شبیر احمد بٹ
لائبریری لاطینی زبان کا لفظ ہے جو لائیبر سے بنا ہے ۔اس کا معنی ہے کتاب ۔ یعنی لائبریری اس مقام کو کہتے ہیں جہاں کتابوں ، رسالوں ، اخباروں اور معلوماتی مواد کو جمع کیا جاتا ہے ۔اردو اور فارسی میں اسے کتب خانہ اور عربی میں دارالکتب بھی کہا جاتا ہے ۔یہ ایک ایسا عظیم مقام ہے جہاں ہزاروں سالوں کا فکری و علمی اثاثہ ، لاکھوں کروڑوں ارباب علم و دانش کی ذہنی اور قلمی کاوشوں کاثمرہ اور حاصل جمع ہوتا ہے ۔
کسی بھی ملک کی ترقی کی جائزہ لینا ہو تو وہاں کے موجودہ تعلیمی اداروں کو دیکھا جائے اور تعلیمی اداروں کی ترقی کا جائزہ لینا ہو تو وہاں پر موجود کتب خانوں کو دیکھا جائے ۔جہاں کتب خانے آباد ہوں گے وہاں تعلیمی ادارے بھی اسی قدر تعلیم و تحقیق میں فعال ہوں گے ۔تعلیم اور کتب خانے ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں ۔ تعلیمی اداروں میں نصابی ضرورت محض نصابی کتابوں سے پوری نہیں ہوسکتی، لہٰذا تحقیقی ضروریات کے لئے اضافی کتابوں کا ہونا ضروری ہے اور ان اضافی کتابوں کے لئے کتب خانوں سے بہترین شکل اور کیا ہوسکتی ہے ۔معاشرتی ترقی کا انحصار اس بات پر ہے کہ عوام مروجہ علوم اور زمانے کے تقاضوں سے آگاہ ہوں ۔عوام کی علمی سطح جتنی بلند ہوگی ملک اتنی ہی ترقی کرے گا ۔عملی زندگی کے راستے پر مسلسل گامزن رہنے کا ذریعہ کتب خانے ہیں ۔ان کتب خانوں سے سینکڑوں انسان اپنی فکری پیاس بجھانے کے علاوہ کئی بے روزگار پڑھے لکھے بچے اور بچیاں ان کتب خانوں کی مدد سے اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کر سکتے ہیں ۔کتب خانے ذہنی تفریح کا بھی ایک تعمیری ذریعہ ہوتے ہیں ۔موجودہ دور مہنگائی کا دور ہے،اس لئے نئی کتابیں خریدنا اکثر لوگوں کے لئے مشکل ہوگیا ہے۔ اس اعتبار سے کتب خانوں کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہیں ۔کتابوں کو سنبھالنا ،ان کی حفاظت کرنا اور ان کو کتب خانوں میں محفوظ کرنا بہترین صدقہ جاریہ ہے ۔کتب خانے قوم کی علمی عظمت ، صحت اور فکری بصیرت کے آئینہ دار ہوتے ہیں ۔
کشمیر میں پہلی لائبریری SPS لائبریری 1898 میں مہاراجہ پرتاب سنگھ نے قائم کی ۔اس وقت شہر سرینگر میں جو سرِ فہرست کتب خانے ہیں، ان میں پبلک لائبریری باغ مہتاب کئی اعتبار سے انفرادیت کی حامل ہیں ۔ایک عوامی کتب خانے کے لئے، جس محفوظ اور خوش آئند ماحول کا ہونا ضروری ہے، وہ اس پبلک لائبریری کو نصیب ہے ۔ اس پبلک لائبریری کے سامنے ایک بڑی سی خوبصورت پارک یہاں پر مطالعہ کرنے والوں کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ۔ کئی نوجوانوں سے بات کرتے ہوئے یہ بھی سننے کو ملا کہ اس عوامی اثاثے کے تئیں بھی آپسی اختلاف اور رنجشیں دیکھنے کو مل رہی ہیں ۔اصل میں پبلک لائبریری سے قبل یہ ایک میریج ہاوس تھا اور بعد میں کچھ باشعور اور ذی حس افراد کی مداخلت سے یہاں پبلک لائیربری کا قیام عمل میں لایا گیا ۔