اس دن صبح جب سے میں نے ٹیلی ویژن پر وہ خبر دیکھی تھی تب سے میرا ذہن با ربار شبینہ کی طرف جا رہا تھا اور بالوں کی وہ لٹ ناگن بن کرمجھے ڈس رہی تھی۔میں اپنے آپ کو تسلی دیناچاہتاتھا اس لئے من ہی من میںکہہ رہا تھاکہ یہ شبینہ کے بال نہیں ہوسکتے ۔ اپنے خیالوں کو منتشر کرنا چاہتا تھا مگر خیالوں کی وہ ڈورنہ جانے کیوں مجھے شبینہ کی طرف کھینچے لے جا رہی تھی،شاہد اس لئے کہ اس کی ساری زندگی میرے سامنے گزری ہے ۔میں اسے جب بھی دیکھتا تھاتو من ہی من میں خوش ہوتا تھا اور بار بار دیکھنے کا متمنی رہتاتھا۔اس کا گول گول گورا چہرا ،وہ تیز چمکدار کالی آنکھیں اور دا ہنی آنکھ میں کالا تل،جو اتنا خوبصورت تھا کہ ہر حسن پرست انسان اس کو دیکھ کر عش عش کرتا ۔
مجھے وہ لمحہ بھی یاد آرہا تھا جب میں نے سکول میں ایک دن اُس سے کہا تھا ’’شبینہ تمہاری آنکھ کا تل کتنا خوبصورت ہے‘‘ ۔
اس نے معصومانہ جواب دیا تھا ’’یہ تل نہیں ہے گدھے ،میری ماں کہتی ہے یہ نظربد سے بچنے کے لئے خدا نے سیاہ داغ رکھا ہے‘‘۔
شبینہ کے بال سنہرے تھے اور بالوں کی لمبی چوٹی اس کی کمر کے نیچے تک جا گرتی تھی، اس لئے محلے کی اکثر عورتیں اس کے بالوں کی مثال دیا کرتیں ۔لڑکیاں اکثر اُس سے ے پوچھا کرتی تھیں ’’شبینہ تم اپنے بالوں میں کیا لگاتی ہو‘‘۔
اور وہ ازروئے مذاق کہا کرتی ’’جہلم کا گدلا پانی‘‘۔
شبینہ اور میں پرائمری تعلیم سے ہی ہم جماعت تھے تاہم کالج سے فارغ ہونے کے بعد اس نے یونی ورسٹی میں شعبہ سیاسیات میں داخلہ لیا تھااور میں نے شعبہ اردومیں۔ ہم نے اپنی ماسٹرز دو سال پہلے مکمل کرلی تھی۔اپنے تعلیمی سفر میں وہ کبھی ناکام نہ ہوئی تھی۔وہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ اپنے والدین کا ہاتھ بھی بٹاتی تھی۔چونکہ شبینہ اپنے والدین کی بڑی اولاد تھی اور اس کا چھوٹا بھائی ابھی زیر تعلیم ہی تھا، اسلئے اسے بیٹی کے ساتھ ساتھ بیٹے کا فرض بھی نبھانا پڑتا تھا۔جب سے ان کے والد کا انتقال ہو گیاتھا تب سے ان کے سر پر اور بھی ذمہ داریاں آن پڑی تھیںاوروہ اپنی ذمہ داریاںخوب نبھارہی تھی، خاص طور سے اپنے بھائی کا خاصا خیال رکھا کرتی تھی۔ اس کی ہر ضرورت کوپوراکرنا اسکا خواب تھا ۔وہ گویا اسی کیلئے جی رہی تھی اور اسے اپنی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتی تھی۔ان دونوں کی محبت قابل رشک تھی لیکن کئی دنو ںسے شبینہ کا کوئی اتاپتا نہ تھا۔اسے لاکھ ڈ ھونڈاگیاتھامگر بے سود۔ وہ کہاں چلی گئی تھی،کس کے ساتھ چلی گئی تھی، کوئی وثوق سے کچھ نہ کہہ سکتا تھا۔لوگ طرح طرح کی باتیں کر رہے تھے:
’’کسی کے ساتھ منہ کالاکرکے بھاگ گئی ہوگی‘‘
’’کسی نے پھسلایا ہوگا‘‘
’’وہ اپنے بھائی کو یونہی ہی چھوڑکرنہیں جاسکتی‘‘
’’کسی نے بیچاری کومار دیاہوگا‘‘
میں مضطرب ہوکر من ہی من میں کہہ رہا تھا ’’ ضروری تو نہیں یہ شبینہ کے ہی بال ہوں،دنیامیں اوربھی لوگ ہیںجن کے لمبے اور سنہرے بال ہیں ‘‘۔
میں اسی سوچ میں گم تھا کہ میرے فکرو ترددنے کب کلام کی شکل اختیارکی تھی کچھ خیال نہ رہا تھا اور میرے ہونٹوں سے ان فقروں کا زور زور سے ورد ہونے لگا تھا:
ــ’’یہ ضروری تو نہیں کہ یہ شبینہ کے ہی بال ہوں ‘‘
’’نہیں ایسا نہیں ہوسکتا،نہیں ہوسکتا ‘‘
میری خود کلامی سن کر میرے دوست اعجاز نے مجھ سے پوچھا تھا ’’کون شبینہ ؟کیسے بال ؟کیا نہیں ہوسکتا؟تم ٹھیک تو ہو‘‘۔
میرے منہ سے جواباً اتنا ہی نکلا تھا ’’وہی جس کے متعلق آج صبح ٹی وی پریہ خبرنشر ہوئی کہ ایک نامعلوم شخص دھماکے کی زد میں آکر ہلاک ہوگیاہے ،جائے وقوع پر گوشت کے چھوڑے چھوٹے ٹکڑے ملے ہیں ا ور پاس ہی لمبے سنہرے بالوں کی ایک لٹ ۔پولیس شواہد اور ثبوت اکھٹا کر رہی ہے کہ ا س بات کا پتا لگایا جائے کہ آیا مرنے والا شخص مرد تھا یا کوئی عورت تھی اوریہ کوئی خودکش حملہ آور تھایا حادثاتی موت‘‘۔
رابطہ؛بومئی زینہ گیر،موبائل نمبر؛9858493074