خوشنویس میر مشتاق
سوائے میرے یہاں سب گھوڑے بیچ کے سوئے پڑے رہتے ہیں ۔ صُبح صادق سے ہی میں رسوئی میں کام کر رہی ہوں مجال ہے کوئی میری تھوڑی سے بھی مدد کر لیتا۔ ایک تو سر صُبح سے درد سے پھٹا جارہا ہے اُوپر سے کِچن کا سارا بوجھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُف اللہ !
ساس فجر نماز سے فارغ ہوتے ہی کِچن میں جب داخل ہوئی تو بہو نے بھنّویں ماتھے پہ چڑھا رکھی ہیں۔
ساس :- کیا ہوا بیٹی ؟
” تمہاری طبعیت تو ٹھیک ہے تم کچھ بجُھی بجُھی سی لگ رہی ہو۔”
بہو :- “میری طبعیت کو کیا ہونا ہے ۔اچھی بھلی تو ہوں ۔
میرے ہی نصیب پُھوٹے ہیں جو میں اِس گھر میں بیاہ کے لائی گئی ہوں۔ یہاں کسی کو میری کیا پرواہ۔
میں جیوں یا مروں ۔۔۔۔۔۔۔!!!
ویسے بھی تم لوگ بہو بیاہ کر نہیں لائے ہو بلکہ یہاں سب لوگ مجھے نوکرانی سمجھ رہے ہیں اور کچھ نہیں۔ ”
ساس :- “کیا اناپ شناپ بول رہی ہو۔ میں نے کبھی بھی تمہیں غیر نہیں سمجھا بلکہ میں نے تمہیں ہمیشہ اپنی بیٹیوں سے بھی زیادہ عزیز رکھا ہے ۔ گھر میں کام کرنے سے کوئی نوکر تو نہیں بنتا۔ ویسے بھی گھر کے کام کرنے میں کیسی شرم۔ ساری دُنیا کی عورتیں کام کرتی ہیں۔”
بہو :- کرتی ہونگی آنٹی۔
” لیکن میں تو اِنسان ہوں ہی نہیں۔ میں تو بس کام کرنے والی ایک مشین ہوں جو صُبح چالُو ہوتی ہے اور رات میں بند ہوتی ہے۔۔۔!!!
صُبح سے لے کر رات گئے تک مجھے ہی گھر کے سب کام کرنے ہوتے ہیں اور باقی سب یہاں مُفت کی روٹیاں توڑنے کیلئے بیٹھے ہیں۔ ”
ساس :- ” نہیں بیٹی ! ایسی کوئی بات نہیں تم غلط سمجھ رہی ہو۔ کل کلّاں میری بیٹیوں کو بھی کسی کے گھر جانا ہے ۔ اُنہیں بھی دوسرے گھر جاکر کام ہی کرنا ہے، آرام تھوڑی کرنا ہے۔
بیٹیاں ہوتی ہی ہیں کام کرنے کیلئے ۔ ویسے بھی بیٹیوں کے بڑے سُکھ ہوتے ہیں۔ اللہ سب بیٹیوں کے نصیب اچھے کرے۔ ”
عدیل بچارہ سب کچھ چُپ چاپ سُن رہا ہے لیکن ساس اور بہو کے جھگڑے ختم ہو نے کا نام ہی نہیں لیتے۔
عدیل کِچن میں داخل ہوتے ہی۔۔۔۔۔۔
” تم دونوں کو کیا ہوا ہے ؟
کیوں ؟ سارا گھر سر پر اُٹھا رکھا ہے۔ تم دونوں کو ذرا بھی احساس نہیں کہ لوگ کیسی کیسی باتیں بنائینگے۔ تنگ آگیا ہوں میں تم دونوں کے روز روز کے جھگڑوں سے۔ خُدا کیلئے تم دونوں اب بس بھی کر لو ۔ کیوں ؟ بات کا بتنگڑ بناتے ہو ۔۔۔۔۔۔۔ ”
���
ایسو( اننت ناگ )،[email protected]