’کشمیری ضمیر کے قیدی‘ کے عنوان سے سمینارمیںمزاحمتی قیادت کا دو ٹوک اعلان ،گیلانی، میر واعظ کا ٹیلی فونک خطاب
سرینگر//علیحدگی لیڈروں نے کہا آزادی پسند لیڈروں بشمول خواتین کی گرفتاری اور انہیں بیرون ریاست قید خانوں میں منتقل کرنااصل میں دہلی کی طرف سے مزاحمتی خیمے کو سرنڈر کرانے کا حربہ ہے ۔قومی تفتیشی ایجنسی(این آئی اے) کی طرف سے گزشتہ برس چھاپوں کے دوران گرفتار مزاحمتی لیڈروں کی ایک سال کی اسیری کی مناسبت سے آبی گزر میں ایک سمینار ’’کشمیری ضمیر کے قیدی ‘‘ کے عنوان سے منعقد ہوا،جس میں محمد یاسین ملک اور محمد اشرف صحرائی نے خطاب کیا۔حریت کے دونوں دھڑوں کے چیئرمینوں سید علی گیلانی اور میرواعظ عمر فاروق، جنہیں منگل کی صبح ہی خانہ نظر بند کیا گیا نے سمینار سے ٹیلی فونک خطاب کیا۔مزاحمتی لیڈروں نے ہر ماہ ایک دن قیدیوں کے ساتھ یکجہتی کے طور پر مقرر کرنے کا اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارت ایک جانب تو سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویدار ہے لیکن دوسری جانب مختلف سیاسی سوچ رکھنے والوں کو محض سوچ رکھنے پر قید کررہا ہے۔ انہوں نے کہا’’ یہ جمہوری اپروچ نہیں بلکہ آمرانہ سوچ و اپروچ ہے اور بھارت کو یاتو اپنے ان جمہوری دعوئوں سے باز آجانا چاہئے یا پھر سیاسی مکانیت کی مسدودی ،سیاسی اختلاف رائے کو اسیر کرنے سے باز رہنا چاہئے، اُسے جمہوری قدروں کی پامالی روک کر جموں کشمیر کے لوگوں کو سیاسی مزاحمت کو جاری رکھنے کی اجازت دینی چاہئے ‘‘۔مشترکہ مزاحمتی لیڈرشپ نے کہا کہ گرفتاریوں کا چکر اور لیڈروں پر’’فرضی الزمات‘‘ عائد کرنے سے مزاحمتی لیڈر کسی بھی طور پر دہلی کے طاقت کے سامنے نہ ہی جھکیں گے،اور نہ ہی خود سپردگی کرینگے،جبکہ تمام محازوں پر مسئلہ کشمیر کو پرامن طور پر حل کرنے کی جدوجہد بھی جاری رکھیں گے۔ مزاحمتی لیڈروں نے کہا’’ بھارت قیدیوں کے لئے پاس کئے گئے جینوا معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک میں شامل ہے اور اس حوالے سے اس ملک پر لازم ہے کہ یہ معاہدے کی پاسداری کرے لیکن اس کے بالکل برعکس بھارت کشمیری اسیروں کو تنگ طلب کرنے، ان کے ایام اسیری کو طول دینے اور انہیں زیادہ سے زیادہ تکلیف میں مبتلا کرنے کیلئے ہر قسم کے ہتھکنڈے آزما رہا ہے‘‘۔کشمیری اسیروں کی حالت زار اور انہیں پہنچائی جانے والی تکالیف کو اجاگر کرتے ہوئے علیحدگی پسند لیڈروں نے کہا کہ بار بار سیفٹی ایکٹ لگانا،پولیسی حربے استعمال کرکے ایام اسیری کو طول دینا اور مختلف طریقوں کو بروئے کار لاتے ہوئے انہیں تنگ طلب کرنا کشمیر میں نیا دستور بن چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2017 میں این آئی اے نے ایک بیان دیا تھا جس میں اس ایجنسی نے کہا تھا کہ کشمیری مزاحمت کاروں کے خلاف اس کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہیں لیکن اس کے چند ہی دن بعد اسی ایجنسی کو استعمال کرکے کئی مزاحمتی لیڈروں کو گرفتارکرکے دہلی پہنچایا گیا اور تب سے یہ لوگ تہاڑ جیل میں مقید ہیں۔ انہوں نے کہا یہی پر بس نہیں ہوا بلکہ آسیہ انداربی، فہمیدہ صوفی اور ناہیدہ نسرین کو بھی گرفتار کرکے تہاڑ جیل پہنچادیا گیا۔