رتن سنگھ کنول
گاڑی تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی۔ گاڑی ئے ماڈل کی تھی ،ابھی اس کی پِک اَپ میں کوئی فرق نہیں پڑاتھا۔ مالک نوین گاڑی چلا رہا تھا ۔اس کی بوڑھی ماں ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی اونگھ رہی تھی ۔ بیوی اور بیٹی پچھلی سیٹ پر بیٹھی تھیں ۔ بیوی کی گود میں دو مہینے کا بچہ تھا ۔ سڑک کشادہ تھی، کئی لینوں والی جو اُسی مقام کی جانب لیٹی ہوئی تھی ۔ کسی قسم کی رُکاوٹ بھی سڑک پر دکھائی نہیں دےرہی تھی ۔
نوین کا دھیان ڈرائیونگ پہ تھا اور اُس کے دماغ میں منزل کا نقش تھا ۔ جب تلک کھیت کھلیانوں، جنگلوں، ندی نالوں اور قدرت کے کئی دوسرے مناظر کو چھو کر گاڑی گذر رہی تھی، نوین کی ماں کو بیتی زندگی کی جھلکیاں ان ہی مناظر میں دکھائی دے رہی تھیں ۔ پھر یہ مناظر بہت پیچھے چھوٹ گئے ۔بہت بڑی بڑی فلک بوس عمارتیں، کارخانے ،مال ،ٹاور، اور کُربل کُربل کرتی بھیڑ ،چاروں اور سے اُبھر آئی۔ نوین کی ماں نے آنکھیں موند لیں۔۔۔ بیٹے نے دیکھا ،سیٹ بیلٹ باندھی ہوئی تھی ۔گاڑی سارے تقاضائے آرام پورے کر رہی تھی۔
پچھلی سیٹ پر بیٹھی ماں بیٹی اپنے اپنے سمارٹ فونوں پراُنگلیاں نچا رہی تھیں۔ کبھی ماں کے فون کی آواذ اونچی ہو جاتی تو کبھی بیٹی کے فون کی ۔
دونوں ایک دوسرے سے آنکھ بچانےکی کرشش کر رہی تھیں ۔ ‘ پہلے میرے پانچ سوالوں کے جواب دو ‘ بیٹی کے فون سےآواذ تھوڑی بلند ہوئی ۔۔۔کنواراپن کب بھنگ ہوا ۔۔۔کب ملا تھا ۔۔۔ کتنے دوست ہیں ۔۔۔
آواز پھر کار کے تیزی سے گھوم رہے پہیوں کی آواذ میں گم گئی۔ ماں ایکسٹرا میریٹل رلیشن شپ(Extra marital relationship) کی سٹوری دیکھ رہی تھی۔
کبھی کبھی اپنےرشتوں کے نیٹ ورک سے بھی فون کالز آجاتیں تو وہ بُرا سا منہ بنا کر کبھی اُٹھا لیتی، کبھی کاٹ دیتی ۔ گاڑی میں بیٹھے سبھی لوگوں کا آپسی رابطہ منقطع ہی رہا اور گاڑی رواں دواں رہی ۔ بچہ گاڑی میں پیدا ہوئے احساس کو دودھ کے ساتھ پیتا رہا ۔ کبھی ہاتھ پاؤں مارتا ،مچلتا ، ماں کا دھیان اپنی اور کھینچنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ،پھر مایوس ہو کر سُبکنے لگتا ۔۔۔
اچانک گاڑی ایک پارک میں جا کر رُکی گئی ۔ ہلکا سا جھٹکا لگا ۔ ماں بیٹی نے ایک ساتھ پوچھا ‘ کہاںپہنچے؟
نوین نے گاڑی سے چابی نکالتے ہوئے جواب دیا۔۔۔
‘ بازار !
���
پہلگام، کشمیر،موبائل نمبر؛ 7006803106