیب منظر نا مہ ہے ۔مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مجمو عہ میں شامل تمام نظموں،غزلوں،قطعوں اور رباعیوں کا تجزیہ اس مختصر سے مضمون میں پیش کر پانا مجھ جیسے اردو کے ایک طا لب علم کے لئے بہت مشکل ہے ۔ لہذامیں اپنے اس مضمون میں اقبال کے مذکورہ بالا مجموعہ’’بال جبریل‘‘کی صرف اُنہی نظموں کامختصر تجزیہ یا اجمالی جائزہ پیش کروں گاجن کی وجہ سے اقبال دنیائے شعر و ادب میں امر ہیں۔ چنانچہ مسجد قرطبہ ، ساقی نامہ ، لینن خدا کے حضور میں ،فرمان خدا ،جبریل و ابلیس او ر طارق کی دعا مجموعۂ بال جبریل کی وہ قابل قدر اور لائق تقلید اردو کی نما ئندہ نظمیں ہیں جنہیں اقبال کی شاعرانہ عظمت کے بلند مینار کی حیثیت حاصل ہے۔ذیل میں انہی نظموں کا مختصر تجزیہ پیش ہے۔
مسجد قرطبہ : ’’مسجد قرطبہ ،،یقینا ہسپانوی سرزمین پر واقع سنگ و خشت سے مرقوم ایک مستند تاریخ اور مسلمانان اندلس کی جانفشانی کی علامت ،انکے ذوق عبودیت کی پہچان اور اسلامی تصور حیات کی جیتی جا گتی ایک تصویر کہی جا سکتی ہے ۔مسجد شاعر کی نظر میں مانند حر م پا ک اور خون مسلمانان اندلس کی امین ہے ۔ بقول آل احمد سرور’’ مسجد قرطبہ بیانیہ نظم ہونے کے ساتھ ساتھ علامتی نظم بھی ہے ۔ غالبا دنیا کی کسی شاعری میں مسجد کو علامت بناکراس طرح کی نظم نہیں کہی گئی ،،نظم کی موضوعاتی وسعت اور مضامین کی آفاقیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے مولوی شمش تبریز ’’نقوش اقبال‘‘ صفحہ نمبر ۱۸۳پر رقمطراز ہیں ’’ اس میں تقریبا فتح اندلس سے لیکر زمانہ حال تک کے تاریخی حوادث و انقلاب اور فکرو فلسفہ کی اہم تحریکات تک کا ذکر آگیا ہے ۔مسجد قرطبہ کے آئینہ میں ہم اقبال کی ہشت پہلوشخصیت کے خط و خال دیکھ سکتے ہیں اور ان سے مل بھی سکتے ہیں ،،۔ جہاں تک نظم کی فنی خوبیوں کا تعلق ہے تو اس سلسلہ میں جگن ناتھ آزاد کا ایک اقتباس کا فی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں ’’ اس نظم کا ہر بند غیر مردف اشعار پرمشتمل ہے اور ٹیپ کا ہر شعر مردف ہے ۔ خدا جا نے یہ محض اتفاق ہے یا التزام جو شاعر کے نغمہ آشنا احساس نے بر قرار رکھا ہے ۔یہ نظم صرف اقبال کا ہی شاہکا ر نہیں بلکہ ساری اردو شاعری کا شاہکا رہے ۔اردو شاعری میں اس نظم کے سوا کچھ نہیں ہو تاتو بھی ہماری اردو شاعری دنیا کی صف اول کی شاعری میں ایک ممتاز مقام حاصل کر سکتی تھی۔ مسجد قرطبہ شعریت و رومانیت ،حقیقت پسندی ،رمزیت اور ایمائیت کا ایک ایسا حسین امتزاج ہے کہ ہماری ساری اردو شاعری روزاول سے آج تک اس کی مثال پیش کر نے سے قاصر ہے ،، ]بحوالہ اقبال کی نظموں کا تجزیا تی مطالعہ مرتب کردہ ڈاکٹر فخر الاسلام ص ۸۰ -۸۱[۔
