معراج زرگر
” شفیقہ ماسی۔۔۔۔۔۔!!
گھر میں ہو کیا۔۔۔۔؟؟
شفیقہ ماسی۔۔۔۔۔۔!! ۔۔۔۔۔آواز کیوں نہیں دے رہی۔۔۔۔گھر میں ہونا۔۔۔۔؟؟”
نوید دو کمروں والے ایک جھونپڑی جیسے گھر کے دروازے کے پاس اپنی پڑوسن شفیقہ کو آواز دے رہا تھا, جس کے جسم کا نچلا دھڑ تقریباََ بے کار تھا اور تقریباََ خود کو گھسیٹ گھسیٹ کر گھر کا کام کرتی تھی۔ شفیقہ کے گھر میں اس کے مریل اور کمزور خاوند عبدالحمید کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ جو کبھی کبھار چھوٹی موٹی مزدوری کرلیتا تھا۔ پڑھا لکھا تھا مگر اکثر بیماری کی وجہ سے زیادہ تر گھر میں ہی پڑا رہتا تھا۔ گھر نہ ہو کوئی قبرستان ہو جیسے, جس کی ادھ کھلی دو قبروں میں آس پاس دو ادھ مرے انسان بس ان قبروں کے بند ہوجانے کے انتظار میں تھے۔
نوید نے نزدیک جاکر دروازے کو پہلے کھٹکھٹایا اور پھر ہلکے سے کھول کر اندر آواز دی۔۔۔
“شفیقہ ماسی۔۔۔۔۔۔گھر میں ہو کیا۔۔۔۔۔؟ جواب کیوں نہیں دے رہی۔۔۔۔؟”
” بیٹا کون ہو۔۔۔۔۔۔۔؟؟
ذرا اندر آؤ۔۔۔۔۔!!
” جی ماسی۔۔۔۔۔میں نوید ہوں۔۔۔۔۔آپ کہاں ہو ماسی۔۔۔۔۔؟؟”
“میرے لعل۔۔۔۔ادھر آؤ۔۔۔۔۔۔میں یہاں ہوں۔۔۔۔۔کھانا بنا رہی تھی۔”
نوید کمرے سے گذر کر عقبی جانب ایک قدرے چھوٹی کوٹھری کے اندر چلا گیا جہاں ہیٹر پر شفیقہ ماسی نے کچھ رکھا ہوا تھا اور خود اپنی نیم معذور ٹانگیں ایک طرف پھیلا رکھی تھیں۔ شفیقہ نوید کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور نوید نے جھک کر اپنا چہرہ شفیقہ ماسی کی طرف بڑھایا, جس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے نوید کا چہرہ پکڑا اور دونوں طرف چوما۔ نوید نے پاس بیٹھ کر شفیقہ کے پاؤں دبائے اور شفیقہ ماسی منع کرتی رہی مگر نوید بھی نہیں مانا۔
“اچھا بیٹا کیسے آنا ہوا۔۔۔۔۔؟ سچ پوچھو تو مجھے بہت یاد آرہی تھی تمہاری۔ اب ہمارے اس غریب خانے میں تمہارے سواء آتا ہی کون ہے۔ اور ہمارے جینے مرنے کی بھی تمہارے سواء کس کو فکر ہے۔” شفیقہ ماسی نے بڑی احسان مندی سے نوید سے سوال کیا۔
” کیا بات کرتی ہو ماسی۔۔۔۔۔آپ میری ماں ہی کی طرح ہیںاور آپ کی خدمت کرنامیرا فرض ہے اور پھر تمہارا یہ حال تو ہماری ہی وجہ سے ہے۔ میں بھلا کیسے وہ سب بھلا سکتا ہوں۔ جنید بھائی اتنی دور ہے مگر اسے اب بھی آپ کا احسان یاد ہے, اور وہ ہر وقت مجھے آپ کی خبر گیری اور خدمت کا کہتا رہتا ہے۔ وہ کوئی دن نہیں جب فون پہ آپ کا نہیں پوچھتا۔” نوید نے سر جھکا کر جواب دیا۔
” اللہ پاک تم دونوں کو سلامت رکھے۔ اچھا کیسے آنا ہوا۔۔۔۔؟”
“ماسی۔۔۔۔۔وہ کل ٹاؤن ہال میں ایک سرکاری پروگرام ہے۔ وہاں آپ جیسے لوگوں کے لئے سرکار مشینیں اور خاص قسم کی کرسیاں وغیرہ بانٹ رہے ہیں۔ میں نے آپ کا نام بھی لکھوایا ہے۔ کل میں آٹو لیکر آؤں گا اور لے جاؤں گا۔ ٹھیک ہے نا ماسی۔۔۔۔۔۔۔؟” نوید نے اچھے سے اپنے آنے کا مقصد بتایا۔
” بیٹا۔۔۔۔۔بیس سال ہوگئے اب یونہی مر مر کے زندگی گذارے ہوئے۔۔۔۔۔اب کیا مشینیں اور کرسیاں۔ ۔۔۔۔۔۔۔رہنے دو میرے جگر کےٹکڑے۔۔۔۔۔۔!!” شفیقہ ماسی نے مایوسی کے ساتھ کہا۔
