مدینہ منورہ میں ہماری پہلی صبح کا آغاز عالم اسلام کی ایک معروف اور مقتدر علمی شخصیت الشیخ دکتور عبد الباری بن فتح اللہ المدنی سے خوشگوار ملاقات سے ہوا۔ وہ مولانا محمد شعیب کے گھر ناشتے پر آئے تھے۔ وہ تقریباً ۲۳ برسوں تک ابو ظہبی امارات میں تدریسی خدمات انجام دے چکے ہیں اور اب جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ میں تقریباً آٹھ سال سے استادِ حدیث ہیں، کئی کتابوں کے مصنف ہیں، علامہ البانی سے بہت متاثر ہیں، علوم حدیث میں زبردست درک رکھتے ہیں، وہ ہندوستانی ہیں، ان کا وطن موضع دریاباد ضلع سنت کبیر نگر اتر پردیش ہے۔ سعودی عرب میں جو لوگ ان کے وطن اور شہریت سے واقف نہیں اور ان کے درس میں حاضر ہوتے ہیں وہ انہیں عرب سمجھتے ہیں۔ بہت سے عرب بھی انہیںعرب ہی سمجھتے ہیں۔ جب انہیں پتہ چلتا ہے کہ وہ عجمی ہیں اور ہندوستان سے تعلق رکھتے ہیں تو محو حیرت ہو جاتے ہیں۔ اس سے قبل بھی ان سے میری کئی ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ مدینہ منورہ کی ملاقات میں علاقائی، ملکی اور بین الاقوامی حالات پر ان سے کھل کر گفتگو ہوئی۔
خوبصورت میوزیم کا دیدار
شیخ عبد الباری کے رخصت ہونے کے بعد عزیزم مولانا شعیب نے کہا کہ یہیں ہمارے گھر کے قریب مسجد ترکی اور ریل میوزیم ہے،کیوں نہ چل کر دیکھ لیا جائے۔ ہم لوگ فوراً روانہ ہو گئے۔ چند قدم کے فاصلے پر مسجد ترکی موجود ہے۔ وہ ترک دور حکومت میں تعمیر ہوئی تھی اسی لیے اس کا نام مسجد ترکی ہے۔ پتھروں سے تعمیر کی گئی یہ چھوٹی سی مسجد بہت خوبصورت ہے اور وہاں موجود دوسری عمارتوں میں ایک امتیازی شان رکھتی ہے۔ اسی کے برابر سے مسجد نبوی کے نیچے واقع کار پارکنگ تک جانے کا راستہ بھی ہے۔ اسی لیے یہاں زبردست ٹریفک رہتا ہے۔ یہ جگہ عنبریہ کہلاتی ہے۔ مسجد ترکی دیکھنے کے بعد ہم قریب میں واقع میوزیم دیکھنے گئے۔ یہ میوزیم در اصل ترک دور حکومت میں ریلوے اسٹیشن تھا۔ وہیں اس عمارت کے پس پشت ریل کی پٹری بھی موجود ہے۔ سیاہ رنگ کا ایک ڈبہ بھی کھڑا ہے لیکن اس میوزیم میں ریلوے کی اشیا ء محفوظ نہیں کی گئی ہیں بلکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک او ران کے بعد کے ادوار کی بہت سی اشیا ء محفوظ کر دی گئی ہیں جس جگہ ریلوے اسٹیشن تھا ،اسی جگہ ایک خوبصورت عمارت تعمیر کرکے اسے میوزیم کی شکل دی گئی ہے۔
دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی پہلے ایک بے حد خوبصورت ماڈل پر نظر پڑتی ہے جو اسی عمارت کا ہے۔ گراؤنڈ فلور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی پتھروں کی بہت سی اشیاء رکھی ہیں۔ انہی میں اس دور کی ایک چکی بھی ہے جو خاصی بڑی اور موٹی ہے۔ پہلی منزل پر پہنچے تو ہاں بہت سے کمروں میں تلواریں، بندوقیں اور بہت سے آلات ِحرب و ضرب سجے ہوئے ہیں۔ ایک کمرے میں پیتل کا بنا ہوا ایک خوبصورت سا برنر ہے جو ایک گول طشت میں فٹ ہے۔ اس کے اوپری گول حصے میں بہت سے سوراخ ہیں۔ یہ برنر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے میں خوشبو بکھیرنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ ایک دوسرے کمرے میں ایک اسٹینڈ پر پیتل کا بنا Astrolab (اصطرلاب) رکھا ہوا ہے۔ یہ ایک مشینی گھڑی ہے۔ لغت کے اعتبار سے اصطرلاب ایک ایسا آلہ ہوتا ہے جس کی مدد سے سورج اور ستاروں کا سمندر سے ارتفاع معلوم کیا جاتا ہے۔ آسان زبان میں کہیں تو اس مشینی گھڑی سے وقت کا تعین کیا جاتا تھا۔ اس کے برابر اور نیچے صراحیاں رکھی ہوئی ہیں جن سے مسجد نبویؐ میں آنے والے مہمانوں کو پانی پلایا جاتا تھا۔ برابر میں ایک اور اسٹینڈ پر ایک بڑا سا مثلث یا Tranguler رکھا ہوا ہے۔ اس کا بھی استعمال وقت معلوم کرنے کے لیے کیا جاتا تھا۔ دنوں اور مہینوں کا حساب لگانے کے لیے ایک مینؤل کیلنڈر بھی سجا ہوا ہے۔ اس میں سات چرخیاں لگی ہوئی ہیں اور ہر چرخی میں دن اور مہینے لکھے ہوئے کاغذات لپٹے ہوئے ہیں۔ کاغذ ایک چرخی سے نکل کر دوسری چرخی میں لپٹ رہا ہے۔ ان پر دن اور مہینے ہاتھ سے لکھے ہوئے ہیں۔ پلاسٹک کے ایک چھوٹے سے بکس میں خلفائے راشدین ؓکے زمانے کے درہم رکھے ہوئے ہیں۔ یہ تیسرے خلیفہ حضرت عثمان بن عفان ؓسے منسوب قرآن کریم کا ایک نسخہ ہے جو ہاتھ سے لکھا ہوا ہے۔یہ فوٹو کاپی ہے۔ اس کا اصل نسخہ استنبول کے ایک میوزیم میں رکھا ہوا ہے۔ یہ کچھ اور سکے ہیں، کچھ پیالیاں ہیں، کچھ کٹورے ہیں۔ انہی میں خوشبو اکٹھا کرنے کے برتن بھی ہیں۔ یہ حضرت عثمان بن عفان ؓکے دور کی تلوار اور ڈھال ہے۔ یہیں پر آٹھویں ہجری کی اشیا بھی رکھی ہوئی ہیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدینؓ کے علاوہ بعد کے ادوار کے لباسوں کے نمونے بھی موجود ہیں جن میں خواتین کے بہت سے لباس ایسے ہیں جن پر کشیدہ کاری کی گئی ہے۔ موجودہ دور کے بھی کچھ لباس الماریوں میں سجے ہوئے ہیں۔ مجموعی طور پر اس میوزیم میں قدیم و جدید کی اشیا بڑے ہی سلیقے سے رکھی ہوئی ہیں جو سیاحوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرتی ہیں۔
ہمیں دلی ہی میں گروپ لیڈر مسٹر سعد کا سعودی عرب کا نمبر دے دیا گیا تھا۔ ۱۸؍ فروری کی صبح کو ہم نے ان سے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے بتایا کہ قافلہ دو بجے ہوٹل سما الماسی پہنچ جائے گا جو کہ مسجد نبویؐ سے بالکل متصل ہے۔ ہم لوگ تین بجے ہوٹل پہنچے۔ قافلہ موجود ہے مگر ابھی کمرے نہیں ملے ہیں۔ وہاں پہلے سے ہی کوئی گروپ قیام پذیر تھا جو اب نکل کر جا رہا ہے۔ اس کے بعد صفائی وغیرہ کے بعد کمروں میں شفٹ کیا جائے گا۔ ہوٹل میں کمرہ ملتے ملاتے شام کا وقت ہو گیا۔ سامان رکھ کر مسجد نبویؐ گئے جہاں مغرب اور عشا کی نماز ادا کی گئی۔ یہ رات ہم نے ہوٹل میں گزاری۔ ہمارے کمرے میں ایک جوڑا اور ہے جو پرانی دہلی سے تعلق رکھتا ہے۔ دونوں نوجوان ہیں۔ ان کے نام شان اور اسماء ہیں۔ شان مٹیا محل جامع مسجد کی مشہور مٹھائی کی دکان ’’کلن سویٹس‘‘ والوں کے بیٹے ہیں۔
یہ بھی اللہ کی شان ہے
