بارگاہِ الٰہیہ میں۔۔۔

Kashmir Uzma News Desk
18 Min Read
ان دونوں تالابوں کے بعد وہ پراسرار ’’وادیٔ جن‘‘ جس کا اصل نام وادیٔ بیضاء ہے، شروع ہو جاتی ہے۔اس وادی کے بارے میں متعدد کہانیاں مشہور ہیں۔ یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ اب ٹور آپریٹرس معتمرین کو اس وادی تک نہیں لاتے۔ کہا جاتا ہے کہ حکومت نے اس پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں پہنچ کر بہت سے لوگ بدعات و خرافات میں مصروف ہو جاتے تھے۔ البتہ لوگ پرائیوٹ گاڑیوں سے آتے ہیں۔ ہم مذکورہ تالابوں سے گزرتے ہوئے اس وادی میں داخل ہو گئے۔ تالابوں کے پاس سے ہی ہلکی سی ڈھلان شروع ہو جاتی ہے جو وادی کے عین وسط میں جاکر ختم ہوتی ہے۔ سڑک آگے تک گئی ہے اور وسطی حصے کے بعد ہلکی سی چڑھائی شروع ہو جاتی ہے۔ بس یہی علاقہ زائرین کی دلچسپی کا مرکز ہے۔ مقامی اور غیر مقامی افراد یہاں آتے ہیں اور شام کے وقت پکنک کا سماں ہوتا ہے۔ کوئی خاندان کہیں چادر بچھائے بیٹھا ہے تو کوئی کہیں چٹائی بچھائے بیٹھا ہے۔ ہم چونکہ دوپہر کے وقت پہنچے ہیں اس لیے بس چند گاڑیاں ہی ہیں۔ البتہ سڑک کی دونوں طرف آئس کریم کی گاڑیاں کھڑی ہیں۔
وادی جن یا وادی بیضاء
اس وادی کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں جن آباد ہیں۔ یہاں گاڑی کے انجن کو بند کرکے چھوڑ دیجیے تو گاڑی الٹی جانب جو کہ چڑھائی پر ہے اپنے آپ چلنے لگتی ہے اور اگر آپ گاڑی کا رخ موڑ کر جدھر سے آئے ہیں ادھر کر لیجیے تو گاڑی ازخود سو سوا سو کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے لگتی ہے۔ ہم نے بھی یہ تجربہ کیا۔ جب ہم یہاں پہنچے تو دیکھا کہ ایک شخص جو کہ فیملی سے آیا ہوا ہے وسطی حصے پر پانی گرا رہا ہے۔ یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ پانی نشیب کی طرف جانے کے بجائے چڑھائی کی طرف جا رہا ہے۔ ہمارے ڈرائیور شاہ فیصل نے کہا کہ میں آپ کو دکھاتا ہوں کہ ہماری گاڑی کس طرح پیچھے کی جانب چڑھائی پر اپنے آپ چڑھتی ہے۔ ہم گاڑی میں بیٹھے رہے۔ انہوں نے انجن بند کر دیا۔ پھر کیا دیکھتے ہیں کہ واقعی گاڑی پیچھے کی طرف رینگنے لگی۔ بہر حال کچھ دیر کے بعد ہم لوگوں نے واپسی کا قصد کیا۔ جب ہماری گاڑی یو ٹرن لے کر واپس جانے کو تیار ہوئی تو اس کے انجن کو بند کر دیا گیا۔ ڈرائیور نے دونوں پیر اپنی طرف سمیٹ لیے اور صرف اسٹیئرنگ کو سنبھالے رکھا۔ ہم نے دیکھا کہ گاڑی نے رینگنا شروع کیا اور رفتہ رفتہ اس کی اسپیڈ بڑھنے لگی جو بڑھ کر ایک سو بیس کلو میٹر فی گھنٹہ تک پہنچ گئی۔ یہ سلسلہ کئی کلومیٹر تک جاری رہتا ہے۔ اس بارے میں جیسا کہ بتایا گیا بہت سی کہانیاں مشہور ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ جنات نہیں چاہتے کہ یہاں انسان آئیں اور ٹھہریں۔ اسی لیے وہ گاڑیوں کو دھکا دے کر مدینہ کی طرف پہنچا دیتے ہیں۔ یہ وادی ایک پیالے کی طرح ہے اور جہاں پراسرار واقعہ انجام پاتا ہے وہ اس کی مرکزی جگہ ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ وادی انڈے کی شکل میں ہے۔ اسی لیے اس کا اصل نام وادی بیضاء ہے لیکن ہندوستانیوں اور پاکستانیوں نے اس کا نام وادی جن رکھ دیا ہے اور اب یہ وادی اسی نام سے مشہور ہے۔ 
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر گاڑیاں از خود کیسے چلنے لگتی ہیں؟ کیا واقعی جنات انہیں دھکیلتے ہیں؟ اس سلسلے میں ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ اس کا جنوں سے کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ یہاں کشش ثقل اس انداز کی ہے کہ گاڑی چڑھائی کی طرف اپنے آپ بڑھنے لگتی ہے۔ در اصل یہاں مقناطیسی پہاڑ (Magnetic Hills) ہیں۔ ان پہاڑوں کو گریویٹی ہلز  Gravity Hills بھی کہا جاتا ہے۔ یہی وہ سیاہی مائل پہاڑ ہیں جو نظروں کو دھوکے میں ڈالتے ہیں۔ اسی کی وجہہ سے ’’التباس بصارت‘‘پیدا ہوتی ہے۔ اس کو انگریزی میں  Optical illusion کہا جاتا ہے۔ فارسی میں اسے ’’خطائے دید‘‘ کہتے ہیں۔ یعنی ان پہاڑوں کی مقناطیسیت کے باعث اشیاء اپنی حقیقی صورت میں نظر نہیں آتیں اور وہ علاقہ فریبِ نظر پیدا کر دیتا ہے۔ نظروں کو فریب دینے والے یہ پہاڑ صرف وادی جن یا وادی بیضاء ہی میں نہیں ہیں بلکہ دنیا کے بہت سارے مقامات پر موجود ہیں۔ خود ہندوستان کے دو علاقوں میں ایسے پہاڑ ہیں۔ ایک لیہہ سے تقریباً 50 کلو میٹر دور سمندر سے گیارہ ہزار فٹ کی اونچائی پر موجود لیہہ کرگل سری نگر ہائی وے پر ہے اور دوسرا گجرات کے علاقہ تلسی شیام ضلع امریلی میں ہے۔یہ پہاڑ نظروں کو فریب میں مبتلا کردیتے ہیں اور سڑک کی ڈھلان کو اونچائی ظاہر کرتے ہیں۔ اس وادی کا بھی یہی معاملہ ہے لیکن کمزور عقائد کے لوگوں نے اسے جنات سے وابستہ کرکے بہت سی کہانیاں مشہور کر دی ہیں۔
کبھی مسجد نبویؐ  کبھی ہوٹل
اس دوران جب بھی موقع ملتا مسجد نبویؐ اور ہوٹل سما الماسی چلے جاتے۔ ہوٹل مسجد نبوی ؐکے باب السلام کی طرف ہے اور بالکل مسجد سے متصل ہے۔ اس کے سامنے کے ایک بڑی سی جگہ کو بھی مسجد میں شامل کر لیا گیا ہے لیکن ابھی اس میں نماز نہیں ہو رہی ہے۔ ابھی اس کی تزئین کاری کی جا رہی ہے۔ اس حصے اور مسجد کے درمیان گیٹ ہے۔ اسی حصے میں مسجد ابو بکرؓ اور مسجد غمامہ ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ مسجد غمامہ جہاں بنی ہے اس جگہ پر ایک بار اللہ کے رسول ؐنے نماز استسقا پڑھی تھی۔ جب کہ مذکورہ جگہ کے جنوب میں سڑک ہے جو مسجد نبویؐ میں لے جاتی ہے،وہیں ایک پتلا سا راستہ بھی ہے جو دوسری طرف سے ہوٹل سما الماسی کی طرف جاتا ہے۔ اس راستے پر چھوٹی چھوٹی دکانیں ہیں جہاں زائرین کے استعمال اور دلچسپی کی عام اشیا مل رہی ہیں۔ یہیں مسجد علیؓ ہے۔ اہل تشیع حضرات کی یہاں بھیڑ لگی رہتی ہے۔ ایام حج میں یہاں زیادہ اژدہام ہوتا ہے۔ ہوٹل میں جو کمرہ ہمیں ملا ہے اس کی کھڑکی سے مسجد نبویؐ سامنے نظر آتی ہے۔ شب میں بڑا ہی خوش رنگ منظر ہوتا ہے۔ مسجد ابوبکرؓ اور مسجد غمامہ کے برابر میں ایک سڑک ہے۔ اس کو عبور کیجیے تو سوق التمر یعنی کھجوروں کے بازار میں پہنچ جاتے ہیں۔ اس بازار میں جب بھی جائیے خریداروں کی بھیڑ رہتی ہے۔
چونکہ ہمارا قیام مسجد نبویؐ سے کچھ مسافت پر اپنے عزیز کے یہاں ہے اس لیے ہم عام طور پر دوپہر کے کھانے کے بعد مسجد نبویؐ میں آتے ہیں۔ عصر، مغرب اور عشا کی نماز ادا کرتے ہیں۔ اس کے بعد واپس جاتے ہیں۔ جب ہوٹل میں رات میں قیام کرتے ہیں تو ظاہر ہے نماز فجر بھی مسجد نبوی میں ادا ہوتی ہے۔ دوسرے روز ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روضۂ مبارک پر جاکر سلام پیش کیا۔ ریاض الجنہ میں نماز ادا کرنے کی خواہش پوری نہیں ہوئی۔ جب بھی گئے زبردست بھیڑ نے ہمارا استقبال کیا۔ چونکہ طبیعت بھی ٹھیک نہیں تھی اس لیے زیادہ جد و جہد کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ ایک روز ہمارے ایک دوسرے عزیز مولانا عبد الوحید نے ہمیں اپنے ساتھ لے جا کر اس میں داخل کرانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ عبد الوحید بھی جامعہ اسلامیہ میں زیر تعلیم ہیں۔ وہاں کے طلبہ کو مسجد نبویؐ میں کوئی چھوٹی موٹی ملازمت مل جاتی ہے۔ ان کی ڈیوٹی ایک بار ریاض الجنہ کے پاس لگ چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں ،اگر وہاں کسی شناسا کی ڈیوٹی لگی ہوگی تو ہم آسانی سے اندر چلے جائیں گے۔ وہاں گئے تو دیکھا کہ ایک عرب نوجوان کرسی پر بیٹھا ہے۔ اس سے انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے چچا ہیں عمرہ کرنے آئے ہیں ادھر سے ان کو اندر جانے دو لیکن وہ نظم شکنی پر تیار نہیں ہوا۔ در اصل جدھر سے وہ جانے کی اجازت مانگ رہے تھے ادھر سے اجازت نہیں ہے۔ اسی لیے وہاں کوئی نہ کوئی ڈیوٹی دیتا رہتا ہے۔ ریاض الجنہ میں داخل ہونے کے لیے بڑی جد و جہد کرنی پڑتی ہے۔ لوگ ایک دوسرے پر ٹوٹے پڑتے ہیں۔ یہاں وہ چبوترہ بھی دیکھا جس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اصحاب صفہ کا چبوترہ ہے۔ اس پر بھی لوگ ہجوم اندر ہجوم موجود ہوتے ہیں۔ یہاں سے نکل کر ہم باب جبرئیل پر آئے تو دیکھا کہ وہیں برابر میں واقع باب نساء کو پولیس نے بند کر رکھا ہے۔ معلوم ہوا کہ کوئی غیر ملکی مہمان آیا ہوا ہے۔ اس کی سہولت کے لیے اسے بند کر دیا گیا ہے۔ جمعہ کا دن ہونے کی وجہ سے آج بہت بھیڑ ہے۔ وقت بھی عصر کے بعد کا ہے۔ اس وقت فطری طور پر زیادہ رش ہو جاتا ہے۔ 