“ایسا نہیں کہتے ماسی۔۔۔۔۔ہمیں کون سا پہاڑ چڑھنا ہے۔۔۔بس دس منٹ میں پہنچ جائیں گے اور واپس آئیں گے۔ میں نکلتا ہوں۔ تھوڑا کام ہے۔ کل لینے آجاؤں گا۔” نوید کھڑا ہوا اور نکل گیا۔
شفیقہ اسے نکلتے دیکھتی رہی اور اسے وہ منحوس دن یاد آیا۔ بیس سال پہلے وہ اپنے چھوٹے سے مکان کے صحن میں خوش خوش محلے میں اپنی سہیلی اور پڑوسن کے بڑے بیٹے جنید کے ساتھ کھیل رہی تھی جو لگ بھگ پانچ سال کا تھا۔ چونکہ شفیقہ کا اپنا کوئی بچہ نہیں تھا تو اپنا دل بہلانے کے لئے جنید کو لیکر آتی تھی اور دن بھر اسے اپنے پاس رکھتی تھی۔ شفیقہ ایک تعلیم یافتہ عورت تھی اور اچھی خاصی ذہین اور خوبصورت بھی تھی۔
ایک دن اچانک ان کے بغل والے مکان سے فائرنگ کی آواز آئی۔ شفیقہ کا دل دہل گیا۔ اس نے جنید کو اپنے سینے سے لگایا اور وہ بھی سہما سہما شفیقہ ماسی کے سینے سے چمٹ گیا۔ شفیقہ آہستہ آہستہ کمرے میں آئی اور خیر خیریت کی دعائیں کرنے لگی۔ اسی اثناء میں باہر والے دروازے پر دھاوا بول کر ایک بڑی کمک اندر داخل ہوئی اور سارے گھر میں تہس نہس شروع ہوئی۔ شفیقہ خوف کے مارے باہر آنگن میں نکل آئی۔ اتنے میں شفیقہ کو کسی نے پیچھے سے پکڑ لیا اور اس کے سینے سے چمٹے ہوئے جنید کو اس سے چھیننے کو کوشش کی۔ وہ ہتھیار بند زور لگاتا رہا مگر شفیقہ نے سارے جہاں کے زور مجتمع کرکے جنید کو ملکوتی مضبوطی سے اپنے سینے سے چمٹاکر رکھا۔ اس چھینا جھپٹی میں شفیقہ اور وہ ہتھیار بند باہری دروازے تک آئے۔
دروازے کے باہر کا کوچہ ڈھلوانی تھا۔ ہتھیار بند نے جب دیکھا کہ اس عورت کے اندر کا محافظ بچے کو کسی بھی صورت اپنے سے الگ نہیں ہونے دیتا تو اس نے ایک بھرپور لات شفیقہ کی کمر کے نچلے حصے پر ماری اور شفیقہ ایک چیخ کے ساتھ ڈھلوانی کوچے سے لڑھکتی ہوئی پانچ دس مکان آگے ایک دیوار کے ساتھ ٹکراکر رک گئی۔ اس نے اس دوران مگر جنید کو خود سے چمٹائے رکھا اور پوری احتیاط کی کہ جنید کو کوئی گہری چوٹ نہ آنے پائے۔ حالانکہ اس سارے واقعے کے دوران جنید بہت زیادہ سہم گیا تھا اور اس کو ہلکی چوٹیں بھی آئی تھیں۔ شفیقہ کو مگر محسوس ہوا کہ اس کی کمر کے نچلے دھڑ میں ایک سنسناہٹ سی ہورہی ہے اور کچھ غنودگی بھی طاری ہورہی ہے۔ اس نے اپنے مکان کی طرف دیکھا۔ وہ یہ اندازہ ہی لگا رہی تھی کہ جانے کیا ماجرا ہے اور اس نے اسی دوران اپنے مکان کی چھت ایک زوردار دھماکے کے ساتھ ہوا میں اڑتی ہوئی دیکھی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور وہ بے ہوش ہوگئی۔