ساقی نامہ:’’ساقی نامہ، ، اقبال کی ایک شاہکار انقلابی نظم ہے ۔جس میں خودی اور زندگی پرسیر حاصل بے لاگ تبصرہ کیا گیا ہے ۔ نظم مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدارکرنے کی ایک مخلصانہ کوشش ہے ۔صنائع لفظی اور بدائع معنوی کا حسین مرقع یہ نظم اپنے ایک ایک شعر میں اسلامی تاریخ کے کئی کئی اور اق سمیٹے ہوئی ہے ۔ نظم سات بندوں پرمشتمل مستقل سات مختلف موضوعات کا احاطہ کرتی ہے ۔ چنانچہ منظر نگاری ، مسلمانوں کے موجودہ حالات کاتجزیہ دور حاضر کی روشنی میں ،نوجوانان امت کیلئے بارگاہ الہی میں دعا ریزی ،زندگی کی ماہیت ،زندگی کی خصوصیات ،خودی کی ماہیت اورخودی کی خصوصیات اس نظم کے با لترتیب موضوعات ہیں مثلا یہ اشعار دیکھئے ؎
فضا نیلی نیلی ہوا میں سرورٹھہرتے نہیں آشیاں میں طیور
حقیقت خرافات میں کھوگئی یہ امت روایات میں کھوگئی
جوانوںکو سوزجگر بخش دے مراعشق میری نظر بخش دے
یہ ثابت بھی ہے اور سیاربھی عناصر کے پھندوں سے بیزار بھی
بڑی تیز جولاں بڑی زود رس ازل سے ابد تک رم یک نفس
خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے
خودی شیر مولا جہاں اسکا صید! زمیںاسکی صید ،آسماں اسکا صید!
فنی طور پر اس نظم میں سلاست و روانی کے ساتھ ساتھ رعنائی و غنائیت ہے ۔ یہاں فصاحت و بلاغت کا صحیح مطلب ،جذبات نگاری و فطرت کشی کی بہترین مثال ، فلسفہ و حکمت کا موجزن سمندر محسوس کیا جا سکتا ہے ۔ بالخصوص نظم کا آخری حصہ قاری پر بے خودی کی کیفیت طاری کر دیتا ہے ۔ اسلوب سادہ ، بندش دلنشیں اور عمدہ فارسی تراکیب اس میں نظر آتی ہیں ۔ نظم کی مندرجہ بالا خصوصیا ت کی بنا پرہی کلیم ا لدین احمد جیسا بت شکن نقاد بھی اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کر نے پر مجبورہوا۔ ’’یہ ایک بہت ہی لطیف ،پیچیدہ ،رنگین اور توانا نظم ہے اور اس میں نقوش و آہنگ کی ایسی فنکارانہ گونج ہے جو اردو نظموں میں نا پید ہے ،،
لینن خدا کے حضورمیں : اقبال نے اس نظم میں مغربی تہذیب و تمدن کی تصویر کشی کی ہے اور وہا ں کی اخلاق باختہ و انسانیت سوز صورتحا ل کا منظر نامہ لینن کی زبان سے بارگاہ الہی میں پیش کیا ہے ۔ آل احمد سرور کی نظر میں نظم فی الواقع اشتراکی انقلابات کے اقدامات کا ایک جواز ہے ۔ یہ فنکارکی ہمدردی اور اسکی کردار نگار ی میں حقیقت پسندی کی ایک عمدہ ترین مثال ہے ۔ نیزایک مفکر کا دوسرے مفکر کی قدر شناسی بھی ہے ۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎
یورپ میں بہت روشنی علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظلمات
یہ علم یہ حکمت یہ تدبر یہ حکومت پیتے
ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات
بیکار ی و عریانی و مے خواری و افلاس
کیا کج ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات
