۱۳ فروری کی شب میں جب ٹریول ایجنٹ سے معلوم کیا کہ کیا یہ ٹکٹ آگے بڑھ سکتا ہے تو انھوں نے بتایا کہ یہ گروپ ٹکٹ ہے یہ نہ تو آگے بڑھ سکتا ہے اور نہ ہی پیسہ واپس ہو سکتا ہے۔ اگر آپ کو جانا ہے تو اسی پر جانا ہے ورنہ یہ ضائع ہو جائے گا۔ بہت غور خوض اور صلاح و مشورے کے بعد یہ طے پایا کہ ۱۷؍ فروری کا ٹکٹ لے لیا جائے۔ نقصان تو ہو رہا ہے لیکن چونکہ ابھی جانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اس لیے موخر کرنا بہتر ہوگا۔ وائرل بخار کو ایک ہفتے سے کچھ زائد ہو گیا ہے، اس لیے خیال ہے کہ شائد اب نہ آئے۔ ۱۵؍ فروری کو معلوم ہوا کہ ٹکٹ بن گیا ہے اور ۱۷ ؍کی شام کو ساڑھے چھ بجے کی فلائٹ ہے۔ کمزوری کی وجہ سے جانے کی ہمت نہیں لیکن اللہ کا نام لے کر کمر ہمت کسی اور ۱۷ فروری بروز جمعہ جانے کا پختہ ارادہ کر لیا۔ یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ چونکہ ہم قافلے سے بچھڑ گئے ہیں ،اس لیے دشورایوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کے لیے بھی تیار ہو گئے۔ پروگرام یہ بنایا گیا کہ ہم مکہ مکرمہ پہنچ کر گروپ میں شامل ہو جائیں گے اور پھر اس کے ساتھ مدینہ شریف جائیں گے لیکن جب ٹکٹ آیا تو وہ مکہ مکرمہ کے بجائے مدینہ منورہ کا نکلا۔ ٹکٹ کے ساتھ ساتھ مدینہ میں ایک دوسرے ہوٹل ’’محبوب الطیبہ‘‘ میں ایک روزہ قیام کا بھی انتظام کیا گیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ اگر ہم مکہ جاتے ہیں تو ۱۸ ؍کی صبح کو پہنچیں گے اور جو ہمارا گروپ ہے وہ اسی روز مدینہ شریف کے لیے نکل جائے گا۔ ۱۵ ؍فروری کو پھر بخار نے دبوچ لیا لیکن اب ہم نے یہ طے کر لیا کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے اب جانا ہی جانا ہے۔ دل نے جب پختہ ارادہ کر لیا تو طبیعت بھی بہتری کی طرف مائل ہو گئی لیکن بہر حال ایسی نہیں ہوئی کہ جسے اچھی کہا جائے۔
وہ لمحہ آگیا
لیجیے ۱۷ فروری کی تاریخ بھی آگئی۔ اس کے ساتھ ہی وہ لمحہ بھی آگیا جب ہم عمرہ کی ادائیگی کی غرض سے سوئے حرم روانہ ہوئے۔ نماز جمعہ سے فراغت کے بعد دو بجے ائرپورٹ کے لیے گھر سے نکلے۔ بچوں نے ائرپورٹ پر الوداع کہا اور ہم اپنا سامان لے کر سعودی ائرلائنس کے کاونٹر کی طرف بڑھ گئے۔ کاؤنٹر پر بیٹھی خاتون ملازمہ نے بڑی نرمی سے ہماری اہلیہ سے کہا کہ نقاب ہٹا کر اپنا چہرہ دکھا دیں۔ اس کی درخواست پر عمل کیا گیا۔ وہاں سے فراغت کے بعد امیگریشن کی قطار میں کھڑے ہو گئے۔ ہم جس کاونٹر پر پہنچے وہاں ایک ادھیڑ عمر کا شخص پاسپورٹ پر اسٹیمپنگ کر رہا تھا۔ وہاں بیٹھنے والے لوگ کس قدر تجربہ کار اور مردم شناس ہو جاتے ہیں، اس کا اندازہ ہوا۔ اس نے نرم روی سے پوچھا ’’عمرہ کرنے جا رہے ہیں‘‘۔ ہم نے اثبات میں جواب دیا۔ حالانکہ ہم نہ تو احرام میں ہیں اور نہ ہی کوئی دوسری شناخت ہے۔ پھر سیکورٹی چیک ہوا۔ اس طرح ہم تمام قسم کے مرحلوں سے گزر کر بالآخر آزاد ہو گئے اور اب ہمیں گیٹ نمبر پندرہ پر جانا ہے جہاں سے ہم سعودی ائرلائنس میں سوار ہوں گے۔ ہم لوگ ساڑھے چار بجے کے آس پاس اس گیٹ پر پہنچ گئے۔ چونکہ ابھی بورڈنگ میں کافی وقت ہے اس لیے چند افراد ہی بیٹھے ہیں۔ رفتہ رفتہ لوگوں کی آمد شروع ہوئی اور مسلم مسافروں کی تعداد بڑھنے لگی۔ برقع پوش خواتین بھی بڑی تعداد میں آگئیں۔ ہم نے یہی سمجھا کہ یہ سب لوگ بھی مدینہ جا رہے ہیں۔ طبیعت ابھی بھی بہتر نہیں ہے۔ رہ رہ کے سردی لگ رہی ہے لیکن یہ سردی ان شاء اللہ اب ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی کیونکہ مقدس سرزمین پر حاضری دینے کے خیال نے دل و دماغ کو انتہائی فرحت بخش دی ہے۔ ہم خیالوں میں مگن ہیں۔ کہنے کو تو ہم نئی دہلی کے ایئرپورٹ پر بیٹھے ہیں لیکن غائبانہ طور پر یا عالم ِتصور میں حجاز مقدس میں چہل قدمی کر رہے ہیں۔ بہر حال بورڈنگ کا وقت آگیا اور ہم لوگ جہاز میں سوار ہو گئے۔
ارے یہ کیا؟
تمام ائرہوسٹس نے اگر چہ پینٹ شرٹ پہن رکھی ہے لیکن ان کا پورا جسم ڈھکا ہوا ہے۔ وہ انگریزی کے ساتھ ساتھ ہندوستانی بھی بول رہی ہیں۔ ساڑھے چھ بجے طیارے نے پرواز بھری۔ اس سے قبل اناونسر نے سفر کی دعا پڑھائی۔ یہ دعا سامنے کی نشست پر لگے ایک چھوٹے سے اسکرین پر بھی لکھی ہوئی نظر آئی۔ ہم نے ہندوستانی وقت کے حساب سے پرواز کی تھی لیکن جہاز مقامی وقت کے مطابق رات میں ساڑھے نو بجے ریاض کے ائرپورٹ پر اتر گیا۔ ہمارے ٹکٹ پر اس کا کوئی اندراج نہیں ہے کہ جہاز راستے میں رکے گا۔ اس لیے گھبراہٹ ہوئی۔ ہمیں بتایا گیا تھا اور ٹکٹ پر بھی درج ہے کہ جہاز رات میں ساڑھ گیارہ بجے مدینہ منورہ کے ائرپورٹ پر اترے گا۔ ہم نے اپنے پڑوسی مسافر سے جو کہ اتر پردیش کے بریلی کا باشندہ ہے، اس بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ اسے ریاض میں بھی رُکنا ہے۔ وہ اور وہ دوسرے بہت سے مسافر بھی جن کو ہم نے مدینہ کے راہی سمجھا تھا یہاں اُترنے لگے۔ تمام برقعہ پوش خواتین بھی اترنے لگیں۔ اسی اثنا میں اس اعلان نے ہمیں مطمئن کر دیا کہ ریاض کے مسافر یہاں اتریں گے اور جن مسافروں کو ہمارے ساتھ مدینہ جانا ہے وہ براہ کرم اپنی نشستوں پر تشریف رکھیں۔ جہاز یہاں ایک گھنٹہ رکے گا۔ ہم لوگوں کی سیٹ آگے کی طرف ہے۔ اب جو دیکھا تو آگے کا پورا حصہ خالی ہو گیا ہے۔ بس اکا دکا چند لوگ ہی بچے ہیں لیکن اٹھ کر ذرا ٹہلنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ پچھلے حصے میں کافی لوگ بیٹھے ہیں جن میں بہت سے احرام میں ملبوس ہیں اور بہت سی خواتین احرام والے اسکارف اوڑھے ہوئے ہیں۔ ایک گھنٹہ رک کر جہاز نے ساڑھے دس بجے پھر پرواز بھری اور مقامی وقت کے مطابق ساڑھے گیارہ بجے مدینہ منورہ کے ایئرپورٹ پر اتر گیا۔ جہاز رکنے کے پانچ سات منٹ بعد ہم نے مدینہ کی سرزمین پر قدم رکھا اور روحانی لذتوں سے ہمکنار ہوئے۔ ان لذتوں نے ہمیں سرشار کر دیا۔ جہاز میں سے نکل کر جب سیڑھیوں کے ذریعے نیچے اترنے کی کوشش کی تو شدید سرد ہواؤں نے ہمارا استقبال کیا اور پورا جسم ہل کے رہ گیا۔ جو بس وہاں موجود تھی وہ فوراً بھر گئی۔ ہم لوگوں کو دوسری بس میں جگہ ملی۔ بس سے اتر کر ائرپورٹ کی عمارت میں داخل ہوئے۔ یہاں بڑا سناٹا سا لگ رہا ہے۔،بعد میں لوگوں نے بتایا کہ یہ چھوٹا ائرپورٹ ہے، زیادہ تر مسافر جدہ کے راستے آتے جاتے ہیں۔
خوشگوار حیرت
ہم لوگوں کو ائرپورٹ کے اندر بنے کاؤنٹروں کے سامنے قطار میں کھڑا کر دیا گیا۔ ایک ایک مسافر نے اپنا امیگریشن کرایا۔ دہلی کے ایئرپورٹ کے مقابلے میں یہاں بڑی خاموشی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ہم کسی ایئرپورٹ پر نہیں بلکہ کسی الگ تھلگ مقام پر کھڑے ہو کر امیگریشن کروا رہے ہیں۔ امیگریشن والے انگلیوں کے نشانات اور آنکھوں کی تصویر لے رہے ہیں اور پاسپورٹ پر اسٹیمپ لگا رہے ہیں۔ مشین پر نوجوانوں کی انگلیوں کے نشان بہت جلد ثبت ہو جاتے ہیں جب کہ معمر افراد کے نشان جلدی اپنا نشان نہیں چھوڑتے۔ کاؤنٹر پر بیٹھے نوجوان نے عربی آمیز انداز میں بار بار ہمیں ہدایت دی کہ دباؤ، دباؤ یعنی اپنی انگلیوں کو زور سے دباؤ۔ ہم تو کسی طرح فارغ ہو گئے لیکن ہماری اہلیہ کو جو دوسرے کاونٹر پر تھیں زیادہ وقت لگ رہا ہے۔ ہم فارغ ہو کر وہاں پہنچ گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ جو نوجوان انگلیوں کے نشان لے رہا ہے اس نے ہماری اہلیہ کی الٹی ہتھیلیوں پر اسی کے برابر ایک کاغذ جو کئی تہوں میں مڑا ہوا ،ہے رکھے انگلیوں پر اپنا دباؤبنا رہا ہے۔ شاید وہ ایسا اس لیے کر رہا تھا کہ کسی غیر محرم کی انگلیاں اس کی انگلیوں سے مس نہ کر جائیں۔ یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی اور اچھا بھی لگا۔ یہاں سے نکل کر ہم اس جگہ آئے جہاں سامان آرہا تھا۔ اپنا سامان لے کر مشین سے گزارتے ہوئے جب ہم آگے آئے تو دیکھا کہ عملے کے ایک شخص نے ایک مسافر کا بیگ کھلوا رکھا ہے جس میں سے اس نے کئی شیشیاں نکال کر میز پر رکھی ہوئی ہیں۔ در اصل سعودی عرب میں منشیات کا لے جانا ممنوعہ ہے۔ ایسی بہت سی چیزیں بھی آپ نہیں لے جا سکتے جو کسی بھی طرح اس کے زمرے میں آتی ہوں۔ یہاں یہ ذکر کر دینا مناسب ہوگا کہ جب ہم دہلی ائرپورٹ پر اپنا سامان دے رہے تھے تو کاؤنٹر پر بیٹھی خاتون نے ہم سے پوچھا تھا کہ سامان میں پستہ وغیرہ تو نہیں ہے۔ بہت سے لوگ تمباکو اور گٹکا وغیرہ بھی لے جاتے ہیں جب کہ وہ بھی ممنوعہ ہے۔
دل فریب مناظر