جنید کی ماں رخسانہ نے بھی شفیقہ کے مکان اور اس کے بغل میں ایک دو مکانوں کی چھتیں اڑتی ہوئی دیکھیں۔ وہ ایک پاگل کی طرح باہر نکلی اور بین کرتی ہوئی کوچے میں شفیقہ اور اپنے بچے کو ڈھونڈھنے لگی۔ شفیقہ کے آنگن سے مایوس اور خوفزدہ لوٹ کر کوچے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ادھر ادھر ڈھونڈھ رہی تھی کہ نیچے کوچے کے موڑ پر شفیقہ کو بے ہوش دیکھا اور اس کے بازؤں میں جنید کو سہما ہوا دیکھا۔ دوڑ کر جنید کو اپنی گود میں اٹھایا اور شفیقہ کو جنجھوڑا۔ اتنے میں پڑوس کے لوگ بھی جمع ہوئے اور شفیقہ کو ہوش میں لایا۔ ہوش تو آیا مگر شفیقہ کا نچلا دھڑ بے کار ہوچکا تھا اور وہ اپنی ٹانگوں پہ کھڑی نہیں ہوپارہی تھی۔ چند لوگوں نے ہمت کرکے اسے ہاتھوں پر اٹھایا اور ہسپتال لے گئے۔ دو سال تک شفیقہ کا علاج چلتا رہااور مشکل سے دونوں ٹانگوں میں تھوڑی بہت حرکت واپس آئی۔ پڑوسیوں اور ایک خیراتی ادارے نے دو کمرے بنوائے اور ہر مہینے راشن گھر پہنچاتے رہے۔ اسی کشمکش اور جہنم جیسی زندگی کو گذارے بیس سال ہوئے۔
شفیقہ نے فلک چیرنے والی ایک آہ کے ساتھ اپنی آستینوں سے اپنی دونوں آنکھوں سے آنسو صاف کئے اور ماضی کے کالے سمندر کی بے رحم زہریلی موجوں سے خود کو چھڑایا۔ گھسیٹ گھسیٹ کر باورچی خانے کی کوٹھری سے کمرے میں آئی اور ایک پھٹے پرانے تکیے پہ اپنے وجود کا بوجھ رکھا۔ ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسےاس بوجھ کو اٹھانے سے تکیہ بھی اب عاجز آ چکا تھا۔
صبح ہوئی اور نوید نے دس بجے کے آس پاس ایک آٹولاکر شفیقہ ماسی کو ٹاؤن ہال پہنچایا۔ اپنے کندھے کے سہارے شامیانے میں سجی کرسیوں میں سے ایک خالی کرسی پر شفیقہ ماسی کو بٹھایا، جسکا چہرہ اس دوران تقریبا زرد پڑ چکا تھا۔ شفیقہ نے اپنا چہرہ اٹھاکر نوید کی طرف مایوسی اور بے رغبتی سے دیکھا۔ اتنے میں کچھ بڑے بڑے افسروں نے تقریریں کیں اور بالآخر وھیل چیرز بانٹنے کا اعلان کیا گیا۔ کئی معذوروں میں کرسیاں تقسیم کی گئی اور فوٹو اٹھائے گئے۔ شفیقہ نے بھی اپنی باری پر نوید کے سہارے اپنی وھیل چئیر حاصل کی۔ اس سارے پروگرام کے دوران شفیقہ اپنی نظریں جھکائے بے تحاشا رو رہی تھی اور نوید اسے برابر چپ کرانے کی بے کار کوشش کرتا رہا۔ نوید نے وھیل چیئر کو فولڈ کرتے ہوئے آٹو میں ایک طرف رکھا اور شفیقہ ماسی کو سہارا دے کر آٹو میں سوار ہوا۔
آٹو شفیقہ کے گھر کے قریب رکا اور نوید نے پہلے شفیقہ ماسی کو گھر کے اندر پہنچایا، جو اب بھی مسلسل آنسو بہا رہی تھی اور اس کی اب باضابطہ ہچکیاں بندھ رہی تھیں۔ نوید آٹو والے کو کرایہ دے کر جب وھیل چئیر اندر کمرے میں رکھنے لگا تو شفیقہ نے رندھی ہوئی کانپتی آواز میں نوید سے کہا,
“نوید بیٹا۔۔۔۔۔۔اس منحوس “باز آبادکاری” کو یہاں سے ہٹاؤ۔ نہیں تو اسے دیکھ دیکھ کر میرا جنازہ یہاں سے نکلے گا۔ میں نے پہلے ہی بتایا تھا کہ مجھے نہیں جانا ہےوہاں۔۔۔۔۔ جاؤ۔۔۔۔۔۔ اسے کسی ہسپتال میں ڈال کے آؤ۔۔۔۔۔۔کسی کے کام آئے گی۔۔۔۔۔۔ میری بیس سال کی بے بسی اور اپاہچ پن یہ شرمناک مذاق برداشت نہیں کرسکتی۔۔۔”
نوید نے شفیقہ ماسی کی طرف دیکھا جس کے چہرے سے بیس سال کا ناسور آنسؤں کی صورت چھلک رہا تھا۔ اس نے چپکے سے کونے میں رکھی ہوئی وھیل چئیر کو اٹھایا اور خود بھی آنسو پونچھتا ہوا کمرے سے باہر آیا۔
ترال پلوامہ کشمیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔9906830807