غور کیجئے اقبال نے کیا ہی خوبصورت لب و لہجہ میں حقیقی تعلیم او ر ربانی علم کا تعارف کراتے ہوئے صحیح نظام تعلیم کی طرف ہم سب کی تو جہ مرکوز کرائی ہے ۔ جب کہ مغربی علوم کے منفی اثرات کے نمونے کے طور پر انہوں نے یورپ کا نقشہ ہمارے سامنے لا کر رکھدیا ہے ۔ یہیں سے اسلامی تعلیمات کی افادیت او ر تعلیمی طرز نبوی ﷺ کی اہمیت طشت از بام ہو جا تی ہے ۔ دوسرے شعر سے حکومت کی ظاہر داری ،ارباب اقتدار کی چنگیزیت ،حکمرانوں کے ظلم و جو ر کا منظر نامہ ،سامراجیت ، بے روح سائنسی معلومات اور بے دین تہذیب کاخوبصورت نقشہ سامنے آتا ہے ۔ جس سے انسانیت سوز مغربی تہذیب و تمدن کا پردہ با لکل چاک ہو کر رہ گیا ہے ۔ اس شعر میں اقبال نے حقیقی تعلیم او رصحیح حکمت و دانائی کا درس دیا ہے ۔ جو طویل غو ر و خوض کے بعد قاری پر نمایا ں ہو تا ہے ۔ تیسرا شعر یو رپ کی انتہا ئی درجہ کی ذلت و خواری کی داستا ن او رگمراہی و بے راہ روی کی کہا نی ہے ۔ اقبال نے دورئہ یو رپ کے بعد شاید اسی لئے کہا تھا کہ ان مدارس کو یونہی رہنے دو ورنہ یو رپ کے میخانے دیکھ آیا ہوں ۔ہرطرف حیوانیت و عریا نیت کا ننگا نا چ ہو تا ہے ۔ ظلم و بر بریت کی سنگ باری ہو تی ہے ۔ ہر سو بد کا ری و عیاشی کے اڈے او رغربت و افلا س کی تصوریریں ہی تصویریں نظر آتی ہیں۔
نظم فرمان خدا : یہ نظم ایک مؤثر اور معنی خیز کا میاب تمثیل ہے ۔ اقبال کی سیاسی بصیرت کو ظاہر ا ور مزدور طبقہ کی ز ندگیوں میں لہرو تموج پیدا کرتی ہے ۔ اس میںدین کے نا م پر دھوکہ باز پجاریو ں کی قلعی کھو ل دی گئی ہے ۔نظم’’ حرم پاک‘‘ کو تصنع و تکلف کے بجائے فطری او ر اصلی سادگی بخشنے پرز و ر اور اس میں ظاہر داری کی جملہ خود ساختہ علامتو ں کو نیست و نابود کردینے کا ایک حسین درس بھی دیتی ہے ۔ نقادوں نے اس نظم کو اشتراکیت کا منشور قرار دیا ہے ۔ردیف و قافیہ کا فنکارانہ استعمال یقینا نغمگی و مو سیقیت کا حق ادا کر رہا ہے ۔ آغاز سے انجام تک ایک ا نقلابی لہجہ ،گرجدار آواز اورجلالی کیفیت نمایاں ہے ۔ نظم کے مندرجہ ذیل اشعار قابل ذکر ہیں ؎
گرمائو غلامو ںکالہو سوز یقیں سے
کنجشک فر و مایہ کو شاہیں سے لڑادو
کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے
پیران کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو
جس کھیت سے دہقا ں کو میسر نہ ہو روزی
ا س کھیت کے ہر خوشئہ گندم کو جلادو
میں ناخو ش و بیزار ہو ں مرمرکی سلوں سے
میرے لئے مٹی کا حرم او ربنادو
نظم جبریل و ابلیس : یہ ایک تمثیلی نظم ہے اس میں فنی لحاظ سے تقریبا جملہ خوبیا ں بدر جۂ اتم مو جو د ہیں ۔ نظم کا آغاز جبریل و ابلیس کے مابین مکالمہ سے اس طرح ہو تا ہے ؎ ہمدم دیرینہ ؟!کیسا ہے جہان رنگ و بو
سوز و ساز و دردو داغ و جستجوئو آرز و
اس شعر میںجہاں ہمدم دیرینہ سے شاعری کارمزیہ انداز بیان ظاہر ہے ۔وہیں یہ نظم استعارات و تشبیہا ت کے پردے میں استقامت و خودداری ، اخلاقی جرأت و ہمت اورپامردی و ثبات قدمی کے راز بھی کھولتی ہے ۔نظم مومن کو فقط احکا م الہٰی کا پابند گردانتی ہے ۔ ایک شعر ملاحظہ کیجئے!