اتحاد و اتفاق کو مضبوط تر بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے مقررین نے کہا’’ جموں کشمیر کے لوگوں کی تحریک اپنے پیدائشی حق اور حق خودرادیت کے حصول کیلئے ہے اور ہ بحیثیت قوم و ملت اتحاد و اتفاق ہی سے اپنی منزل کو پاسکتی ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ مشترکہ مزاحمتی قیادت کے ساتھ اگر کسی معاملے میں،مسئلہ یا رائے پر لوگوں کو ابہام ہو تو اسے عوامی حلقوں میں زیر بحث لانے کے بجائے خود ان کے پاس جاکر اس کا حل نکالنے کی راہ اپنانی چاہئے۔ سمینار میں سیاسی مزاحمتی، سماجی اور انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والے لوگوں ، تجارتی انجمنوں سے متعلق افراد، چیمبر آف کامرس اور انڈسٹریز کے سربراہاں، دانشوروں، علماء، ماہرین تعلیم نے شرکت کی،جبکہ بشیر احمد بٹ، غلام نبی سمجھی، غلام نبی زکی، شبیر احمد ڈار، بلال صدیقی،مولانا مسرو رعباس انصاری،مولوی بشیر عرفانی،شوکت احمد بخشی، نور محمد کلوال، محمد یاسین بٹ، مشتاق اجمل، محمد یاسین عطائی ، یاسمین راجہ، ، فردوس احمد شاہ، محمد یوسف نقاش، نثار حسین راتھر، غلام رسول ڈار ایدھی، ماسٹر محمد افضل،محمد احسن اونتو،سید بشیر اندرابی، عبدالصمد انقلابی، عمر عادل ڈار،غلام نبی وار،غلام محمد ناگو، مشتاق احمد صوفی، محمد شفیع خان،مولانا خورشید احمد قانونگو، مولانا شوکت حسین کینگ، مولا نا ریاض احمد شاہ، عبدالمجید زرگر، سمپت پرکاش، جاوید احمد ٹنگہ (صدر چیمبر)،شکیل قلندر، ڈاکٹر مبین شاہ، ڈاکٹر ظفر مہدی،نریندر سنگھ خالصہ کے علاوہشیخ عبدالرشید اور حکیم عبدالرشید بھی موجود تھے۔
اتحاد کچھ لیڈروں تک محدود نہ ہو:صحرائی
بلال فرقانی
سرینگر//مزاحمتی خیمے میں وسیع اتحاد کی وکالت کرتے ہوئے تحریک حریت سربراہ محمد اشرف صحرائی نے کہا ’’ اتحادکچھ مزاحمتی لیڈروں تک ہی محدود نہیں رہنا چاہیے۔انہوں نے واضح کیا کہ مزاحمتی لیڈرشپ نہ ہی قدامت پسند ہے اور نہ ہی توسیع پسند،اور ’’ہم ان میں سے نہیں ہے،جو حالات سے سمجھوتہ کرینگے‘‘۔صحرائی نے مزاحمتی خیمے میںاتحاد پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کچھ غلطیاں سرزد ہوئی ہونگی،تاہم ایک بڑے مقصد کیلئے ایک متحد لیڈرشپ کی ضرورت ہے۔صحرائی نے کہا ’’ جامع مقصد کیلئے ایک ایسی متحد لیڈرشپ کی ضرورت ہے،جس پر سب کو اعتماد اور بھروسہ ہوگا،اور بھارت سے آزادی کیلئے یہ ا یک نقطہ ہے‘‘۔تحریک حریت کے سربراہ نے کہا کہ ہم اتحاد کیلئے صرف چند مزاحمتی لیڈروں تک ہی کیوں محدود رہیں گے،بلکہ اس میں توسیع کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ کسی بھی صورتحال میں سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔صحرائی کا کہنا تھا’’ ہمیں اپنی بیٹیوں اور خواتین لیڈروں کی جدوجہد دیکھنی چاہیے‘‘۔اتحاد اور ثابت قدمی کو کامیابی کا زینہ قرار دیتے ہوئے صحرائی نے کہا کہ الگ دکانیں کھڑی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ صحرائی نے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’اگر مزاحمتی قیادت میںغلطیاں اور کوتاہیاں ہوتی ہیں،تو انکے پاس جانا چاہیے،کیونکہ اگر کوئی لیڈر غلطی کرتا ہے،اس کو قوم کی غلطی تصور کیا جاتا ہے‘‘۔انہوں نے مشورہ دیا کہ لوگوں کو چاہیے کہ وہ ٹھوس مشورات اور تجاویز لیکر لیڈرشپ سے ملیں،کیونکہ ’’سب کے دل آزادی کیلئے ہی دھڑکتے ہیں‘‘۔