سرینگر// خواتین کی مبینہ بال تراشی کو نفسیاتی بیماری قرار دینے کے دعوئے کو مسترد کرتے ہوئے متحرک سیول سوسائٹی گروپ’’کشمیر سینٹر فار سوشل اینڈ ڈیولپمنٹ اسٹیڈیز‘‘ نے گول میز کانفرنس کے دوران ماہرین کی رائے سمیت جامع تحقیقات کی قرارداد منظور کی۔سیول سوسائٹی نے مشتبہ افراد کو مقامی معتبر کمیٹیوں کے سپرد کرنے اور معصوم افراد کو نشانہ بنانے سے گریز کرنے کی صلاح دی۔ سرینگر میں متحرک سیول سوسائٹی گروپ’’کشمیر سینٹر فار سوشل اینڈ ڈیولپمنٹ اسٹیڈیز‘‘ کی طرف سے’’ گیسو تراشی اور اس کے مسائل‘‘ کے موضوع پر گول میز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا،جس کے دوران سابق بیروکریٹوں،قانون دانوں،معالجین،مدرسین اور دانشور طلاب نے وادی میں مبینہ جبری گیسو تراشی کو خوف وہراس پھیلانے کی ایک کڑی قراردیا۔معرف معالج اور سیول سوسائٹی ممبر ڈاکٹر الطاف نے کہا کہ وادی میں پراسراریت کا ماحول کچھ نیا نہیں ہے،بلکہ1969-70میں اچانک اور پراسرار آتشزنی اور اس کے بعد چھوٹے بچوں کی اغوا کاری کے علاوہ1993میں بھوت جیسے پراسرار واقعات پیش آئے۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس میں مختلف ایجنسیاں ملوث تھیں۔انہوں نے کہا’’ موسم گرما کے دوران طالبات سڑکوں پر نکل آئے اور منظم طریقے سے سنگباری کی، یہ سیکورٹی اور خفیہ ایجنسیوں کیلئے ایک نئی صورتحال تھی،جسکا جواب خواتین کی گیسو تراشی کی شکل میں سامنے آیا،اور ان کو سبق سکھانے کیلئے یہ حربہ آزمایا گیا‘‘۔انہوں نے کہا کہ اصل میں خوف وہراس پھیلانے کی یہ ایک کڑی ہے۔ڈاکٹر الطاف نے کہا کہ کشمیری سماج میں خواتین کی بال تراشی انکی عزت و ناموس پر حملہ ہے۔انہوں نے کہا کہ پولیس کی طرف سے واقعات سے متعلق انکار اور کچھ غیر معروف ماہرین نفسیات کا نقطہ نظر نا قابل قبول ہے،جبکہ انہوں نے مشورہ دیا کہ اس تحقیقات میں معروف اور تجربہ کار ماہرین نفسیات کو شامل کیا جانا چاہے۔سابق جسٹس،جسٹس(ر) حسنین مسعودی نے کہا کہ اس طرح کے حربے صرف خواتین میں خوف وہراس پھیلانے کیلئے کئے جا رہے ہیں۔انہوں نے کہا’’1990میں جسمانی عضو چرانے کے واقعات بھی رونما ہوئے‘‘اور اس سارے مسئلے کو ایک وسیع دائرے میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ حسین مسعودی نے کہا’’ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ پہلے کچھ واقعات رونما ہوئے اور بعد میں اس میں ایجنسیاں ملوث ہوئیں،اور ایسا بھی ممکن ہے کہ پہلے ایجنسیوں نے ہی ایسے واقعات شروع کئے‘‘۔،تاہم انہوں نے صلاح دی کہ محلہ کمیٹیاں اس سلسلے میں متحرک ہو،اوراس بات کو یقینی بنیا جائے کہ کسی معصوم شخص کو زد کوب نہ کیا جائے۔ سابق جسٹس کا کہنا تھا کہ کئی جگہوں پر یہ بات بھی سامنے آئی کہ لوگوں نے مبینہ بال تراشوں کو گرفت میں لیا،اور انکی تحقیقات میں کوتاہی کی،جبکہ انہوں نے ریاستی ایجنسیوں کی طرف سے بال تراشی کے واقعات کو وہم یا ذہنی بیماری قرار دینے کو یکسر مسترد قرار دیا۔