صبح کے تقریباً چار بجے ہیں۔ ہم نے نصف گھنٹے میں طواف اور زائد از ایک گھنٹے میں سعی مکمل کر لی۔ یہاں سے نکل کر حلق کروانا اور احرام اتار دینا ہے۔ لیجیے عمرہ مکمل ہو گیا۔ ہم مدینہ شریف سے مکہ مکرمہ آئے ہیں۔ احرام مدینہ ہی میں باندھا گیا تھا۔ مکہ میں جس ہوٹل میں ہمارا قیام ہے یعنی ’’ہوٹل اریج الھجرہ‘‘ میں، اس میں سامان وغیرہ رکھتے رکھتے رات کا تقریباً ایک بج گیا۔ اس کے بعد ذرا سا آرام کر کے اپنی اہلیہ کے ساتھ عمرہ ادا کرنے حرم شریف میں پہنچے۔ ہوٹل سے پندرہ بیس منٹ کی مسافت ہے۔ باہر نکلئے تو بازار پڑتا ہے۔ اسے عبور کیجیے تو مسفلہ کے پاس ایک بڑا سا میدان ہے جسے کبوتر چوک کہتے ہیں۔ وہاں لوگ کبوتروں کو دانہ ڈالتے ہیں۔ اس کو پار کرنے کے بعد ہی حرم شریف کے قریب پہنچ جاتے ہیں۔ اس کے قریب بھی بہت سی دکانیں ہیں۔ جب ہم وہاں سے گزرے تو ایک دکان والا کچھ تبرک لوگوں کو تقسیم کر رہا تھا۔ جسے حرم شریف میں جانے والے لوگ ہاتھوں ہاتھ لے رہے تھے۔ ہم آگے بڑھے۔ فلک بوس کلاک ٹاور کے بائیں جانب یعنی باب فہد سے، جو کہ شاندار ہوٹل دار التوحید کے بالمقابل ہے، اندر حرم شریف میں داخل ہو گئے۔
ہمارے ساتھ تین افراد اور تھے۔ ایک ادھیڑ عمر خاتون اور ایک معمر خاتون اور ان کا جواں سال بیٹا۔ معمر خاتون راستے میں جگہ جگہ تھک کر بیٹھ جاتی ہیں۔ کبوتر چوک کے پاس پہنچے تو ایک شخص وھیل چیئر لیے ہمارے پاس آیا اور دو سو ریال کے عوض معمر خاتون کو طواف اور سعی کرانے کی پیشکش کی۔ نوجوان نے اس کی پیشکش ٹھکرا دی۔ کچھ دور اور آگے بڑھے تو ایک اور شخص آیا۔ اس نے بھی ایسی ہی پیشکش کی۔ نوجوان نے اس سے بات چیت شروع کی اور بالآخر وہ شخص ۸۰ ریال کے عوض طواف اور سعی کرانے اور پھر واپس ہوٹل چھوڑنے پر راضی ہو گیا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کوئی ایجنٹ ہے۔ اس نے کسی کو فون کیا کہ فلاں جگہ وھیل چیئر لے کر آجاؤ۔ بالکل اسی طرح جیسے نئی اور پرانی دہلی کے ریلوے اسٹیشنوں پر ٹیکسی والے لوگوں کو راضی کرتے ہیں اور پھر سواریوں کو ڈرائیوروں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ لیکن اس سے قبل کہ وہ شخص وھیل چیئر لے کر آتا معمر خاتون کا ارادہ بدل گیا اور انھوں نے از خود پیدل چل کر طواف اور سعی کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد ہم لوگ آگے بڑھ گئے۔