یہاں یہ عرض کر دینا مناسب ہوگا کہ ہمارا گروپ جو مکہ ہوتا ہوا مدینہ آیا ہے، اس نے عمرہ کر لیا ہے لیکن چونکہ ہم مکہ کے بجائے مدینہ آئے ہیں ،اس لئے ہمارا ایک عمرہ چھوٹ گیا ہے۔ ہم گھر سے جب چلے تھے تو یہی سوچ کر چلے تھے کہ چونکہ ہم تین روز لیٹ نکلے ہیں، اس لئے جہاں باقی سب لوگ دو دو عمرہ کریں گے، وہیں ہمارا ایک ہی عمرہ ہوگا۔ ہم قسمت پر شاکر تھے کہ جو لکھا ہے وہی ہوگا۔ یہی کیا کم ہے کہ ہم ایک عمرہ تو کر لیں گے لیکن تقدیر کا کچھ اور فیصلہ تھا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اس عمرے سے بھی محروم رکھنا نہیں چاہتا تھا۔ چناںچہ عزیزم شعیب نے بتایا کہ جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ ہمارا ایک ہی عمرہ ہوگا تو اسی وقت انہوں نے مکہ جانے اور عمرہ کرنے کا پلان بنا لیا تھا۔ ۱۹ تاریخ کو مسجد نبوی ؐمیں ظہر کی نماز ادا کی گئی اور اس کے بعد مولانا شعیب کے گھر روانہ ہو گئے۔ ان کے یہاں ہمارے ہی گاؤں کی ایک لڑکی بھی ٹھہری ہوئی ہے جو ہمارے پڑوسی مولانا عزیز اللہ کی بیٹی ہے۔ اس کا شوہر شاہ فیصل مدینہ میں سروس کرتا ہے۔ اس نے اسے عمرہ پر بلایا ہے۔ نماز مغرب کے کچھ دیر بعد یعنی تقریباً ساڑھے سات بجے ہم لوگ احرام باندھ کر عمرہ کے لیے نکلے۔ اس قافلے میں ہم، ہماری اہلیہ، مولانا شعیب، ان کی اہلیہ اور ان کے دو چھوٹے بچے تقریباً چار سال کی بیٹی شفق اور تقریباً دو سال کا بیٹا فواز اور شاہ فیصل اور ان کی بیوی ،یعنی بچوں کو لے کر آٹھ افراد کا یہ چھوٹاسا قافلہ روانہ ہو گیا۔ شاہ فیصل نے ایک بڑی گاڑی کرائے پر لے لی ہے۔ چونکہ وہ ڈرائیور ہیں، اس لیے بغیر ڈرائیور کی گاڑی لی۔ وہ خود ڈرائیو کر رہے ہیں۔ یہاں سے نکل کر ہم لوگ میقات پہنچے یعنی ذوالحلیفہ جسے اب ابیار ِعلی کہتے ہیں۔ وہاں انتہائی بڑی اور خوبصورت مسجد میںعشا ء کی نماز ادا کی گئی اور عمرہ کی نیت کرکے رات میں سوا آٹھ بجے مکہ کے لیے روانگی ہو گئی۔ مسجد کے پاس بہت سی دکانیں ہیں جو عمرہ کے لیے ضروری ساز و سامان فروخت کرتی ہیں۔ ہم لوگ رات کے تقریباً ساڑھے بارہ بجے مکہ میں داخل ہو گئے۔ مسجد عائشہ کے پہلے سے ہی حرم شریف کا فلک بوس کلاک ٹاور( مکہ ٹاور) نظر آنے لگا۔ اسے دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ہم حرم شریف کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ وہاں سے لے کر حرم شریف تک پہنچنے میں کئی بار ٹاور نظر آتا ہے۔ کبھی دائیں تو کبھی بائیں اور کبھی سامنے۔ ایک بجے کے آس پاس ہم لوگ حرم شریف کے قریب پہنچ گئے۔ ایک جگہ گاڑی پارک کرکے قریب میں واقع ایک ہوٹل میں جاکر ایک بڑا سا کمرہ لیا گیا جس میں پانچ بیڈ تھے۔ وہاں سامان وغیرہ رکھنے کے بعد کمرے میں آویزاں ٹی وی پر دیکھا کہ حرم شریف میں طواف کا منظر لائیو آرہا ہے اور بہت کم بھیڑ ہے۔ ہم لوگ اسی وقت حرم کے لیے نکل گئے۔
عجیب و غریب کیفیت