شکیل قلند رنے کہا کہ اگر حکومت کو یہ شک ہے کہ خواتین کی بال تراشی نفسیاتی بیماری ہے،تو لوگوں کو بھی یہ شک ہے کہ اس میں سرکاری ایجنسیاں ملوث ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کو شک کرنے کا حق ہے،تو لوگوں کو بھی حق ہے،جبکہ لوگوں کو شک ہی نہیں بلکہ ابتدائی اندازہ بھی یہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کشمیر میں’دوول ڈاکٹرین‘کو عملایا جا رہا ہے اورخواتین کو خوف وہراس میں مبتلا کیا جا رہا ہے۔شکیل قلندر نے سرکار کی طرف سے نفسیاتی بیماری کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا’’ جن خواتین نے اپنے لخت ہائے جگروں کی لاشیں اپنی گود میں اٹھائیں،اگر انہیں اس وقت ذہنی دورے نہیں پڑے تو اچانک کیونکر ایسے واقعات رونما ہونے لگے‘‘۔پروفیسر حمیدہ نعیم نے مشتبہ افراد کو معتبر محلہ کمیٹیوں کے سپرد کرنے کی بات کرتے ہوئے کہا کہ سیول سوسائٹی اس سلسلے میں متحرک ہے۔سابق بیروکریٹ محمد شفیع پنڈت نے کہا کہ سماجی سائنس دانوں کو چاہے کہ وہ اس مسئلے کی تحقیق کریں۔تاہم انہوں نے واضح کیا کہ اس طرح کے واقعات شورش زدہ علاقوں میں خوف و ہراس پھیلانے کیلئے کئے جاتے ہیں۔انہوںنے مشتبہ افراد کو رابطہ کمیٹیوں کے سپرد کرنے کی وکالت کرتے ہوئے کہاکہ کچھ بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے بھی ایسا کیا جاسکتا ہے۔ گمشدہ افراد کے لواحقین کی تنظیم’’اے پی ڈی پی‘‘ کی خاتون سربراہ پروینہ آہنگر نے کہا ’’پہلے والدین لڑکوں کی سلامتی کیلئے فکر مند رہتے تھے،اور اب لڑکیوں کیلئے‘‘۔انہوں نے کہا کہ خواتین کی بال تراشی سے کچھ اس طرح کی دہشت پھیل چکی ہے کہ دروازوں پر دستک ہوتے ہی دل دہل جاتے ہیں۔انہوں نے پولیس کی طرف سے خواتین کی بال تراشی کو نفسیاتی بیماری قرار دینے کو مسترد کیا۔سابق چیف انفارمیشن کمشنر جی آر صوفی نے کہا’’دنیا کی مختلف خفیہ ایجنسیوں کے درمیان تال میل ہوتا ہے اور وہ ایک دوسرے کے تجربوں سے سابق حاصل کرتے ہیں‘‘۔ اس طرح کے واقعات پہلے ہی یوگنڈا اور سری لنکا سمیت دیگر شورش زدہ ملکوں میں بھی رونما ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ فورسز اور دیگر ایجنسیوں کو بال تراشی کے خلاف صف اول پر ہونا چاہے تھا،تاہم ایسا دیکھنے کو نہیں ملا۔انہوں نے کہا’’کشمیر میں صرف پولیس ہی نہیں بلکہ دیگر ایجنسیاں بھی کام کر رہی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ان علاقوں میں زیادہ سے زیادہ واقعات پیش آئے،جو زیادہ شورش زدہ ہیں،جبکہ سرینگر مزاحمتی نظریات کا مرکز ہے۔جی آر صوفی نے کہا کہ کشمیری خواتین کے خلاف نفسیاتی جنگ چھیڑ دی گئی ہے جس کی وجہ سے وہ خود کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں۔مزاحمتی لیڈر زمردہ حبیب نے براہ راست بال تراشی کا الزام حکومتی ایجنسیوں پر ڈال دیا۔انہوں نے خواتین کی بال تراشی کو اجتماعی شرم قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا کہ جب بھی بال تراشوں کو دھر لیا جاتا ہے،پولیس آ پہنچتی ہے۔انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا کہ اگر شک کی بنیاد پر سنگبازوں کو سالہا سال جیلوں میں رکھا جاتا ہے،تو مشتبہ بال تراشوں کو فوری طور پر کیونکر کلین چٹ مل جاتی ہے۔ ریڈیو کشمیر سرینگر کی سابق ڈائریکٹر رخصانہ جبین نے سخت لہجہ استعمال کرتے ہوئے کہا’’ بال تراشوں کے خلاف اجتماعی طور پر شدت پسندانہ رویہ اختیار کر کے انہیں سبق سکھانے کی ضرورت ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ ایجنسیوں کا مقصد کشمیر میں خوف ودہشت مچانا تھا،اور اب لوگ دن بھر کنڈی لگا کر گھر میں بیٹھتے ہیں۔سینٹرل یونیورسٹی کے پروفیسر این اے بابا نے کہا کہ کسی بھی چیز کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔انہوں نے کہا’’آر ایس ایس کے ساتھ یہ چیزیں جڑی ہوئی ہیںجبکہ ان واقعات کی تحقیقات لازمی ہے‘‘۔انجینئر انور عشائی نے خواتین کی بال تراشی میں سرکاری ایجنسیوں کو ملوث قرار دیتے ہوئے کہا’’ 1947سے لیکر کنن پوشہ پورہ تک خواتین کی عصمت ریزی کے واقعات کھبی فوج نے قبول نہیںکئے‘‘۔ گول میز کانفرنس میں پروفیسر صدیق واحد، ظریف احمدظریف،ڈاکٹر ظفر،کرۃالعین،پروفیسر نثار علی اور دیگر لوگ بھی موجود تھے۔
مزید دو واقعات
اننت ناگ میں دھرنا اور شلنگ
ملک عبدالسلام+عازم جان
اننت ناگ+بانڈی پورہ// خواتین کی گیسو تراشی کے مزید الزامات عائد کئے جارہے ہیں۔اننت ناگ، عشم بانڈی پورہ اور سرینگر میں 3واقعات پیش آئے ہیں۔ بٹہ مالو میں فاروق احمد بٹ ولد عبدالمجید بٹ نامی ایک دکاندارنے الزام لگایا ہے کہ اسکی داڑھی صبح ساڑھے 6 بجے اس وقت کاٹ دی گئی جب تین نامعلوم افراد ان کی دکان پر آئے ۔ انہوں نے گردن پر خنجر رکھا اور اس کے بعدمنہ پر کسی شئے کا چھڑکائو کیا اور بعدمیں داڑ ھی کا ایک حصہ کاٹ دیا ۔ادھراننت ناگ کے براکہ پورہ میں 2بچوں کی والدہ کی گیسو تراشی کے خلاف لوگوں نے سخت ہنگامہ کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرے کئے۔ قصبہ کے براکہ پورہ علاقے میں پیر کی صبح9بجکر30منٹ پر ایک خاتون کی چوٹی کاٹی گئی۔اس دوران مقامی لوگوںنے احتجاج کرتے ہوئے اسلام و آزادی کے حق میں جبکہ بال تراشوں کی مخالفت میں نعرہ بازی کی۔ بعد میں جلوس کی صورت میں لوگوں نے کشتواڑ شاہراہ پر احتجاجی دھرنا دیا،اور گاڑیوں کی نقل وحمل بندکی۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کے دوران جھڑپیں ہوئیں۔ مظاہرین نے سنگبازی جبکہ پولیس نے ٹیر گیس کے گولے داغے۔شمالی ضلع بانڈی پورہ کے عشم علاقے میں اتوار کو مبینہ طور پر چوٹی کا ٹنے کا واقعہ پیش آیا۔ اتوار کی شام قریب8بجکر30منٹ پر عشم کے گنائی پورہ،پرے محلہ میں محمد اسکندر نامی شہری کے اہلیہ کی مبینہ طور پر چوٹی کاٹی گئی۔25برس کی خاتون گھر میں موجود تھی،جس کے دوران نقاب پوش افراد نے ان کو نشانہ بناتے ہوئے چوٹی کاٹی۔مقامی لوگوں نے بعد میں اس واقعے کے خلاف احتجاج کیا۔