لمحۂ فکریہ
الطاف صوفی بارہمولہ
قصبہ بارہمولہ کو قدرت نے جو محل و قوع عطا کیا ہے وہ قابل دید ہے ۔تین طرف سے پہاڑی سلسلہ اور بیچ میں دریائے جہلم رواں دواں ہے ۔اگر ایسا علاقہ یورپ میں ہوتا تو دنیا کا بہترین سیاحتی مرکز کہلاتا ۔ویسے بھی بارہمولہ کا جغرافیائی منظر نیوزی لینڈ اور Alaska کے کئی حصوں کے ساتھ مماثلث رکھتا ہے ۔مگر شومئی قسمت کہ قدرت کی تمام تر رعنائیوں کے باوجود بارہمولہ روز بروز اپنے حسن و جمال سے محروم ہورہا ہے ۔اس قصبہ کو جازب نظر بنانے والا دریائے جہلم سب سے زیادہ توجہ کا طالب ہے ۔اس دریا کی وجہ سے قصبہ بارہمولہ دو حصوں میں منقسم ہے ۔اولڈ ٹائون(شہرخاص) اور سول لائنز۔ان دونوں حصوں کو ملانے کے لئے دریائے جہلم پر ۵ پُل تعمیر کئے گئے ہیں ۔ان میں سیمنٹ پُل اپنی لمبائی لور اونچائی کی وجہ سے قابل دید ہے مگر اہلیان بارہمولہ نے اسے ایک پارکنگ یارڑ میں تبدیل کردیا ہے ۔دن بھر اس پُل پر گاڑیاں کھڑی کرکے لوگ چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ کچھ حضرات پُل کے دونوں طرف بنے فٹ پاتھ پر بھی گاڑیوں کو پارک کرکے راہگیروں کے لئے چلنا محال بنا رہے ہیں ۔ دریائے جہلم قدیم زمانے سے ہی ماحولیاتی توازن کی بقا کے علاوہ کشمیر کے معاشی نظام کو مستحکم بنانے کا اہم ذریعہ رہا ہے ۔ویری ناگ سے بارہمولہ تک ۱۲۲میل طویل ماحولیاتی اور تمدنی میراث کا حامل یہ دریا چند دہائیوں تک کاروباری طبقہ کے لئے آبی ٹرانسپورٹ کا واحد ذریعہ تھا ۔لیکن گزشتہ ۳۰ سال کے دوران یہ دریاگندگی اور انسانی و حیوانی فضلہ کا رہگزر بنا ہوا ہے ۔دوسرے علاقوں کے ساتھ ساتھ بارہمولہ میں بھی دریائے جہلم اپنی قسمت کا رونا رو رہا ہے ۔اس بات کا ثبوت خواجہ باغ سے لے کر کھادنیار تک دریا کے دونوں کناروں کا مشاہدہ کرکے بخوبی حاصل کیا جاسکتا ہے ۔قصبہ کے دونوں حصوں سے انسانی و حیوانی فضلہ نالیوں کے ذریعہ جہلم میں جمع ہوجاتا ہے ۔اسکے علاوہ پالیتھین اور کوڑا کرکٹ کے ڈھیر جہلم کے دونوں کناروں پر جمع کرنا باشندگان بارہمولہ نے اپنا پیدائشی حق سمجھ لیا ہے ۔پچھلے سال تک مُرغ فروخت کرنے والے دوکاندار ،گوشت فروخت کرنے والے قصاب اور میونسپلٹی کے صفائی کرمچاریوں نے جہلم کے دونوں کناروں کو بد سے بد صورت بنانے کا جیسے تہیہ کرلیا تھا ۔مرغوں کا بچا کھچا ،ذبح کئے گئے جانوروں کی ہڈیاں اور خون ،سڑکوں پر جمع شدہ کوڑا کرکٹ سارے کا سارا یا تو دریا بُرد کیا جاتا تھا یا دریا کے کناروں پر ڈالا جاتا تھا جس کی وجہ سے دریا کے کناروں پر آوارہ کتوں کی ایک اچھی خاصی فوج ہر وقت دیکھی جاسکتی تھی ۔