بلال فرقانی
سرینگر// عیدالاضحیٰ کے پیش نظر بازاروں میں چہل پہل تو دیکھی گئی، تاہم گزشتہ برسوں کے مقابلے میں رواں سال خریداری میں واضح کمی محسوس کی گئی۔ سرینگر اور دیگر علاقوں میں لوگ خریداری میں مصروف نظر آئے، لیکن مجموعی طور پر بازاروں میں روایتی گہما گہمی مفقود رہی۔ دکانداروں کا کہنا ہے کہ گاہک نہ ہونے کے برابر ہیں اور گزشتہ برسوں کے مقابلے میں اس سال کا کاروبار بدترین سطح پر ہے۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ اس بار خرید و فروخت میں تقریباً 40 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے، جس سے وہ شدید مالی بحران سے دوچار ہو چکے ہیں۔شہرکے اکثر بازاروں میں درمیانی درجے کی خریداری دیکھنے کو ملی۔ ملبوسات، بیکری اشیاء ، جوتے، چپلیں، چوڑیاں اور دیگر زیبائش کی اشیاء کی مانگ تو تھی، مگر دکانداروں کے مطابق خریداروں کی تعداد توقع سے کم رہی۔خواتین کی بڑی تعداد گونی کھن، جامع مسجد اور دیگر مخصوص بازاروں میں مہندی، زیورات اور بچوں کے کپڑوں کی خریداری کرتی دیکھی گئی۔قصائیوں اور بیکری کی دکانوں پر گوشت کی بکنگ کے باعث لمبی قطاریں دیکھنے کو ملیں۔ صارفین نے شکایت کی کہ گوشت اور بیکری سمیت دیگر اشیاء کی قیمتوں پر کسی قسم کا سرکاری کنٹرول نظر نہیں آیا اور دکاندار من مانے دام وصول کرتے رہے۔ جموں و کشمیر بینک اور دیگر بینکوں کے اے ٹی ایمز پر زبردست رش دیکھا گیا۔ وادی کے دیگر اضلاع جن میں کپوارہ، بارہمولہ، شوپیان، بانڈی پورہ، پلوامہ، ترال، سوپور اور ہندوارہ شامل ہیں، وہاں بھی مجموعی طور پر کم رش اور محتاط خریداری دیکھنے کو ملی۔قربانی کے جانوروں کی خریداری بھی اس سال ماند پڑ گئی ہے اور بازاروں میں گزشتہ برسوں جیسی چہل پہل دیکھنے کو نہیں ملی۔ مہنگائی اور محدود مالی وسائل کے سبب عوام کی بڑی تعداد نے یا تو قربانی سے اجتناب کیا یا اجتماعی قربانی کو ترجیح دی۔ بکروالوں اور جانور فروشوں کا کہنا ہے کہ اس سال کاروبار خاصا متاثر ہوا ہے۔ عیدالاضحیٰ کے موقع پر جہاں مذہبی جوش و خروش برقرار ہے، وہیں بازاروں میں خریداروں کا محتاط رویہ وادی کے بدلتے اقتصادی منظرنامے کی جھلک بھی پیش کرتا ہے۔