بھائی یہاں تو بدعت میں نہ پڑو
یہاں سے نکل کر ہم گنبد خضریٰ کی طرف آئے۔ یہیں اس کے سامنے جو صحن ہے وہاں مولانا عبد الوحید کی ڈیوٹی ہے۔ ان کی طرح اور بھی کئی لوگ اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔ در اصل ان لوگوں کا کام یہ ہے کہ کوئی غلط حرکت دیکھیں تو اسے روکیں۔ یہاں خواتین کے بیٹھنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ جگہ مردوں کے لیے مخصوص ہے۔ پھر بھی بہت سی خواتین بیٹھ جاتی ہیں۔ ان کو بڑے پیار سے وہاں سے ہٹایا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ گنبد خضریٰ کی طرف منہ کرکے کھڑے ہو جاتے ہیں اور دعا مانگنے لگتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو یہ لوگ سمجھاتے ہیں کہ منہ قبلے کی طرف کرکے دعا مانگو۔ بہت سے لوگ فوراً مان جاتے ہیں اور بہت سے ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ باب جبرئیل کے پاس بھی بہت سے لوگ قبر مبارک کی طرف منہ کرے دعا مانگتے ہیں۔ ان لوگوں کو سمجھانا پڑتا ہے۔ میں وہاں کافی دیر تک ایک کرسی پر بیٹھا رہا اور لوگوں کی حرکات و سکنات دیکھتا رہا۔ مولانا عبد الوحید نے بتایا کہ ایک بار ایک ادھیڑ عمر شخص گنبد خضریٰ کی طرف منہ کرکے بیٹھا دعا مانگ رہا تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ بابا قبلہ کی طرف منہ کرکے دعا مانگو۔ اس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ جب میں نے کئی بار کہا تو وہ غصے میں آگیا اور اسی حالت میں اس نے کہا کہ تم چاہتے ہو کہ میں گنبد خضریٰ کی طرف پیٹھ کرکے اس کی بے ادبی کروں۔ اس پر میں نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ اور جو تم خانہ کعبہ کی طرف پشت کرکے اس کی بے حرمتی کر رہے ہو وہ کیا ہے؟ لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوا۔ مولانا شعیب نے بتایا کہ ایک بار ان کی ڈیوٹی روضہ ٔمبارک کے پاس لگی ہوئی تھی۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک شخص قبر مبارک کی طرف منہ کرکے دعا مانگ رہا ہے۔ اس سے میں نے کہا کہ قبلے کی طرف منہ کرکے دعا مانگو جو کہ طریقہ ہے لیکن اس نے سنی اَن سنی کر دی۔ کئی بار کہنے کے باوجود وہ نہیں مانا۔ اسی اثناء میں ایک عرب آگیا۔ اس نے بھی کئی بار اس سے کہا کہ قبلے کی طرف منہ کرکے دعا مانگو لیکن اس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ جب کافی دیر ہو گئی تو عرب نے کہا کہ تم اپنا منہ پھیرتے ہو یا میں پولیس کو بلاؤں۔ اس شخص نے غصے میں کہا کہ بلا لو پولیس کو۔ عرب نے فوراً فون کیا اور چند منٹ کے اندر ایک پولیس والا آگیا ،جو اسے وہاں سے لے کر چلتا بنا۔ 