جب ہم سوا بارہ بجے باہر پہنچے تو مولانا محمد شعیب کو اپنا منتظر پایا۔ ان کے ہمراہ ہمارے ہی گاؤں کے مولانا محمد افضل اور مولانا شعیب کے چھوٹے بھائی محمد اشرف بھی موجود ہیں۔ ان لوگوں سے مل کر جو خوشی ہوئی وہ ناقابل بیان ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ رہی کہ ہمارے ٹریول ایجنٹ نے بتایا تھا کہ مدینہ ائرپورٹ پر اترنے کے بعد آپ شگادیف ٹریول کی بس تلاش کیجیے گا۔ اس کمپنی سے ہی ہمارا معاہدہ ہے اور اس کی کوئی نہ کوئی بس وہاں ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ اس کو اپنے کاغذات دکھائیے گا وہ آپ کو آپ کے ہوٹل چھوڑ دے گی۔ ہم اس تردد میں تھے کہ رات کا وقت، اجنبی ملک، نامانوس زبان کہاں نکل کر بس کو تلاش کریں گے۔ حالانکہ مولانا شعیب نے ہمیں بتا دیا تھا کہ ہم ائرپورٹ پر موجود رہیں گے۔ اس کے باوجود دلِ مضطرب کو چین نہیں تھا۔ وہاں دیکھا کہ بہت سے لوگ آآکر سیارہ سیارہ پوچھ رہے ہیں۔ مولانا شعیب نے بتایا کہ یہ ٹیکسی کے بارے میں پوچھ رہے ہیں کہ چاہیے یا نہیں۔ جب ایک ٹیکسی والے سے مولانا شعیب نے کہا کہ ہمارے پاس سیارہ ہے تو اس نے ان کے منحنی سے جسم کو از راہ استہزا ء دیکھا اور کچھ کہتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔ ہم نے پوچھا کہ یہ کیا کہہ رہا ہے تو انھوں نے ہنستے ہوئے بتایا کہ وہ طنز آمیز انداز میں کہہ رہا ہے ’’اچھا تمھارے پاس بھی سیارہ ہے‘‘۔ اسی درمیان میں مولانا محمد افضل اپنی گاڑی لے کر آگئے اور ہم لوگ مولانا شعیب کے گھر کے لیے روانہ ہو گئے۔
رات کا وقت، مدینہ منورہ کی خوبصورت سڑکیں اور چکا چوندھ کر دینے والی لائٹیں۔ طبیعت پر ایک روحانی کیفیت طاری ہو گئی۔ تمام تر جسمانی کلفتیں دور ہو گئیں۔ مزاج میں خوشگواری آگئی۔ کچھ دور چلے تو ہری روشنی والے بڑے ہی خوبصورت منارے نظر آئے۔ اس سے پہلے کہ ہم کچھ پوچھتے مولانا شعیب نے بتایا کہ وہ دیکھیے مسجد نبویؐ کے دل فریب منارے نظر آرہے ہیں۔ بڑا خوش رنگ منظر ہے۔ طبیعت یہی چاہتی ہے کہ مسجد نبویؐ کے زیر سایہ رک کر کچھ دیر تک اُسے دیکھتے رہیں لیکن چونکہ راستہ اس سے کچھ فاصلے پر ہے اور اس کے قریب جانے کی گنجائش نہیں اس لیے دل مسوس کر رہ گئے۔ پھر اس خیال نے دل کو تسلی دی کہ کل دن میں مسجد نبوی کی زیارت تو کرنی ہی ہے۔ اشتیاق کا یہ عالم ہے کہ آج اور اسی وقت زیارت کر لی جائے لیکن ہمارے میزبان ایک ڈیڑھ گھنٹے سے ائرپورٹ پر ہمارا انتظار کر رہے تھے اور ادھر مولانا شعیب کے بچے گھر پر منتظر ہیں۔ اس لیے دل کو تسلی دیتے ہوئے ہم آگے بڑھ گئے۔ اس طرح وہ وسوسے اور اندیشے دور ہو گئے جو ہماری بیماری سے بار بار پیدا ہو رہے تھے۔ بالآخر قسمت نے یاوری کی اور ہم اس مقدس سرزمین پر پہنچ گئے جس کو دوبارہ دیکھنے کا خواب اپنے دل میں ایک عرصے سے پالے ہوئے تھے۔
(باقی باقی)