بازیچہ ٔ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے
ہم تو اہل کشمیر ہیں اور دنیا ہمارے لئے ٹنل سے سادھنا ٹاپ تک سمٹ گئی ہے ۔یہ اور بات کہ کہنے کو تو دھرتی کے جنت میں رہتے ہیں۔جنت میں رہتے ہیں شاید اسیلئے ہمیں زندہ تصور نہیں کیا جاتا کہ چلو جنت کے لالچ میں مار ہی دو۔ لیکن زرا غور سے دیکھو تو پتہ چلے گا کہ ہم تو بازیچہء اطفال کے باسی ہیں ۔ہم کیا ہماری وقعت کیا ،ہماری حیثیت کو تو باسی سمجھا جاتا ہے ۔اور چونکہ بازیچہء اطفال میں قیام پذیر ہیں اسلئے ہمیں کھلونوں سے بہلایا گیا ہے۔جھوٹے وعدوں سے ٹرخایا گیا ہے۔ہلکی تھپکیوں سے نہیں بلکہ تیز تھپڑوں سے سہلایا گیا ہے۔خون ناحق میں نہلایا گیا ہے۔کھلی سانسوں کے لئے ترسایا گیا ہے۔ہمیں تو یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ آپ تو عوام ہیں اور سرداری آپ کا حق ہے۔اور ہم ہیں کہ کہنے والوں کے دام فریب میں آتے گئے اور سب کچھ سچ مان کر چلے۔ ہمیں بتایا گیا کہ اپنا مستقبل خود چنو گے سو ہم نے مان لیاکہ یہ ملک ہمارا ہے اس کا فیصلہ ہم کریں گے۔ ہم تو نعرہ مستانہ لگانے سے گریز نہیں کرگئے کہ جموں و کشمیر لداخ محاذ رائے شماری زندہ باد ۔ہم نے تو ہل والا جھنڈا لہرایا اور اونچی آواز میں چیخ پڑے کہ یی ببس خوش کرِ ہم نے جواباً کہہ دیا تی کرِ لو لو۔ڈبل فاروق کا راگ الاپا ہم نے بھی وہی ڈفلی بجائی ۔آزادی آزادی کا شور سنایا گیا ہم بھی اسی شور میں ڈوب گئے جب تک ککہ پرے، ممہ کنہ، پاپا کشتواری وغیرہ کی قبیل نے اپنے طور آزادی کا مزہ چکھایا۔پھر بھی ہمیں بتایا گیا کہ سرداری عوام کا حق ہے اور ہم نادان کہ اسی سنگیت پر ناچتے رہے اور ارباب اقتدار ناچ میری بلبل کہ پیسہ ملے گا والا گِٹار بجاتے رہے ۔اسمبلی الیکشن سے پیسہ، پالیمانی الیکشن سے پیسہ، پنچایت الیکشن سے پیسہ ،لوکل باڈیز الیکشن سے پیسہ، حد تو یہ کہ پارٹی الیکشن سے پیسہ بھلے وہ کنول کا الیکشن ہو یا ناگپوری انتخاب کا گیت گاتے رہے اور ہم ناچتے رہے۔ارباب اقتدار تومولی کے پراٹھے کھا کر حمام گرمانے کے عادی ہیں ۔اسی لئے وہ ہمیں بار بار یاد دلاتے ہیں کہ ہم ماریں گے، پیٹیں گے، توڑ پھوڑ کروائیں گے،آنکھوں پر وار کرائیں گے اور پھر تحقیقات کرانے کا بگل تب تک بجاتے رہیں گے جب تک آپ کا غصہ ٹھنڈا نہ ہو ۔یعنی مارو کاٹو پھر مرنے والوں پر واویلا بھی کرو ۔ان کی موت پر ماتم بھی کرو ،انسانی حقوق برقرار رکھنے اور پاسداری کرنے والا مذاق بھی سوجھتا ۔یہ بھی کہو کہ ٹافی دودھ لینے گئے تھے کیا بلکہ یہ بھی کہ ان کا خون رائیگان نہیں جائے گا۔
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
غالب
یہ خون تو اپنی کرسی بچانے کے کام آئے گا کیونکہ کنول والے اپنا پھول ہماری دوات میں اگا رہے ہیں۔وہ جو مملکت خداداد سے آ کر بس گئے تھے ان کے لئے ہماری گردن پکڑ کر رہایشی سند لے گئے۔اور جب ہم نے زرا سی ہمت کرکے ۳۷۰ کی حمایت میں کچھ کہہ دیا تو بیچ اسمبلی ہماری طاقت کو للکارا گیا کہ طاقت کا اصل سر چشمہ کون اور کہاں ہے۔ ادھر اپنے بازیچۂ اطفال میں ارباب اختیار کا سرشتہ موجود ہے اس میں لوگ خاص وردی پہن کر نکلتے ہیں تو سارا اختیار اپنے ہاتھوں سمیٹ لیتے ہیں۔ایسے میں ارباب اختیار ارباب اقتدار کو بھی خاطر میں نہیںلیتے بلکہ بم ،بارود، گولی کا من پسند استعمال کرتے ہیں مجال ہے کہ کوئی انگلی اٹھائے بلکہ خود ارباب اقتدار بھی ان کی غلطیوں کو پس پردہ ڈال کر فوراً تحقیقات کا لبادہ اوڑ لیتے ہیں تاکہ ظلم تو آخر ظلم ہے جب بڑھتا ہے تو مٹتا ہے والی نوبت نہ پہنچے کیونکہ ایسا ہوا تو خود ارباب اقتدار پر بھی سوال اٹھائے جائیں گے ؎
