چشم دید
محمد الطاف ثاقِب
رواں مون سون کی بارشوں نے پورے ہمالیہ کو اپنی زد میں لے لیا ہے ۔ اترا کھنڈ اور ہماچل پردیش میں لینڈ سلائیڈنگ، دریاؤں اور ندی نالوں کی طغیانی سے جان و مال کا نقصان آئے دن ہورہا ہے۔ میدانی علاقہ ہو یا پہاڑی بارشوں نے ہر جگہ نقصانات اپنے نشان چھوڑدئیےہیں ۔ جموں و کشمیر کی بات کریں تو اس کے پہاڑی علاقے بالخصوص پیر پنچال اور چناب ویلی میں بھاری نقصان ہوا ہے ۔ چناب ویلی کے ضلع کشتواڑ میں بادل کے پھٹنے کےالمناک واقعہ میں بہت سارے لوگوں کی جان چلی گئی اور سینکڑوں لوگ ابھی تک لاپتہ ہیں جن کی تلاش جاری ہے۔ اسی طرح خطہ پیر پنجال میں بھی زور داربارشوں سے لوگوں کا بےحد نقصان ہوا ہے ۔بارشوں سے ضلع پونچھ میں کافی نقصانات ہوئے ہیں بالخصوص سرنکوٹ کے ہر ایک گاؤں میں لینڈ سلائیڈنگ ہورہی ہیں، لوگوں کے مکانات گر چکے ہیں اور بہت سارے کھیت و مکانات بھی سیلاب کی نذرہو گئے ہیں ۔ گائوں سنئی سے جو ندی بہہ کر دریا سرن میں داخل ہوتی ہے، اس سال اس ندی کی طغیانی نے گورنمنٹ ہائی اسکول سنئی کی عمارت کے ایک حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیاہے۔علاقے کا یہ بہت پرانا اسکول ہے،جس میں،میں نے بھی اپنی دسویں تک کی تعلیم حاصل کی ہے۔جبکہ میں نےبارشوں کے نتیجے میں،ندی نالوں میںطغیانی کے باعث کھیت کھلیان اُجڑنے، مکانات اور زمینیں بہہ جانے، تعمیری ڈھانچے زمین بوس ہونے اور لینڈ سلائڈنگ سے فصلوں کو نقصانات پہنچنے کے درجنوں مناظر دیکھے ہیں، جنکی چند مثالیں ڈکل میں پیش کی جا رہی ہیں ۔علاقے کے ایک سماجی کارکن برائے انسانی حقوق محمد آفتاب پچھلے کئی دنوں سے علاقے میں لگاتار بارشوں سے ہونے والے نقصانات کو ٹریک کر رہے ہیں ۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان بارشوں سے جو نقصانات ہوئے ہیں وہ 2014 میں ہونے والی بارشوں اور سیلاب سے کہیںکم نہیں، بالخصوص دوردراز ڈھوک کے علاقوں میں قبائلی لوگوں کے کچے مکانات زمین بوس ہوگئے جن میں مال مویشی بھی دَب کےمر گئے ۔ ڈھوک ان جگہوں کو کہا جاتا ہے جہاں پر عارضی طور پر لوگ بالخصوص قبائلی اپنے مال مویشیوں کو لے کر جاتے ہیں ۔یہاں پر مٹی کے جو عارضی مکانات ہوتے ہیں، اُنہیں علاقائی زبان میں ٹارا کہا جاتا ہے ، جس پر بہت کم بات ہو رہی ہے۔ اس لئے کہ یہ دوردراز علاقے ہیں اور یہ جگہیں جنگلات میں آتی ہیں۔ متاثرہ تر لوگ اس تذبذب میں رہتے ہیں کہ اُنہیں سرکارکی طرف سےکوئی معاوضہ ملے گا یا نہیں۔ حالانکہ ان جگہوں پر جو لوگ رہتےہیں، وہ رائٹ ٹو فارسٹ ایکٹ کے تحت اِن جگہوں میں جاتے ہیں اور انہیں بھی یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ کسی بھی قدرتی آفت میں ہوئے نقصان کا انہیں معاوضہ ملے ۔
آفتاب چوہان مطابق لوگوں کا تو انگنت نقصان ہوا ہے ،جبکہ مدان نامی ڈھوک میں میرا اپنا ٹارا بھی منہدم ہو گیا ہے جو پچھلے بیس سال سے وہاں قائم تھا، اس سال شدید بارشوں کا بوجھ نہ سہہ سکا ۔ میرے پڑوسی محمد رشید نامی شخص کا ٹارا بھی بارشوں کی نذر ہو گیا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ’’ اگر حکومت تعاون نہیں کرے گی تو ایک جھونپڑی یا ٹارا بنانے میں ایک سے دو لاکھ روپے خرچہ آجاتا ہے ۔ایک غریب انسان جو مال مویشیوں کا دودھ بیچ کر اپنا چولہا جلاتا ہے فی الفوردوبارہ ٹارا کیسے کھڑا کرسکے گا جو کہ اس کے مال مویشیوں کے لئے نہایت ضروری ہے ۔ پہاڑی علاقوں میں بارشوں سے لینڈ سلائڈنگ ہوتی رہتی ہیں لیکن اس بار تو لینڈ سلائڈنگ نے قیامت ہی برپا کر دی ہے ۔جگہ جگہ زمین پھسلنے سے لوگوں کے کھیت اور فصلیں تباہ ہو گئی ہیں، جن میں کھیتوں میں باندھوں کا پھسلنا بھی شامل ہے ۔ یار محمد ایک مزدور شخص ہیں، جنہوں نے محنت مزدوری کر کے تین چار کمرے بنائے تھے ۔ اب ان کے گھر کے آس پاس کی زمین پھسلنے سے ان کا گھر بھی اس کی زد میں آگیا ہے اور فصل بھی تباہ ہو چکی ہے ۔
یار محمد نے بھی اپنی دکھ بھری روداد سناتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے پوری عمر کی محنت کی کمائی اس مکان کو بنانے میں لگا دی تھی، لیکن اب کمر ٹوٹ چکی ہے۔سب کچھ لُٹ چکا ہے۔ ایسی بہت ساری مثالیں ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ غریب لوگوں کے نقصان کا مداوا تبھی ہو سکتا ہے جب حکومت فوراً حرکت میںآکر نقصانات کا تعین کرے تاکہ متاثرہ لوگوں کے نقصان کا ازالہ ہو سکے ۔ شاید ملکیت والی جگہوں پر لوگ اپنے اپنے نقصان کا دعویٰ بھی کریں گے لیکن سب سے بڑی پریشانی ان لوگوں کو درپیش آ سکتی ہے جو ڈھوکوں میں رہتے ہیں اور بے حدنقصانات سے دوچار ہیں۔