یوں تو حرم شریف میں طواف کرنے والوں کا ہمیشہ اژدہام رہتا ہے۔ البتہ رات میں ایک اور تین بجے کے درمیان کچھ ہلکا ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں بالکل قریب سے طواف کرنے کا موقع مل گیا۔ لیکن پھر بھی ہم حجر اسود تک نہیں پہنچ سکے۔ البتہ ایک بار حطیم اور رکن یمانی کے درمیان جہاں بھیڑ نسبتاً کم ہو جاتی ہے، خانہ کعبہ کی دیوار کو ہاتھوں سے مس کیا۔ طواف کے بعد مقام ابراہیم کے سامنے دو رکعت نماز ادا کی۔ آب زم زم پیا۔ کچھ دیر آرام کیا۔ پھر سعی کے لیے نکل پڑے۔ گراونڈ فلور پر سعی کی۔ زیادہ بھیڑ نہیں تھی۔ پھر بھی ایک گھنٹے سے زیادہ لگا۔ سعی صفا اور مروہ پہاڑوں کے درمیان کی جاتی ہے۔ جہاں حضرت ہاجرہ نے پانی کے لیے چکر لگائے تھے۔ دونوں پہاڑ اب بہت چھوٹے ہو گئے ہیں۔ لیکن ان کو بہر حال کسی نہ کسی شکل میں برقرار رکھا گیا ہے۔ دونوں پہاڑوں کے درمیان دورویہ ہموار راستہ سڑک کی شکل میں بنا دیا گیا ہے جس پر سفید پتھر بچھا دیے گئے ہیں۔ چونکہ وہ جگہ چاروں طرف سے بند ہے اس لیے وہاں ہمیشہ اے سی اور پنکھے چلتے رہتے ہیں۔ حضرت ہاجرہ کی سنت کی ادائیگی کی خاطر درمیان میں ایک حصے پر ہلکا سا دوڑنا پڑتا ہے۔ مرد دوڑتے ہیں۔ عورتوں کے لیے ضروری نہیں۔ یہ دوڑ اس طرح کی ہوتی ہے کہ جیسے کوئی عورت بوجھ لے کر ذرا تیز قدم چل رہی ہو۔ دوڑنے کی جگہ پر ہرے رنگ کی ٹیوب لائٹیں لگا دی گئی ہیں۔
طواف اور سعی میں یہ منظر بار بار دیکھنے کو ملتا ہے کہ کوئی گروپ ہے جس کا ایک قائد ہے۔ قائد کسی کتاب میں سے کچھ دعائیں پڑھتا ہے اور گروپ کے باقی ممبران اس کو دوہراتے ہیں۔ ایسے کئی گروپ دونوں جگہ مل جاتے ہیں۔ بعض گروپ والے آرام آرام سے پڑھتے ہیں اور بعض بلند آواز سے۔ بعض گروپ والے آہستہ خرامی کے ساتھ چلتے ہیں اور بعض تیز رفتاری کے ساتھ۔ یہاں تک کہ اگر باقی دوسرے لوگ خود کو نہ سنبھالیں تو انھیں دھکہ لگنے کا خطرہ رہتا ہے۔ بہت سے گروپ صرف خواتین پر مشتمل ہوتے ہیں۔ وہ سب ایک ہی رنگ کے لباس میں رہتے ہیں تاکہ ان کی شناخت آسان رہے اور ان میں سے کسی کے گم ہونے کا خطرہ نہ رہے۔ ایسے گروپ عام طور پر انڈونیشیا اور ملیشیا وغیرہ کے ہوتے ہیں۔ بعض افریقی ممالک کے لوگ بھی اسی طرح گروپ بنا کر چلتے ہیں۔
سعی سے فارغ ہونے کے بعد جب ہم مطاف کی طرف آرہے تھے اور خیال تھا کہ ہوٹل چل کر آرام کریں گے تو اسی وقت نماز تہجد کے لیے اذان ہو رہی تھی۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ حرمین میں تہجد کی اذان ہوتی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ لوگ اذان سے قبل ہی مسجد میں پہنچنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جب ہم سعی مکمل کرکے آئے تو دیکھا کہ اذان ہو رہی ہے اور لوگ صفوں میں بیٹھ رہے ہیں۔ جس وقت ہم سعی کے لیے گئے تھے تو پورا مطاف خالی تھا۔ بس وہی لوگ تھے جو طواف کر رہے تھے۔ لیکن اب یہاں کا منظر دیدنی ہے۔ صرف اس جگہ صف نہیں بنی ہے جہاں لوگ طواف کر رہے ہیں۔ ورنہ پورے مطاف میں صفیں بن گئی ہیں اور لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ بہت سے نماز کی ادائیگی کر رہے ہیں۔ باہر سے لوگوں کی آمد کا طویل سلسلہ جاری ہے۔ ہم لوگوں نے سوچا کہ اب جبکہ تہجد کی اذان ہو گئی ہے تو کیوں نہ تہجد پڑھ لی جائے اور فجر کی نماز پڑھ کر ہوٹل جایا جائے۔ ہماری اہلیہ یہ کہتے ہوئے خواتین کی صفوں کی جانب چلی گئیں کہ میں فلاں مقام پر نماز کے بعد ملوں گی۔ اگر وہاں ملنے ملانے کے لیے کوئی جگہ متعین نہ کی جائے تو گم ہو جانے کا اندیشہ رہتا ہے۔ اب میں نے مطاف میں صفوں میں جگہ دیکھنے کی کوشش کی تو کہیں کوئی جگہ خالی نہیں تھی۔ بالکل آخری صف میں جہاں سے مرد اور خواتین جگہ کی تلاش میں ادھر ادھر آجا رہے تھے، تھوڑی سی جگہ نظر آئی۔ میں وہاں بیٹھ گیا۔ نماز پڑھنے لگا۔ لیکن میرا دل مسلسل دھڑک رہا تھا کہ نماز کے بعد اہلیہ سے ملاقات ہوگی یا نہیں۔ کہیں ہم دونوں بچھڑ نہ جائیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں تمام نمازوں میں غیر معمولی بھیڑ ہوتی ہے۔ اور پولیس والے لوگوں کو ہٹاتے رہتے ہیں کہ یہاں نہیں وہاں جاکے بیٹھو۔ میں اپنا موبائیل ہوٹل میں بھول آیا تھا۔ ورنہ یہ خیال تھا کہ فون کرکے کسی جگہ بلا لیں گے۔
بہر حال دل بے چین تھا۔ پانچ بج کر ۳۵ منٹ پر فجر کی اذان ہوئی۔ اس وقت تک کہیں بھی تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ فجر کی دو رکعت سنت پڑھنے کے بعد میں نے سوچا کہ جا کر اپنی اہلیہ سے کہہ دوں کہ اگر متعینہ جگہ پر ملاقات نہ ہو تو اس بورڈ کے نیچے مل لیں گے جس پر ’’باب فہد‘‘ لکھا ہوا ہے۔ یہ سوچے بغیر کہ لاکھوں کی اس بھیڑ میں اب کوئی کہاں ملے گا، میں اپنی صف سے اٹھ گیا۔ خواتین کی صفوں کی جانب گیا تو منظر ہی عجیب و غریب پایا۔ عورتوں کی زبردست بھیڑ ہے۔ کوئی کہیں نماز ادا کر رہا ہے تو کوئی کہیں۔ منتظمین عورتوں کو یہاں وہاں سے ہٹا رہے ہیں۔ بڑی تعداد ایسی عورتوں کی ہے جنھیں کہیں جگہ نہیں ملی ہے اور وہ ادھر ادھر بھٹک رہی ہیں۔ جبکہ بہت سی ایک جگہ کھڑی ہیں اور ا س انتظار میں ہیں کہ نماز شروع ہو اور منتظمین وہاں سے ہٹیں تو وہ کہیں بھی صف بنا لیں۔ بہر حال میں نے چاروں طرف دیکھا۔ لیکن اس عالم میں کسی کو تلاش کر لینا بھوسے کے گٹھر سے سوئی تلاش کرنے جیسا ہے۔ میں مایوس ہوکر واپس آگیا۔ میں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ اپنی جگہ چھوڑ دوں گا تو دوسرا اس کوپُر کر لے گا۔ جوں ہی میں اٹھا ایک دوسرا شخص وہاں بیٹھ گیا۔ اب مجھے کہیں جگہ نہیں مل رہی ہے۔ بالکل آخری صف کے بعد جو راستہ تھا وہاں میں کھڑا ہو گیا اور جب نماز شروع ہوئی تو دوسرے بہت سے لوگوں کے ساتھ میں نے بھی وہیں ہاتھ باندھ لیے۔ جب تک نماز شروع نہیں ہوئی تھی طواف کا سلسلہ جاری تھا۔ نماز شروع ہوتے ہی طواف کرنے والوں نے بھی صفیں بنا لیں۔ اس دوران پرندے غالباً چیلیں خانہ کعبہ کے اوپر مسلسل چکراتی رہیں۔ کبھی کبھار ان کی آوازیں بھی آنے لگتیں۔ فجر کا وقت ہونے کی وجہ سے پرندوں کی بھرمار ہے۔ انسان تو خالق کائنات کی حمد و ثنا کرنے کے لیے صبح وقت پر بیدار نہیں ہوتا لیکن پرندے بیدار ہو جاتے ہیں۔ بہت سے لوگوں نے لکھا ہے کہ ان کی چہچہاہٹ دراصل خالق کائنات کی حمد و ثنا ہوتی ہے۔ اس لیے جب میں نے پرندوں کو وہاں چکراتے دیکھا تو خیال آیا کہ ہو نہ ہو یہ بھی اللہ رب العزت کی کبرائی اور بڑائی بیان کرنے کے لیے حرم شریف میں آگئے ہیں۔
اذان کے دس منٹ کے بعد نماز شروع ہوئی اور امام صاحب نے جو قرآت شروع کی تو تمام الجھنیں دور ہو گئیں۔ دل جو یکسو ہونے کے لیے کسی بھی قیمت پر راضی نہیں ہو رہا تھا ازخود راضی ہو گیا۔ فجر کا وقت، کھلے آسمان کے نیچے، کسی عرب کی زبان سے بہترین تلاوت کلام پاک، شاندار ساونڈ سسٹم کہ جیسے ذرے ذرے سے آواز آ رہی ہو اور ہزاروں بلکہ لاکھوں کا مجمع۔ ایسا لطف زندگی میں کبھی نہیں آیا تھا۔ امام صاحب نے کوئی بڑی سورت چھیڑ دی تھی۔ بوقت ضرورت ان کی آواز میں پیدا ہونے والے زیر و بم اور اتار چڑھاؤ نے دل پر عجیب و غریب کیفیت پیدا کر دی۔ بس یہی طبیعت چاہتی تھی کہ وہ اسی طرح پڑھتے رہیں اور ہم کھڑے ہو کر گھنٹوں اسی طرح سنتے رہیں۔ دوسری رکعت میں پڑھی جانے والی سورت قدرے چھوٹی تھی۔ لیکن دونوں رکعتوں کی قرآت نے جو سماں باندھا وہ ناقابل بیان ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ اس وقت حاصل ہونے والی ایمانی لذت حاصلِ زیست ہے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ پھر اس طرح حرم میں نماز فجر ادا کرنے کا موقع نہیں ملا۔ دل تو بہت چاہتا تھا کہ یہ جو دو دن مکہ شریف میں گزارنے ہیں حرم ہی میں گزارے جائیں۔ لیکن میری عدم صحت نے اس کی اجازت نہیں دی۔ در اصل عمرہ پر جانے سے پہلے سے ہی مجھے شدید قسم کا وائرل فیور ہو گیا تھا۔ وہاں بھی حرارت سی رہتی رہی اور ایک روز بخار بھی آیا۔ کمزوری بہت زیادہ ہو گئی تھی۔ اس کی ایک وجہ بخار کا تسلسل تھا اور دوسری وجہ بخار کے بعد بھوک کا مر جانا تھا۔ کھانا دیکھتے ہی ابکائی آنے لگتی تھی۔ اسی لیے میں دوبارہ اس ایمانی کیف سے ہمکنار نہیں ہو سکا جو اس نماز کے دوران ملا تھا۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ پھر اس سرزمین پر بلائے اور اس بار وہاں زیادہ وقت گزارنے کا موقع ملے۔ (مکہ شریف میں ہمیں زیادہ وقت کیو ںنہیں ملا اس پر آگے اظہار خیال کیا جائے گا)۔
نماز فجر کے بعد نماز جنازہ ادا کی گئی جیسا کہ عموماً ہر وقت کی نماز کے بعد حرمین میں ادا کی جاتی ہے۔ میں عورتوں کی صفوں کی طرف گیا اور متعینہ مقام پر کھڑا ہو گیا۔ حسن اتفاق کہ ہماری اہلیہ بھی تھوڑی دیر میں وہیں آگئیں۔ وہاں سے نکلے تو دیکھا کہ آب زم زم پینے والوں کی بہار ہے۔ لوگ قطار اندر قطار پی رہے ہیں۔ ہم لوگوں نے بھی پیا۔ اس کے بعد ہوٹل کے لیے روانہ ہو گئے۔ باب فہد سے نکلے تو دیکھا کہ ہزاروں افراد نکل رہے ہیں۔ جیسے کوئی سمندری موج ہو جو اٹھلا اٹھلا کر آگے بڑھ رہی ہو۔ بڑا روح پرور منظر تھا۔ لیکن اس بھیڑ میں خود کو سنبھالنا بھی تھا۔ جو آسان بھی تھا اور مشکل بھی تھا۔ خیال تھا کہ چونکہ سیدھا راستہ ہے اور ذہن میں راستہ بٹھا بھی لیا تھا، اس لیے آسانی سے ہوٹل پہنچ جائیں گے۔ کبوتر چوک سے آگے بڑھے اور بازار میں بڑھتے چلے گئے۔ ہوٹل سے نکلتے وقت اس کا کارڈ لے لیا تھا۔ جب کافی آگے تک چلے گئے اور ہوٹل نہیں آیا تو تشویش ہوئی۔ کچھ دور اور چلنے کے بعد ایک دکان پر ہوٹل اریج الھجرہ کے بارے میں پوچھا۔ اتفاق سے وہ عرب تھا۔ اس نے جو کچھ کہا سمجھ میں نہیں آیا۔ ایک دوسرے شخص سے پوچھا اس نے پچھلی گلی کی طرف اشارہ کیا۔ لیکن پھر بھی کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ کچھ اور آگے گئے تو ایک حجام کی دکان نظر آئی۔ خیال آیا کہ یہاں حلق کرا لیں اور اس سے پوچھ بھی لیں۔ حلق کرانے کے بعد اس سے ہوٹل کے بارے میں پوچھا۔ وہ ایک نوجوان تھا اور غالباً پاکستانی تھا۔ اس نے اردو میں بتایا کہ یہ برابر میں جو گلی جا رہی ہے اس میں جائیں۔ سامنے ایک کار کھڑی نظر آرہی ہے اس سے بائیں مڑ جائیں۔ پھر وہ گلی آگے جا کر ایک بازار میں ملتی ہے۔ وہیں ہوٹل اریج الھجرہ ہے۔ اس کی بات سمجھ میں آگئی۔ جب ہم مذکورہ گلی سے نکلے تو ہوٹل کے سامنے والے بازار میں پہنچ گئے۔ سامنے ہی وہ ہوٹل نظر آگیا۔ در اصل یہ ایک پتلی گلی ہے۔ یہاں بھی دونوں طرف دکانیں ہی دکانیں ہیں۔ ہم جس بازا رمیں چلے گئے تھے وہ مین بازار تھا۔ یہ گلی اس بازار کی ایک شاخ ہے۔ اس طرح بھٹک جانے کے بعد اپنے ہوٹل پہنچے اور بستر پر دراز ہو گئے۔
(جاری)