رواں مہینے کے پہلے ہفتے میں جس طرح اُترکاشی کے سرسبز پہاڑی سلسلے میں گنگوتری ندی کے قریب واقع کھیرگنگا پر ایک دِل دہلانے والا فطری سانحہ اُس وقت وقوع پذیر ہوا،جب آسمان نے یکایک اپنا سینہ چاک کیا اور بادلوں نے اپنی تمام تر شدّت و سنگینی کے ساتھ زمین پر ایسا قہر برسایا کہ پوری وادی لرز اُٹھی۔ کلاؤڈ برسٹ نے نہ صرف مقامی قدرتی توازن کو بگاڑ کر رکھ دیا بلکہ پُرسکون وادی نما علاقوں کو شدید لینڈ سلائیڈنگ اور ہولناک سیلاب کی لپیٹ میں لے لیا۔پہاڑوں سے اُترتی مٹی، پتھروں اور پانی کی شوریدہ موجوں نے انسانی بستیوں کو ملیا میٹ کردیا اوروہاں پر موجود زندگی کے نشانات تک آنکھوں سے اوجھل کرکے رکھ دیئے۔بالکل اُسی طرح کا لرزہ خیز المناک سانحہ گذشتہ روز یعنی جمعرات کو جموں و کشمیرکے ضلع کشتواڑ کے چسوتی علاقے میں پیش آیا۔جس میںتباہ کُن سیلاب نے ہر چیز کو مٹی میں دفن کرکے رکھ دیا ۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تا ایں دَم 60سے زاید افراد جان بحق ہوئے ہیں،167افراد کو ملبے سے نکال کر ریسکو ٹیموں نے ہسپتال پہنچایا ہے جبکہ 82 سے زائد افراد ابھی تک لا پتہ ہیںاور کھوج کا کام بڑے پیمانے پر جاری ہے۔کھٹوعہ میں بھی اسی طرح کے سانحے میںابھی تک 7افراد کے جان بحق ہونے کی اطلاع ہے۔ہر طرف اہل ِ علاقوں کے لوگوں کی آنکھوں میں خوف، دلوں میں بے یقینی اور لبوں پر فریاد ہے۔ وہ زمین جسے انہوں نے نسلوں سے سینچا، آج خود ان کے لیے اجنبی بن گئی ہے۔ ریاستی ادارے، راحت و بچاؤ کے کاموں میں مصروف ہیں، لیکن ان پہاڑوں کی گونجتی وادیوں میں اب بھی صدائیں سنائی دیتی ہیں ،لاپتہ لوگوں کی ،ماوئوں کی سِسکیوں کی ،بزرگوں کے دعائوں کی اور بچوں کے رونے کی ۔
جبکہ زمین کھسکنے کی وجہ سےمتعدد علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی زندگی بھی اجیرن بن گئی ہے۔ظاہر ہے کہ پہاڑ، جنہیں ہم زمین کا ستون سمجھتے ہیں، صدیوں سے اپنی سنگلاخ چھاتیوں میں فطرت کے راز چھپائے ہوئے ہیں۔ یہ اپنی چوٹیاں آسمانوں سے ہمکلام رکھتے ہیں اور ان کے دامن میں بہتی ندیاں، جھرنے اور جھیلیں ایک سحر انگیز توازن کی گواہی دیتی ہیں۔ لیکن جب یہی فطرت اپنا توازن کھو بیٹھتی ہے تو ایک ہولناک چیخ کی مانند ’’بادل پھٹنا‘‘ انسانی بستیوں پر قہر بن کر ٹوٹتا ہے۔ بادل پھٹنے (Cloudburst) کا واقعہ ایک شدید ماحولیاتی مظہر ہے، جس میں قلیل وقت میں انتہائی زیادہ بارش ایک چھوٹے علاقے میں برس پڑتی ہے۔ پہاڑی علاقوں میں یہ زیادہ اس لئے ہوتا ہے کہ یہاں زمینی ساخت اونچی نیچی ہوتی ہے، ہوا میں نمی کا دباؤ بڑھ جاتا ہے اور جب مرطوب ہوائیں کسی پہاڑی سے ٹکرا کر رُکتی ہیں تو بادل میں موجود نمی ایک دم زمین پر برستی ہے، جیسے فطرت رو پڑی ہو!اس لئے یہ کہنا شائد بے جانہ ہوگا کہ یہ محض ایک قدرتی آفت نہیں بلکہ ایک اجتماعی غفلت کا نتیجہ ہے، جو برسوں سے پہاڑی علاقوں میں جاری غلط منصوبہ بندی اور بے لگام ترقی کی عکاسی کرتا ہے۔ شارٹ کٹ اپروچ اپناتے ہوئے ندی کنارے سڑکیں تعمیر کی گئیں، جن کا نہ جغرافیائی مطالعہ کیا گیا، نہ ماحولیاتی اثرات کو مدنظر رکھا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج وہی سڑکیں تیزی سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی ہیں۔ جہاں پہلے ندی کنارے پرانے بستیوں کا سکون تھا، وہاں اب سڑکوں کے ساتھ جنکشن بن گئے اور آہستہ آہستہ وہ علاقے تجارتی مراکز میں بدل گئے۔ حکومتوں نے ان مقامات پر اسکول، اسپتال، دفاتر اور پنچایت گھر قائم کر دئیے اور یوں ندیوں کے تلچھٹ پر انسانی آبادیاں بسانا ایک معمول بن گیا۔بادل پھٹنے کے ان سانحوں سے یہ تلخ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ فطرت کے ساتھ غیر ذمہ دارانہ چھیڑ چھاڑ کس قدر بھیانک انجام کا سبب بن سکتی ہے۔ہم سب اس زمین کے نگہبان ہیں، خواہ پالیسی ساز ہوں یا عام شہری، سیاح ہوں یا مقامی باشندے۔ لازم ہے کہ ہم فطرت سے مصالحت کریں اور ترقی کے نام پر بربادی کے راستے بند کریںاور ہماری ترقی، فطرت کی تباہی کا دوسرا نام نہ بنے۔یاد رہے کہ جب انسان اپنی حد سے تجاوز کرتا ہے، زمین پر تکبر، لالچ اور استحصال کی راہیں اختیار کرتا ہے تو وہ نہ صرف خود اپنے لئے تباہی لاتا ہے بلکہ پورے ماحول کو بگاڑ کر رکھ دیتا ہے۔