ریاست کےگرمائی دارالحکومتی شہر سرینگر میں نکاسی آب کی صورت انتہائی خستہ حالی کا شکار ہے اور یہی وجہ ہے کہ چند گھنٹوں کی بوچھاڑوں کے ساتھ ہی سڑکیں اور گلی کوچے ندی نالوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ سے نہ صرف عام لوگوں کو عبور و مرور میں مشکلات درپیش آتی ہیں ، بلکہ لوگوں کی آمد و رفت متاثر ہونے کی وجہ سے شہر کے اہم اور مقبول تجارتی مراکز میں کاروباری حلقوں کو زبردست مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تاجر برادری کی طرف سے بار بار اس صورتحال پر زبردست برہمی کا اظہار کرتے ہوئے نکاسی آب کے حوالے سے ذمہ دار محکموں کی کارکردگی کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینے پر زور دیا ہے۔یہ ساری صورتحال دراصل ہماری ریاست کے کم و بیش سبھی شہروں اور قصبہ جات میں نکاسی آب کے ناقص نظام کا غماز ہے، جو اُسی وقت اپنا چہرہ کھل کر دکھاتا ہے، جب موسمی حالات میں تبدیلی آتی ہے۔ڈرینوں اور نالیوں کی ساری خامیاں ایسے ہی صورتحال میں کُھل کر سامنے آتی ہیں۔ حالیہ ایام کے دوران بار بار کی بارشوں کے بہ سببشہرکے متعدد علاقوں میں بڑی ڈرینوں کے ساتھ ملنے والی چھوٹی نالیوں کا پانی گلی کوچوں کو ندی نالوں میں تبدیل کرتاہوا ملتا ہےکیونکہ بڑی ڈرینوں کی تعمیر کے وقت دونوں کی متناسب سطح پر توجہ مرکوز نہیں کی جاتی۔ لہٰذا اس عنوان سے دیکھا جائے بارشوں کا موسم ہماری سڑکوں، گلی کوچوں اور نالیوں و دڑینوں کی تعمیر کے حوالے سے ایک قدرتی آڑٹ رپورٹ سے کم نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ متعلقہ محکمے اس ساری صورتحال کا جائزہ لیکر اُن خامیوں کی نشاندہی کریں جو اس کی وجہ بنتی ہیںاور اس نظام کی بنیادی خامیوں کو دور کرنے کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔ اس طرح ایک تو عوام کو درپیش مشکلات کا ازالہ ہوگا اور دوسری جانب اخراجات کے درست استعمال کامزاج بھی پیدا ہوگا۔ فی الوقت گورنر انتظامیہ اتنا کچھ کرسکتی ہےکہ جن مقامات اور علاقوں میںسڑکوں پر زیادہ پانی جمع ہوتا ہے اور جہاں لوگوں کو زیادہ مشکلات درپیش ہوتی ہیں وہاں پمپوں کے ذریعہ پانی کی نکاسی کے عمل کا ایک سسٹم بنایا جائے تاکہ عبور و مرور کی مشکلات میں تخفیف ہو۔ ظاہر بات ہے کہ اس کےلئے سرینگر ڈیولپمنٹ اتھارٹی ،سرینگر میونسپل کارپوریشن ، مختلف میونسپل کمیٹیوں اور خاص کر میکنیکل انجینئرنگ ڈویژن کا کلیدی رول بنتا ہے۔ چونکہ یہاں کے موسمی حالات میں ہر گزرنے والے دن کے ساتھ تبدیلیاں واقع ہو تی رہتی ہیں اور روایتی موسمی مزاج میں تیزی کے ساتھ تغیر آرہا ہے، لہٰذا ایسی اور اس جیسی صورتحال کسی بھی وقت پیش آسکتی ہے، حتیٰ کہ بارشیں کبھی بھیانک رخ بھی اختیار کرسکتی ہیں۔ لہٰذا ن سارے امکانات کو زیر نظر رکھ کر نکاسی آب کے لئے ایک ہمہ وقت اور ہمہ جہت پالیسی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ اگر ہمارے پاس ایسی کوئی پالیسی اور اس کے نفاذ کےلئے بنیادی ڈھانچہ میسر ہوتا تو شاید سال2014کے سیلاب کے بعد سرینگر کی متعدد بستیوں میں کئی کئی ہفتوں تک پانی جمع نہ رہتا ۔ جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں رہائشی مکانات کو شدید نقصان ہوا اور جنکی تعمیر و مرمت میں لوگوں کا ذر کثیر صرف ہوا۔ مرکزی نکتہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے بہ سبب تیزی کے ساتھ موسمی تغیر و تبدل وقوع پذیر ہو رہا ہے اور ہماری سرزمین اس سے مبرا نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ کسی بھی صورتحال کا مقابلہ کرنے کےلئے ایک کثیر الجہت نظام ترتیب دیا جائے تاکہ کسی بھی غیر موزون صورتحال سے نمٹنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ اس کے لئے ہمارے ذمہ دار محکموں اور صیغوں کو ایسے حالات سے نمٹنے کےلئے دنیا میں موجود جدید نظام اورطریقہ ٔ کار کا مطالعہ و مشاہدہ کرنا چاہئے تاکہ کسی بھی غیر موزون صورتحال میں عوام الناس کی مشکلات کا ازالہ کرنا آسان ہو جائے۔ گورنر انتظامیہ نے ابتدائی ایام میں ہی نکاسی آب کےلئے زیر تعمیر ڈرینوں پر کام کی رفتار کا جائزہ ہر پندرہ دنوں کے بعد لینے کا فیصلہ کیاتھا اور اس حوالے سے مشیر حکومت نے متعلقہ محکموں کوہدایات جاری کی تھیں۔اس پر کتنا عمل ہو رہا ہے یہ انتظامیہ ہی بتا سکتی ہے ، لیکن فی الوقت یہی کہا جاسکتا ہے کہ بارشوں کی وجہ سے سڑکیں اور گلی کوچے برابر ندی نالوں میں تبدیل ہورہے ہیں، جس کی وجہ سے لوگوں کو عبور و مرور میں مشکلات کا سامنا ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آرہی ہے۔