سرینگر //حکومت کی بازآبادکاری پالیسی کے تحت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے نیپال کے راستے گھر لوٹ آیا حاجن سونہ واری بٹی پورہ کا کنبہ کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔مالی بدحالی کے سبب جہاں اس کنبے کے بچوں نے اپنی پاکستانی ماں کو کھو دیا وہیں والداپنے نونہالوں کے مستقبل کو بچانے کیلئے در در کی ٹھوکریں کھا رہا ہے ۔سال 2012کو بٹی پورہ سونہ واری کا عبدالمجید لون نیپال کے راستے اپنے کنبے کے ہمراہ وادی اس لئے لوٹا تھا کہ شائد اُس کو یہاں سکون اور چین ملے اور مالی حالت بھی ٹھیک ہو جائے لیکن اُسے کیا پتہ تھا کہ اس کا کنبہ سماجی اور اقتصادی طور پر بے سہارا ہوکر تاش کے پتوں کی طرح بکھر کر رہ جائے گا۔ عبدالمجید لون نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ یہاں وہ کسمپرسی کی حالت میں ہیں، کبھی مزدوری ملتی ہے تو کبھی نہیں، ایسے میں گھر کا چولہا بھی کبھی کبھار ہی جلتا ہے ۔عبدالمجید نے آنکھوں میں آنسو لئے کہا کہ واپسی پرانہوںنے امداد اور اپنی پاکستانی اہلیہ کے ویزے کیلئے ہر ایک دفتر کے چکر کاٹے لیکن کسی نے کوئی مدد نہیں کی ۔ان کاکہناہے کہ اُن سے کہا گیا تھا کہ یہاں نہ صرف اُن کیلئے الگ رہائشی کوارٹر تعمیر کئے جائیں گے بلکہ اُن کی خواتین کو اپنے رشتہ داروں کے گھر جانے کیلئے روٹ پرمٹ بھی فراہم کیا جائے گا،تاہم یہاں آنے کے بعد جب سرکار نے اُن سے منہ پھر لیاتو دیگر کنبوں کے ساتھ ہی اُن کے گھر کی حالت بھی پتلی ہونے لگی۔عبدالمجید نے آہ بھرے لہجے میں کہا کہ ایسے حالات دیکھ کر ان کی اہلیہ شاہدہ انتہائی پریشانی میں مبتلا ہو گئی اوربچوں کی تعلیم پر بھی برا اثر پڑنے لگا ،یہ حالت دیکھ کر شاہدہ کے برداشت کا مادہ ختم ہوگیا اور اُس نے 12اپریل 2014کو اپنے آپ پر تیل چھڑک کر زندگی کا خاتمہ کر دیاجس کے بعد جیسے ہر طرف اندھیرا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ غریبی سے تنگ آکر ان کی بیوی نے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔عبدالمجید کاکہناتھا’’ میری اہلیہ سرحد کے اُس پار اپنے ماں باپ سے ملنا چاہتی تھی اسلئے اُس نے جہاں کہیں بھی مدد مانگی وہاں سے ناکامیوں کے سواکچھ حاصل نہیں ہوا ، دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ماں کی جدائی میں دن رات آنسو بہارہے ہیں ،باغ مظفرآباد میں رہنے والی میری اہلیہ کوبازآبادکاری پالیسی کے نام پر دھوکہ ملااوریہی صدمہ اسے دنیا سے لے گیا‘‘ ۔عبدالمجید کے مطابق اہلیہ کے لقمہ اجل ہوجانے کے 10دن بعد اُس کا الیکشن کارڈ گھر پہنچا لیکن اُس سے قبل اُس کی کوئی مدد نہیں کی گئی ۔ عبدالمجید کی آنکھیں اُس وقت آنسو سے دوبارہ بھر گئیں جب اُس نے کہا کہ جس رات اہلیہ نے خودکشی کی ،اُسی رات اُس نے گھر کے پورے کنبہ کیلئے ناشتہ تیارکر کے رکھا تھا ،بچوں کے سکول جانے کیلئے پانی گرم کر کے رکھا اور پھر مجھے کہا کہ سو جائو پانی گرم ہو رہا ہے صبح بچوں کو نہلا کر سکول روانہ کرنا ہے ،ہم جب سو گئے تو اُس نے خودسوزی کر لی ۔عبدالمجید نے کہا کہ وہ اس دن کو کبھی بھلا نہیں سکتے کیونکہ اُس کی موت کے ساتھ ہی اُس کا پوراکنبہ بکھر گیا۔انہوںنے مزید بتایاکہ اب بیٹے الگ الگ رشتہ داروں کے یہاں رہنے لگے کیونکہ ان کے پاس نہ سر چھپانے کیلئے چھت تھی اور نہ ہی کھلانے کیلئے کھانا ۔عبدالمجید نے کہا کہ انہوں نے محنت مزدوری کر کے اپنی رہائش کیلئے ایک شیڈ بنا لیا ہے،لیکن شیڈ میں بستر تک نہیں جہاں وہ بچوں کو سلا سکیں، اس لئے اپنے بیٹے محسن کو سوپور کے ایک سکول میں چھوڑ دیا ہے جبکہ دو بیٹیاں رشتہ داروں کے یہاں رہ رہی ہیں اور اس طرح بچوں کا ٹھکانہ بھی نہیں رہا ۔عبدالمجید نے مزید بتایا کہ سال 2014کے تباہ کن سیلاب میں اُس کا شیڈ، جس میں وہ رہ رہا تھا ،کو بھی نقصان پہنچا لیکن سرکار کی جانب سے اُسے صرف 3ہزار روپے کا معاوضہ دیا گیا ۔