قاتل اگر ہے وہ تو کوئی بات بھی تو ہے
یوں خون میں لباس کوئی سانتا نہیں
شمس تبریزی پنچکولہ
خود ارباب اقتدار نے اپنے لوگوں کے لئے روزگار میلہ منعقد کیا۔پرہ بھلے کبھی نہ کھیلا ہو لیکن اسے کھیل کا ملازم بنایا گیا۔میر تو ہوٹل والا ہے اسے سیاحت میں نوکر رکھا گیا جس میں کوئی قباحت نہیں اور وہ جو سیب کی قسم ہا کا نظام نہیں جانتا اسے محکمہ باغبانی میں رزق فراہم کر نے کا اہتمام کیا گیا۔اتنا ہی نہیں پارٹی جو پہلے پاپا ڈاٹر پارٹی تھی اسے ماما بھانجے کی جاگیر بنا دیا ؎
گھر کے کچھ کام ہیں سو دلی کی تیاری ہے
کار دفتر کی ہے اور ٹور بھی سرکاری ہے
شمس تبریزی پنچکولہ
چلو اللہ اللہ خیر صلا قلم دوات اور کنول کا آپسی میل جول جیسے راس آئے ویسے ہی چلے گا بازیچہ ٔ اطفال میں پوچھنے والا کون ہے البتہ اپنے ہل والے کبھی کبھار گہری نیند سے جاگتے ہیں اور ایک آدھ بیان داغ دیتے ہیں۔وہ بچارے بھی کیا کریں ؟؟؟انہوں نے بھی ماضی میں یہی بویا وہی کاٹ رہے ہیں۔کس منہ سے تحقیقات پر زور دیں وہ پرانی باتیں کاٹنے کو دوڑتی ہیں۔کس انداز میں ۳۷۰ کے نام لیواء بنیں کہ اس کی بیخ کنی میں کوئی کسر تو باقی رکھی نہیں ۔خون ناحق بہانے پر تو انہوں نے بھی اپنا حق کب کا جتایا ۔مقبول، افضل اور ۲۰۱۰ کا گرم گرم لہو تو ان کے ہاتھوں پر بھی خوشبو پھیلائے ہے۔اور نجانے کس نے وہ شعر لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی کہا کہ ہل والے اپنے گریبان میں جھانکنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور جب جھانکتے ہیں تو قلم دوات، ہل، ہاتھ سب ایک جیسی بو محسوس کرتے ہیں۔رہا اپنا ایک عددانجینیر وہ تو ہر دن ،ہر لمحے ، ہر جگہ یعنی شہر کیا گائوں کیا، کھیت کیا کھلیان کیا، پہاڑ کیا ڈھلوان کیا، پٹتا ہے، جانتے بوجھتے اپنے پھرن تار تار کرواتا ہے۔گلا پھاڑ تا رہتاہے غریبوں کی سنو تم ایک فوٹو لو گے وہ۔۔۔۔۔پھر بھی جانے کیوں سیاسی لوگ اسے بھی بازیچہ ٔ اطفال کا باسی پکارتے ہیں ۔
میں کیا کہوں کہ کیسا ہے اب حال ان دنوں
جوتی میں میاں بٹ رہی ہے دال ان دنوں
شمس تبریزی، ہریانہ
اپنے حریت والے بھی بازیچہ ٔ اطفال کے باسی ہیں کہ انہیں آئے دن اس طرح چار دیواری کے پیچھے رکھتے ہیں کہ وہ کہیں بھی ادھر چلو ادھر چلو میں شرکت نہ کر پائیں۔کہیں تقریر نہ کر پائیں ۔البتہ وہ بھی اخباری بیان سے کام چلانے میں ماہر ہیں۔چلو مان لیا کہ انہیں بھی یہ نہیں پتا کہ یہ ملک ہماراہے اس کا فیصلہ کس کے ہاتھ میں ہے اور کون کرے گا لیکن وہ بھی ملکوں ملکوں گنتیوں میںاپنا شمار کرواتے ہیں۔اسلامی ممالک کی تنظیم سے بھی دعوت نامہ وصول ہوتا ہے،مملکت خداداد سے بھی قوم کے غم میں ڈنر پر بلایا جاتا ہے،ممبران پارلیمنٹ بھی دروازے پر دستک دیتے ہیں۔۔۔اور ہم ہیں کہ بازیچۂ اطفال میں دوکان کے تھڑے پر، نانوائی کے تندور کے آس پاس، ہریسے کی خوشبو سونگھتے ہوئے، اخبار پر سرسری نظر ڈالتے ہوئے یہ فیصلہ کرنے لگتے ہیں کہ ہندوستان پاکستان کے ساتھ حتمی الحاق کی بات کریں یا خودمختار کشمیر کے فیصلے پر دستخط کرڈالیں ؎
درد سے میرے ہے تجھ کو بیقراری ہائے ہائے !
کیا ہوئی ظالم !تیری غفلت شعاری ہائے ہائے !
غالبؔ
نوٹ: کالم نگار ’’نیم بیوہ ‘‘ انگریزی ناول کے مصنف ، تجزیہ کار اور مزاح نگار ہیں۔
رابط([email protected]/9419009169