ہم صفا کی طرف سے ملک عبد العزیز گیٹ سے حرم شریف میں داخل ہوئے۔ تھوڑی دور چلے کہ خانہ کعبہ نظر آگیا۔ ہم لوگوں نے دعائیں پڑھنی شروع کر دیں۔ خانۂ کعبہ پر پہلی نظر پڑتے ہی دل کی عجیب حالت ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس پر پہلی نظر پڑتے ہی جو دعا مانگی جائے وہ مستجاب ہوتی ہے لیکن اس سادہ سے مکان میں جانے کیا دنیا بھر کی کشش رکھی ہے کہ پہلی بار اس کو دیکھتے ہی زائرین اپنے ہوش و حواس کھو دیتے ہیں۔ دعائیں بھول جاتے ہیں اور ایک عجیب و غریب کیفیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ہم لوگوں کی بھی عجیب کیفیت رہی۔ کعبہ کے اوپر مزین سیاہ غلاف میں ایسا جادو ہے کہ نگاہیں وہیں ٹھہر جاتی ہیں۔ دل و دماغ دنیا و ما فیہا سے بے خبر ہو جاتے ہیں۔ کچھ دیر کے بعد حواس دُرست ہوتے ہیں اور زائرین سنبھل پاتے ہیں۔ رات کے دو بجے ہیں۔ طواف کرنے والے بہت کم ہیں۔ ہم لوگوں نے بھی طواف کا آغاز کیا۔ دو ننھے بچے بھی ہم لوگوں کے ساتھ طواف کر رہے ہیں۔ وہاں تین تین پانچ پانچ سال کے بچے بھی احرام میں دکھائی دیتے ہیں جو اپنے والدین کی انگلیاں تھامے طواف اور سعی میں مشغول نظر آتے ہیں۔ دو سفید چادروں میں ملبوس یہ بچے بڑے ہی دلکش اور پیارے معلوم ہوتے ہیں۔ بالکل ایسا لگتا ہے کہ جیسے ننھے فرشتے حرم شریف میں اُتر آئے ہیں اور انسانوں کے درمیان آکر وہ بھی طواف کر رہے ہیں۔ ۲۵ ؍منٹ میں ساتوں شیوط مکمل ہو گئے۔ اسی دوران مقام ابراہیم کے پاس کھڑے ہو کر ہم لوگوں نے اس کے اندر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے نشان دیکھے۔ وہ نشان اس پتھر پر ثبت ہیں جس پر کھڑے ہو کر انہوں نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی تھی اور جو شیشے کے خول میں بند ہے۔ ہم نے مقام ابراہیم کے سامنے دو دو رکعت نماز ادا کی۔ آب زم زم سے سیراب ہوئے اور پھر سعی کے لیے چل پڑے۔ گراؤنڈ فلور سے سعی کی گئی۔ یہاں بھی بہت کم لوگ ہیں۔ البتہ کبھی کوئی گروپ آجاتا ہے تو ہلچل سی مچ جاتی ہے۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے میں سعی مکمل ہو گئی۔ جب ہم مروہ کی جانب سے نکلنے لگے تو دیکھا کہ ایک شخص سعی مکمل کر لینے والوں کے بال چٹکی سے پکڑ کر قینچی سے کاٹ رہا ہے۔ ایک چٹکی آگے کے کاٹتا ہے، ایک چٹکی پیچھے، ایک دائیں، ایک بائیں۔ حالانکہ یہ دُرست نہیں ہے کیونکہ یا تو حلق کروانا ہوتا ہے یا پورے سر کے بال کو چھوٹا کروانا ( یعنی قصر کرنا) ہوتا ہے۔ خواتین انگلی کے ایک پور کے برابر بال کاٹتی ہیں۔ اس ننھے سے قافلے میں دو چھوٹے بچے بھی ہیں جو تھک گئے ہیں۔ اس لیے سوچا گیا کہ ہوٹل چلیں اور آرام کریں۔ حرم شریف سے باہر نکلے تو ایک باریش شخص جس کی عمر یہی کوئی تیس بتیس سال رہی ہوگی، ہم لوگوں کو احرام میں دیکھ کر ہمارے قریب آیا۔ اس نے پوچھا کہ حجام چاہیے۔ ہم لوگوں نے اثبات میں جواب دیا۔ اس نے کہا کہ میرے ساتھ آئیے، میں حجام کے پاس لے چلتا ہوں۔ اس سے پوچھا گیا کہ تین لوگوں کے بال کاٹنے کے کتنے پیسے لو گے۔ اس نے کہا تیس ریال۔ بہر حال وہ پچیس ریال پر تیار ہو گیا۔ وہ بالکل باہر نکل کر سامنے والے مارکیٹ میں ہمیں لے گیا۔ صبح کے چار بج گئے ہیں اور کچھ دکانیں اب بھی کھلی ہیں جب کہ بیشتر بند ہیں۔ اس کی دکان پر پہنچے تو دیکھا کہ بہت سے بال کٹوانے والے موجود ہیں۔ میں نے حلق کروایا اور میرے دونوں ساتھیوں نے جو کچھ دن پہلے حلق کروا چکے تھے، بال چھوٹے کروائے۔ اس کے بعد ہم آرام کرنے کے لیے ہوٹل چلے گئے۔
(باقی باقی)