سرینگر// پاکستانی زیر انتظام کشمیر یا پھر پاکستان کی رہنے والی قریب ایک سو سے زائد خواتین، جو پچھلے6برسو ں کے دوران سابق جنگجوئوں کے ساتھ شادی کر کے وادی آئی ہیں ،نہ صرف ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہیں بلکہ سرحد پار اپنے والدین اور دیگر عزیز و اقارب کی یاد میں دن رات آنسو بہانے پر مجبور ہیں۔ایسی خواتین کہتی ہیں کہ وہ ابھی بھی قانونی طور پر پاکستانی خواتین ہیںکیونکہ یہاں رہنے کے کئی برس بعد بھی انہیں یہاں کی شہریت نہیں دی گئی ہے ۔اتنا ہی نہیں بلکہ انہیں ہر چوکھٹ پر صرف مایوسی ہی ہاتھ لگی ہے۔ان خواتین کے بارے میں جائزہ لیا جائے توانکا نہ صرف سوکھ چین کھو گیا ہے بلکہ اپنوںکی دید کیلئے اُنہیں سرکار نہ ہی ویز ا فراہم کرتی ہے اور نہ ہی روٹ پرمٹ ۔ایسی خواتین کا کہنا ہے کہ ان سے یہ وعدہ کیا گیاتھا کہ اُن کی باز آبادی کے ساتھ ساتھ انہیں روٹ پرمٹ بھی فراہم کیا جائے گا لیکن یہاں آکر سب کچھ الٹ کیا گیا ہے۔اس صورتحال میںکئی خواتین نے نہ صرف خود سوزی کرنے کی کوشش کی بلکہ کئی ایک نے دوبارہ اُس پار غیر قانونی طوربھاگنے کی بھی کوشش کی ہے۔کشمیرآئی ہوئی یہ خواتین اب یہاں نہ صرف اپنے کنبے کے ہمراہ دانے دانے کی محتاج بن گئی ہیں بلکہ اپنوں سے بچھڑ جانے کا غم بھی انہیں ستاندر ہی اندر کھائے جارہا ہے۔مالی بدحالی سے دوچار اور غمو ں سے نڈھال یہ خواتین اب ذہنی طور مریض بھی بن رہی ہیں۔پاکستان کے ہٹیاں بالا کی ایک خاتون، جو کپوارہ میں ایک شہری کے ساتھ شادی کر کے آئی ہے، اپنی قسمت کو کوستی رہتی ہے۔ وہ کہتی ہے’’ یہاں آکر اگرچہ شروعات اچھی رہی تاہم بعد میں جب یہا ں سرکار نے ان سے آنکھیں چرائیں اور اپنوں نے دھتکارہ، تو اُنکے پاس صرف آنسو بہانے کے سواکچھ اور چارہ نہیں رہ گیاہے‘‘۔ وہ کہتی ہے ’’ اگر یہاں اُن کی مالی حالت اچھی ہوتی تو شائد وہ اپنوں کے بغیر زندہ رہ سکتی تھیں ،لیکن مالی حالت سے دوچار وہ جائیں تو کہاں جائیں۔‘‘ شہنازہ نامی ایسی ہی ایک خاتون کا کہنا ہے کہ وہاں سے جب ہمیں یہاں لایا گیا تب ہم سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ سال میں دو بار آر پار اپنے والدین سے ملنے کی اجازت دی جائے گی لیکن یہاں آکر تمام خواتین نے نہ صرف سرکار کے دروازے کھٹکھٹائے بلکہ ہر ایسے افسر کے پاس اپنی فریاد رکھی ،لیکن وہاں سے مایوسی کے سوا ہمیں کچھ نہیں ملا ۔انہوں نے کہا کہ دو برس قبل حاجی سونہ واڑی میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی رہنے والی شاہدہ نامی ایک خاتون نے اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیا ۔پاکستانی زیر انتظام کشمیر سے پچھلے کئی برسوں کے دوران وادی آنے والی ایسی خواتین صرف سرکار سے یہ مطالبہ کرتی آئی ہیں کہ اُن کو روٹ پرمٹ فراہم کئے جائیں، تاکہ وہ اپنوں سے مل سکیں اور اس عرصہ کے دورا ن فوت ہو چکے افراد خانہ کی قبروں پرجاسکیں۔کیونکہ کئی ایک خواتین کے ماں باپ اور دیگر قریبی رشتہ دار حالیہ برسوں میں فوت ہوچکے ہیں ۔کپوارہ کے محمد الطاف کے ساتھ شادی کر کے اپنے بچوں کے ہمراہ وادی آئی کوثر بانو نامی خاتون کہتی ہے کہ اُس کی نانی گذشتہ ماہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں لقمہ اجل بن گئی۔ یہ خبر جب اسے ملی تو وہ گریہ زاری کرنے لگی لیکن یہاں اُس کی آواز سننے والا کوئی نہیں تھا ۔کوثرہ نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ یہاں جھگڑے اور فساد کے علاوہ اُسے کچھ نہیں ملا۔’’ میں جب اپنے خاوند کے ساتھ کشمیر آئی، تو مجھے اُمید تھی کہ یہاں میری اور میرے کنبے کی حالت سدھر جائیگی لیکن مجھے کیا پتہ تھا کہ یہاںذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہو جائوں گی ۔کرناہ آنے والی خواتین میں نصرت بیگم اور شاہمالی بیگم بھی شامل ہیں۔انہوں نے تنگ آکر غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے کی بھی کوشش کی لیکن سرحد تک پہنچتے ہی انہیں فوج نے گرفتار کر لیا۔ یہ خواتین کہتی ہیں کہ 6برسوں میں اُن کے رشتہ داروں کے یہاں بھی کافی لوگ فوت ہو چکے ہیں، لیکن انہیںسرحد پار اپنے رشتہ داروں سے ملنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔بمنہ میں اپنے خاوند اور بیٹے کے ساتھ رہ رہی ایک پاکستانی خاتون کی کہانی بھی ایسی ہی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ یہاں اُن کے ساتھ دھوکہ ہوا ۔اپنے رشتہ داروں کو یاد کرتے ہوئے یہ خاتون کہتی ہے کہ جب گھر والوں کی یاد آتی ہے تو من کرتا ہے اُن سے فون پر رابطہ کروں لیکن فون کرنے کی سہولیات بھی میسر نہیں ہیں۔ گھر والے مہینے میں کبھی کبھارفون کر کے حال وغیر پوچھتے ہیں۔خاتون نے کہا کہ پہلے دنوں میں ہر دوسرے تیسرے دن گھر والے رابطہ کرتے تھے لیکن اب آہستہ آہستہ وہ بھی ہمیں بھول گئے ہیں۔اسی طرح سینکڑوں ایسی خواتین بھی اپنوں کی جدائی میں آنسو بہارہی ہیں اور سرکار سے مطالبہ کرتی ہیں کہ انہیں اپنوں سے ملنے کا موقعہ فراہم کیا جائے ۔