وادی بھر میںآوارہ کتوں کی دھماچوکڑیاں بلا روک ٹوک جاری ہیں اوراس صورت حال کا خمیازہ اول وآخرعام شہری متواتر اُٹھا رہے ہیں ۔ گزشتہ دنوں ایک ۶۵؍ سالہ بزرگ شہری کی ہیبت ناک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ۔ ان کا چہرہ آوارہ کتوں نے بُری طرح نوچ ڈالا تھا کہ دیکھ کر دل بھر آتا۔ دستیاب اعداد وشمار کے مطابق پچھلے چھ سال میں صرف سری نگر میں تیس ہزار سات سو گیارہ ایسے دل دوز واقعات رونما ہوچکے ہیں ۔ سال ہا سال سے جاری آوارہ کتوں کے ان حملوں کی ذمہ داری کس کے سر ڈالی جائے،؟یہ ایک اہم سوال ہے جس کا شاید کسی کے پاس جواب نہیں ۔سری نگر میونسپل کا ریوریشن کے مطابق سری نگر میں45000 آوارہ کتے موجود ہیں۔ حالانکہ سر سری طور دیکھاجائے تو آوارہ کتوں کا یہ شمار اُن کی اصل تعداد سے بہت گھٹا کر پیش کی جاتی ہے کیونکہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ آج سرینگر کی ہر بستی ، ہرگلی کوچے، میدان،مزار ،خانقاہ ، ذبح خانے ، پولٹری دوکان، تعلیمی ادارے ، ہسپتال سمیت کشمیر یونیورسٹی وغیرہ آوارہ کتوں کا محفوظ ٹھکانہ بنی ہے ۔ یہاں یہ فوج درفوج پائے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے اس سے عام شہریوں کا جینا حرام ہوناقدرتی امر ہے ۔ بے لاگ سچ یہ بھی ہے کہ میونسپل کارپوریشن اس گھمبیر مسئلے کو سلجھانے میں بری طرح ناکام ہے ۔ کہنے کواس کا دعویٰ ہے کہ یہ آوارہ کتوں کی نس بندی کر نے میں مصروف ہے مگر یہ سب زبانی جمع خرچ اور کا غذی کارروائی دکھائی دیتا ہے ۔ اُدھر آئے روز آوارہ کتے شہر ودیہات میں لوگوں کو کاٹ کھاکر واضح کر دیتے ہیں کہ کشمیر میں سگ باش انسان مباش کا اصول چل رہاہے۔ سگ گزیدگی کے یہ صدمہ خیز واقعات بلا ناغہ اخباری سرخیوں کی جگہ بھی لیتے رہے ہیں مگر ا س کا موثرا زالہ کر وانے کے لئے انتظامی حلقوں میں ذرا بھی جنبش نہیں ہوتی۔ بے شک بازاری کتوں کے موضوع پر آج تک کاغذ کے انبارا ور سیاہی کے سمندر خامہ فرسائیوں پر صرف بھی ہوئے مگر اصل مسئلہ آج بھی جوں کا توںقائم ہے۔ بایں ہمہ اس اہم مسئلے کو قلم انداز کر نا یا اس پر خاموشی اختیار کر نا عوام کے ساتھ ایک صریح ظلم ہوگا ۔ پوچھا جاسکتا ہے کہ میونسپل حکام اس معاملے کی اَن دیکھی کیوںکئے چلے جارہے ہیں؟ کیا کوئی مفاد خصو ص ا س تعلق سے سر گرم عمل ہے ؟ کیا حکام کو عدم جوابدہی کا ناقابل علاج روگ آوارہ کتوں کے مسئلے سے نپٹنے میں مانع بنا ہوا ہے ؟ یہ سوالات عام آدمی کے لئے گتھیاں بھی ہیں اور لا ینحل معمے بھی ۔ حکام کی گراں گوشی یا تجاہل عارفانہ سے یہی اخذ کیا جاسکتاہے کہ شاید ان کی نگاہ میں عوامی مفاد ، رائے عامہ اورعوامی شکایات کے ازالے کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے ۔ نیز لگتا ہے کہ بازاری کتے کشمیر میںآزاد چھوڑدئے گئے ہیں کہ معصوم بچوں اورپیر وجوان پر حملہ کر پڑ یں اور بقول کسے انہیں بزبان حال پیغام د یں کہ تم ہمارے رحم وکرم پر جی رہے ہو، یہ ہماری مرضی ہے کہ کب تمہیں تگنی کا ناچ نچائیں ، کب کا ٹیں ، کب بھونک بھونک تمہاری رات کی نیندیں حرام کریں ۔ سگ گزیدگی کے قیامت خیز واقعات کے باعث والدین اپنے ننھے منے بچو ں کے بارے میں ہمیشہ فکر وتشویش میں مبتلا رہتے ہیں کہ کہیں سکول آ تے جاتے یا گھر سے نکلتے ہوئے ان کا کا شکار نہ ہوجائیں۔ یہی بات معمر افراد پر بھی صادق آتی ہے ۔اس بیچ میونسپل حکام کا یہ دعویٰ کہ آوارہ کتوں کی آبادی کم ہورہی ہے، ایک سفید جھوٹ کے سوا کچھ نہیںہے ۔ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ میونسپل حکام بھی اسی سماج کا حصہ ہیں ، وہ بازاری کتوں کی بھدی کہانی سے غافل ہوسکتے ہیں نہ ناواقف۔ آپ آوارہ کتوں کے مسئلے میںان کی عدم دلچسپی کی وضاحت مانگئے تو وہ کبھی قانونی موشگافیوں کا باب کھولیں گے اور کبھی کسی ودسری بہانہ بازی سے اپنی پنڈ چھڑائیں گے۔ انسا نی فلا ح کے بلند بانگ دعوے رکھنے والی رضا کا ر تنظیمیں اور سول سوسائٹی کی اس موضوع پرمجر مانہ خا مو شی بھی کچھ کم اذیت نا ک نہیں۔ بنابریں ایسا محسوس ہوتاہے کہ غالباً وادیٔ کشمیرمیںشاید کتوں کو صوابدیدی اختیار دیا گیاہے کہ وہ جس کسی راہگیرکو چاہیں کا ٹ کھائیں ، کوئی ان کا بال بیکا نہ کرے گا۔ شہر خاص سری نگر میںکئی علاقے ایسے بھی ہیں جہاں نجی ذبح خانے واقع ہیں،ان کے گردونواح میں میں لاتعداد شیر نما آوارہ کتوں کے قبضہ گروپ سے یہ علاقے عام لوگوں کے لئے گویاno-man's landبنے رہتے ہیں۔ خاص کررات کے اندھیرے میں ان علاقوں میں کسی کا گزر کرنا موت کو دعوت دینے کے برابر ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ پولٹری فروش بھی کتوں کی افزائش نسل کے مستقل سبب بنے ہوئے ہیں۔ بہر صورت چونکہ میونسپل حکام ہی عوام کو اس عذاب وعتاب سے بچانے میں کوئی تیر بہدف حل نکالنے کے مکلف ہیں،اس لئے علی الخصوص ذبح خانے والوں اورپولٹری ٹریڈ سے وابستہ دوکانداروں کوقانون کی خوارک پلا ئی جانی چاہیے۔ مرغ فروشوںکو مرغوں کی انتڑیاں،ٹانگیں،سروغیرہ کتوں کی نذر کر کے بازاری کتوں کی آبادی بڑھانے کے موجب بن رہے ہیں،اُن کے خلاف قانونی کارروائی کی جانی چاہیے ۔ بعینہٖ وہ لوگ بھی قابلِ دست اندازی ٔ قانون ہونے چاہیے جو اپنے گھر وں کا پس خوردہ سڑکوں پر پھینکتے ہیں ۔ ساتھ ہی ساتھ آوارہ کتوں کی نامعقول طرف داری میں تحفظ حیوانات کا قانون تسلیم ہے کہ کرہ ٔارض پرجانوروں کو اُسی طرح زندہ رہنے کا حق حاصل ہے جیسے اشرف المخلوقات انسان کو یہاںگزر بسرکرنے کا حق ہے ۔ کائنات میںہر مخلو ق کی اپنی ایک ٹھوس مقصدیت ہے، یہاں کوئی چیز یہاں عبث نہیں ہے، البتہ کائنات کی تمام مخلوقات کا مقصد کسی نہ کسی طرح انسانی زندگی کو آسا ن تر بناناہے۔ قانون قدرت کے آئینے میں انسان کی راحت و آسائش ہر دو سری چیز پر مقدم ہے۔ جب امر واقع یہ ہے تو ظا ہر ہے جہاں کہیں انسا ن اور دیگر مخلوقات کے ما بین ترجیح کا ترازو کھڑا ہوجا ئے ، وہاں لا محالہ انسان کی طرف کا پلڑا ہی بھاری رہے گا۔ انسان کے مفاد کونظر انداز کرکے تحفظ حیوانات کا پلڑا سمجھنا قابل قبول ہے ،وہ بھی اس مغا لطے کے ساتھ کہ یہ طرز فکر عمل انسانیت،رحمدلی اور انصا ف کا مظہر ہے۔نہیں ایسا ہر گز نہیں۔ المختصراس سے قبل کہ آوارہ کتوں کے سلگتے موضوع پر آگے بھی ہمیںیہی رونا رونا پڑے ، یا آوارہ کتوں کی وحشت وبربریت کا منہ مستقلاً دیکھنا پڑے، گورنر انتظامیہ میو نسپل حکام کو فی الفور اس بارے میں اپنی جمود پسندی اور غفلت شعاری کو خیر باد کہنے کی ہدایت دے اورکو ئی ایسی انسان دوست بااثر حکمت عملی وضع کر وا دی جا ئے کہ سانپ بھی مرے اور لا ٹھی بھی نہ ٹوٹے۔