میریج ہاوس کی اہمیت اور ضرورت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا ۔سرکار کوچاہیے کہ میریج ہاوس کے لئے متبادل انتظام کرکے اس عوامی کتب خانے کو آپسی اختلاف یا کسی کے ذاتی مفاد کی خاطر بھینٹ چڑھنے سے بچایا جائے ۔اس وقت اس کتب خانے میں چوبیس ہزار کتابیں موجود ہیں ۔دور دراز علاقوں سے غریب اور ضرورت مند نوجوان بچے اور بچیاں بغیر کسی ذات پات، رنگ نسل اور بھید بھاو کے اس کتب خانے سے استفادہ کر رہے ہیں ۔ گلشن نگر کے رہنے والے جنید احمد سول سروس امتحان کی تیاری کر رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لائبریری کو مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے جگہ بھی دستیاب ہیں ۔فرنیچر کی بہت کمی محسوس ہوتی ہے ۔کئی بچے نیچے فرش پر بیٹھ کے مطالعہ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔مزمل احمد جو مسابقتی امتحان کی تیاری کررہا ہے، ڈانگر پورہ شوپیان کا رہنے والا ہے ۔ان کے کہنے کے مطابق لائبریری کے باہر کا ماحول پوری طرح سے ہمیں سپورٹ کر رہا ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کتب خانے کو اور زیادہ جدید تقاضوں سے آراستہ کیا جائے ۔ہما منظور نامی لڑکی جو ایس ایس بی کے امتحان کی تیاری کے لئے اس کتب خانے کا رخ کر رہی ہے ، کا کہنا ہے کہ گھر میں تیاری کرنے کے مقابلے میں یہاں تیاری کرنا کئی گنا فائدہ مند ہے ۔فری آن لائن سہولیات کو مزید بڑھانا چاہیے تاکہ ہم جیسے غریب بچوں کو انٹر نیٹ جیسی چیزوں کے لئے پریشان نہ ہونا پڑے ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ شادی بیاہ کی تقاریب میں لاکھوں کروڑوں فضول خرچی کرنے سے بہتر ہےکہ غریب بچوں کے لئے کتابوں کا بندوبست کیا جائے ۔تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں مسلمان نہ صرف انفرادی بلکہ مجموعی طور پر بھی ہر لحاظ سے عظیم کتب خانوں کے مالک رہے ہیں ۔کتب خانے قوم کی علمی عظمت ،صحت اور فکری بصیرت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔بقول علامہ
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی جو
دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
آج دنیائے جدید کی دس بڑی لائبرریوں کی فہرست دیکھیں تو امریکہ ، لندن،نیویارک، جاپان، ریشیا،چین، فرانس ،جیسے ملکوں کا نام آتا ہے جب کہ عیسائیوں نے طرابلس پر قبضہ کرکے وہاں کے کتب خانوں کو جلا دیا ۔اسی طرح ہلاکوخان نے بغداد کو تاراج کرکے چھ لاکھ سے زیادہ کتابوں کو دریائے دجلہ میں پھینکوا دیا، اسی طرح تاتاریوں نے ترکستان ،فارس،عراق اور شام میں تمام علمی یادگاریں مٹا دیں ۔ہم سبھی کی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے کتب خانوں کو جدیدٹیکنالوجی سے مزین کرنے کی وکالت کر کے علم و فکر اور تہذیب و آگہی کے ان شاندار و جاندار مراکز کے محافظ بن جائیں ۔بقول شاعر
روشن ہے یہ جہاںکتابوں کے نور سے
پتہ۔عثمانیہ کالونی باغ مہتاب سرینگر
رابطہ۔ 7889894120