میں کھٹکتا ہوں دل یزداں میں کانٹے کی طرح
تو فقط اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو
طارق کی دعاء:’طارق کی دعاء‘‘شاعری کی تیسری آواز کی نمائندہ او راقبال کی ایک عمدہ شاہکار نظم ہے ۔طارق بن زیادؒ کی زبانی اقبال نے قوم مسلم کے لئے عز ت و سربلندی اور اولعزمی و عالی حوصلگی کی دعاء کی ہے ۔ نظم کی ابتدا میں مجاہدین فیا سبیل اللہ کی تعریف ان اشعا ر میںپڑھئے ؎
یہ غاز ی یہ تیرے پر اسرا ر بندے جنہیں تو نے بخشا ہے ذ و ق خدائی
دو نیم انکی ٹھوکر سے صحرا ء و دریا سمٹ کر پہا ڑ ان کی ہیبت سے عاری
دو عالم سے کرتی ہے بے گا نہ دل کو عجب چیز ہے لذت آشنائی
قارئین کرام !آ پ کو یا دہوگا کہ سر زمین اندلس میں معر کۂ حق و باطل بپا ہے او ر فرزندان تو حید نہایت بے سرو سامانی کے عالم میں ہیں۔ کشتیاں جلائی جا چکی ہیں ۔ ایسے ما حول میں مختصر مسلم فوج کا قائد با صفا ،پیکر زہد و تقا ،طارق بن زیا دؒ خدا ئے و حدہ لاشریک کی قدرت کا ملہ پر اعتماد کر تے ہو ئے ،نصرت الہی او رمدد خداوندی کی آس لگائے ،اسلام کا جھنڈا بلند کرنے کے خواب کو شرمندئہ تعبیر کر نے کے لئے مو منا نہ وار رزم گاہ توحید و شرک میں کھڑے دربا ر الہٰی میں دست بدعا ہیں کیو نکہ اب یہی وہ واحد ہتھیار ہے جو فتح و ظفر سے اس امت مسلمہ کو سر فراز کرسکتی ہے ۔ نبی پاک ؐ نے بھی غزوئہ بدر کے موقع پر بارگاہ ِخدا میں ان الفاظ میں دعاء فرمائی :اے اللہ اگر یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہو گئی تو پھر تیری عبادت کبھی نہیں ہو سکے گی ۔ اسی سنت کی اتباع میں اقبال نے بھی طارق بن زیاد ؓکے کردار کے ذریعہ اپنی امت کے لئے اس طرح دعاء کی ہے ؎
عزائم کو سینو ں میں بیدار کردے
نگاہ مسلماں کو تلوار کردے
مجموعی طور پر ’’بال جبریل،،میں شاعرانہ شوخیاں ،سرمایہ دارو ں کی مذمت ،حقائق زندگی کا دلنشیں اظہار ، رجائیت و املیت ، عشق نبوی ؐو تعریف محمدی ؐ،اور شعریت و غنائیت سب کچھ ہے ۔ مثلا یہ اشعار دیکھئے ؎
با غ ِبہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کار ِجہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشئہ گندم کو جلادو
ا ے طائر لا ہو تی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کو تاہی
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زر خیز ہے ساقی
وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا
قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر
چمن اور بھی ہیں آشیاں اور بھی ہیں
رابطہ صدر شعبۂ اردو، گرین ویلی ایجوکیشنل انسٹی ٹیوٹ