خو ب صورت چھتریاں
آج جمعہ کا دن ہے۔ ہمارے ایک اور عزیز محمد سعید بھی آگئے ہیں۔ وہ مولانا محمد شعیب کے چچا ہیں۔ ان سے شاپنگ اور پیکنگ میں بہت مدد ملی۔ جب ہم نماز سے تقریباً ایک گھنٹہ پہلے مسجد نبویؐ میں پہنچے تو دیکھا کہ پوری مسجد بھری ہوئی ہے۔ نیچے جگہ مل تو جاتی لیکن بہت جد و جہد کرنی پڑتی۔ ہم لوگ چھت پر گئے۔ چھت اتنی وسیع و عریض ہے کہ آدمی چلتے چلتے تھک جائے۔ بہر حال ایک جگہ صف خالی تھی وہاں ہم لوگ بیٹھ گئے۔ اوپر تھوڑی تھوڑی مسافت پر بڑے بڑے گنبد بنے ہوئے ہیں۔ یہ عام اور معمولی گنبد نہیں ہیں۔ یہ کھلنے والے گنبد ہیں۔ الیکٹرانک سسٹم سے ان کو اوپر اٹھا دیا جاتا ہے۔ ایسا ہمیشہ نہیں کبھی کبھار بوقت ضرورت ہوتا ہے۔ مسجد کے چاروں طرف جو کھلا صحن ہے اس میں چھتریاں نصب ہیں۔ دس سال قبل جب ہم حج کرنے آئے تھے تو باب فہد کی جانب چار چھ چھتریاں تھیں لیکن اب تو مسجد کی عمارت کے چاروں طرف درجنوں کے حساب سے چھتریاں نصب ہیں جو سائے کا کام کرتی ہیں۔ یہ بڑی ہی خوبصورت ہیں۔ ان کو رات کے وقت بند کر دیا جاتا ہے۔ صبح کے وقت کھول دیا جاتا ہے۔ بیسمنٹ میں ایک الیکٹرانک نظام ہے۔ اسی سے یہ کھلتی اور بند ہوتی ہیں۔ آج ہم فجر کی نماز کے بعد کچھ دیر ٹھہر گئے۔ یہ چھتریاں بند ہیں۔ بالکل ایسا لگ رہا ہے کہ یہ دسیوں میٹر لمبے چھاتے ہیں جن کو بند کرکے اور ان کے فیتے کس کر انہیں پول پر فٹ کر دیا گیا ہے۔ ان کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ یہ وہی ہیں جو کھلنے کے بعد انتہائی خوبصورت لگتی ہیں۔ سورج نکلنے سے عین قبل اچانک ہماری نظر ایک چھتری پر پڑی تو دیکھا کہ وہ کھل رہی ہے۔ پھر ہم نے نظر گھما گھما کر چاروں طرف دیکھا تو ساری چھتریاں ایک ساتھ اور ایک رفتار سے کھل رہی ہیں۔ بالکل ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے صبح کا وقت ہے، ہم کسی باغ میں ہیں اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی ہیں اور ان ہواؤں سے مدہوش ہو کر پھولوں نے کھِلنا شروع کر دیا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ بہت سے لوگ اپنے موبائیل میں اس خوبصورت منظر کو قید کر رہے ہیں اور ویڈیو بنا رہے ہیں۔ ہم کف ِافسوس مل کے رہ گئے کیونکہ ہم اپنا موبائیل ہوٹل ہی میں چھوڑ آئے تھے۔ چھتریوں کے کھلنے کے منظر نے ہمیں بھی مدہوش کر دیا اور ہم کافی دیر تک کھلی ہوئی چھتریوں کو دیکھتے رہے اور لطف اندوز ہوتے رہے۔ 
(باقی باقی) 

 
Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *