لوجی کر لو گل ،اپنے ملک کشمیر میں کہیں زلزلے کے سبب زمین نہ ہلی پر سیاسی بھوکمپ دلی میں آیا ۔پھر پتہ چلا کہ اس بھوکم کا اصل مرکز تو فیرویو گیسٹ ہائوس تھا اور مانا کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا پرمالی نقصان کے سبب اب کی بار قلم کنول سرکار لڑھک گئی ۔پھر پتہ چلا کہ کنول بردار وزیر دلی ٹافی دودھ لینے نہیں گئے تھے بلکہ انہیں سرجیکل اسٹرائک کرنے کی عادت سی ہو گئی ہے اور اسکے بغیر ان کی روٹی ہضم نہیں ہوتی ۔سرحد پر کریں تو مملکت خداداد والے ہنسی مذاق سمجھ کر طعنے دیتے ہیں او ر خود اپنے سیاستدان اس کا ثبوت مانگتے ہیں پر قلم والوں کی اتنی جرأت کہاں کہ سوال اٹھائیں۔اسی لئے وہ نشانہ بن ہی گئے ؎
میں نے پوچھا سی ایم کیسے بنے
اس نے مودی کا نام لکھ بھیجا
میں نے پوچھا کہ سرکار کون گرائے گا
اس نے مادھو رام لکھ بھیجا
وہ تو کہتے تھے کہ یہ مضبوط ہے اور ایجنڈا آف الائینس کی سرینج استعمال کر اسکے اندر ناگپوری وٹامن اور بیج بہا ری کیلیشم بھرا ہوا ہے جس کے سبب اسکی ٹانگیں طاقتور ہیں،جسم میں توانائی ہے،اور مودی کے فٹنس ویڈیو اور یوگا آسن کرواکر اسے مزید طاقت بخشی ہے۔ چھ سال کسی بھی صورت نہیں گرے گی۔ بلکہ اس پر بم بارود کیا مخالفین کے بیانات ، نیشنلی ہل اور کانگریسی ہاتھ بھی لرزا نہیں سکتے۔ ہمیں کیا معلوم تھا کہ دھماکہ جیسا ہوگا جس کا شور سب سن لیں گے البتہ بانوئے کشمیر کو یہ سنانے کے لئے گورنر صاحب کو فون کرنا پڑے گا ۔اورد روغ بر گردن راوی جس نے یہ اطلاع دی کہ فون لیتے ہی بانوئے کشمیر کے منہ سے "ہیَ کیاہ گوم" ، "یہِ کس ترٹھ" ’’ یہ ِکُس منزیلہ‘‘سنائی دیا۔کسے نہیں معلوم کہ اس سرکار کا تابوت تو کندھوں پر اٹھاے مفتی، گپتا ، اختر وغیرہ ساڑھے تین سال سے چلے جا رہے تھے اور ساتھ میں رام نام ستیہ ہے، مردہ بیچارہ مست گنگنائے جا رہے تھے ۔ایسے میںپتہ چلا یہ تو زعفرانی دھاگوں کے جوڑ سے ٹنگی ہو ئی اور تعویذ گنڈے سے ٹکی ہوئی اوبڑ کھابڑ سرکار تھی کہ بس ایک زور کا دھچکہ لگا تو انجر پنجر ڈھیلے پڑ گئے اور پھر بکھرے ؎
سیاست میں بیچ راہ ایسے بکھرے
جیسے سامان کسی کباڑی کا
اب تو سنبھالنے کو کچھ نہ رہا ۔منسٹری گئی، ہٹو ہٹو کہکر عام خام کو دور رکھنے والے وردی پوش گئے، جھنڈے گئے ڈنڈے گئے،ہوٹر کا پوں پاں گیا، موٹر کا دوں دھاں گیا،اس پر طرہ یہ کہ باہر گلی گلی میں شور مچانے والے نہیں رہے کہ " ییلہِ آو مفتی تیلہِ ژج سختی " گانے والے بیچارے جیلوں تھانوں میں بند ہیں اور جو بچے رہے انہیں انسانی ڈھال کے طور استعمال کیا جاتا ہے ۔یعنی انسان نہ ہوئے پتھر روکنے والے شیلڈ بن گئے۔اب تو " ہیرِ کیاہ نیشنل بنہ کیاہ نیشنل " والے بھی چھپے چھپے پھرتے ہیں کہ کون جھپٹ کر پکڑ لے پھر گئے چھ چھ مہینے کے لئے پی ایس اے تحت اندر ۔کیونکہ وہ لوگ تو اب برہان برہان ، موسیٰ موسیٰ کہتے پھرتے ہیں۔وہ جو کل تک کہتے پھرتے تھے کہ کنول قلم گٹھ جوڑ اصل میں قطبین کا ملاپ ہے اور مرد مومن اور مودی کا مشترکہ خواب ہے انہیں اب سب کچھ سراب دکھتا ہے۔ اسی لئے وہ اسے اب ناپاک گٹھ جوڑ کہتے ہیں ۔بھولے سے بھی نام لے کر زبان دھونے جاتے ہیں۔ہاتھ غلطی سے لگ جائے تو صابن لیکر دھونے دوڑتے ہیں۔ اور یہ بھی کہتے ہیں کہ پورا حساب لگا کر حسیب نے رام کے ساتھ مل کر جو مادھو تراشا تھا وہ بھی کمزور ثابت ہوا اور ساڑھے تین سال میں ہی دھوپ بارش کے سبب ٹوٹتا گیا،کچھ بچا تو بچوں نے اسی مادھو پر نشانہ باندھ کر کنکر چلائے کہ دیکھ لے کس کا نشانہ ٹھیک بیٹھتا ہے ۔ان کی اس کوشش میں کہیں مادھو کی ناک اڑی، کہیں سر پھوٹا ، کہیں کان ۔ بس ۔
اہل کشمیر تو اہل سیاست ہیں ۔وہ نانوائی کے تندور کے پاس، دوکان کے تھڑے پر، مسجد کے صوفے پر، شادی بیاہ کے وازوان پر سیاست بولتے ہیں ، مولتے ہیں بلکہ تولتے ہیں۔اور اب کی بار تو سیاسی دکان چمکی ہوئی تھی۔رستہ گوشتابہ نوش کرتے قلم کنول کا گٹھ جوڑ زیر بحث آ ہی گیا۔ملک کشمیر میں فوج کو لوگ کیا سیبوں کے پیڑ روندنے کی بات چلی اور ایسے میں کمانڈوز کی آمد پر سیر حاصل بحث تو ضروری ہے۔کہاں جب ہزاروں بندوق بردار تھے تب کمانڈوز نہیں لائے، کہاں کمانڈوز تنصیبات پر تعینات ہوتے اور کہاں ڈیڑھ سو کفن بردوشوں سے مقابلہ کرنے کمانڈوز لائے گئے۔لوگ کہتے ہیں کہ Kashmir کو Krushmir بنانا ہے کیونکہ الیکشن آنے والے ہیں۔ مودی سرکار کے بچائو کے لئے انسانی خون کی بلی چڑھانے کا پروگرام ہے اور چونکہ کشمیری خون سستا ہے جتنا بہائو کوئی سوال نہیں پوچھے گا جبھی تو اب کی بار مودی سرکار شاید اسی قربانی کے سبب بچ جائے ؎
کشمیر ہے کہیں تو کہیں کانپور ہے
پیدا ہر اک گوشے سے یوم نشور ہے
ہے تار تار پیرہن امن و عافیت
زخموں سے جسم بے گنہی چور چور ہے
آپس کی پھو ٹ کر کے رہے گی ہمیں تباہ
سمجھیں یہ نکتہ!کب ہمیں اتنا شعور ہے
اور ادھر سرکار کیا گری کہ سیاستکاروں نے ہماری سوچوں سے اپنا سیاسی راستہ نکالنے کی کوشش کی۔کنول قلم والے بے دریغ کہہ اٹھے کہ ہم نے گٹھ جوڑ عوامی مفاد میں کیا تھا۔کہیں جموں تو کہیں اہل کشمیر کی خاطر کیا تھا ۔بلکہ یہ بھی کہ ۳۷۰ کے تحفظ کے لئے کیا تھا۔اس دھینگا مشتی میں ہم ۳۷۰ ڈھونڈنے نکلے۔پتہ چلا کہ بیچارہ کبھی سیاسی اکھاڑے میں کہیں سپریم کورٹ میں پائوں تلے روندا جاتا ہے ۔اور کچھ ہی برسوں میں ہمارے پاس اس کا پھٹا پرانا لنگوٹ بچ گیا جسے سیاسی ساہوکار ہر الیکشن کے وقت لوگوں کو دکھاتے ہیں،اسی کے نام سے انہیں بہلاتے پھسلاتے ہیں ۔مگر اب مسلہ یہ کہ یہ نوجوان اب پھٹے لنگوٹ کو دیکھ کر ناک منہ پر رومال رکھ دیتے ہیں کہ اس میں سے سیاسی بدبو آتی ہے۔البتہ سیاسی ڈگڈگی والے ہیں کہ اسے دل وجان سے زیادہ پیارا رکھتے ہیں کیونکہ انہیں اقتدار میں رکھنے میںاس کا بڑا ہاتھ ہے۔
کنول بردار تو اب کچھ قدم آگے ہی نکلے کہ سرکار کا توڑنے کا یہ معاملہ بھی مرحوم شجاعت بخاری کی جھولی میں ڈالتے ہیں کہ ان کی موت سے ہم دل برداشتہ ہوئے اور سرکار کی ناکامی سمجھ میں آگئی۔ارے واہ! سرکار کی ناکامی سمجھنے کے لئے انہیں بڑے صحافی کی جا ن چاہئے تھی اور وہ بھی اس صحافی کی جنہیں کل تک مملکت خداداد کا حامی، بندوق برداروں کا جامی، حریت کا سہیم اور ہند مخالفین کا فہیم طعنہ دیتے ۔ مگر اب انہیں اپنا ہم نوالہ ہم پیالہ بلکہ امن کا پیامبر کہتے تھکتے نہیں۔یہ اور بات ہے کہ شجاعت کی موت پر اب کی بار مودی مہاراج نے ایک لفظ نہیں بولا۔ہو سکتا ہے کہ اس شاک سے مودی مہاراج کی زبان ہی مقفل ہوگئی ہو۔
ادھر جو بانوئے کشمیر کی قلم کنول سرکار ساڑھے تین سال سے تھکی ہاری چلی جا رہی تھی ۔ ہم نے تو ایسا کبھی سوچا نہ تھا کبھی دیکھا نہ تھا کہ سارے افسر گورنر سے ملتے ہیں۔اپنے محکموں کی بپتا سناتے ہیں۔اپنا حال دل سامنے رکھتے ہیں۔دکھ درد سے راج بھون کو آگاہ کرتے ہیں اور ہمیں روز انڈا بھون یاد دلاتے ہیں ۔کہاں سرکاری انڈوں کا نیا پھنڈا نکالا گیا تھا اور صاحب اقتدار کا محل عالیشان تعمیر ہوا اور کہاں انڈوںکی جگہ اب فائلیں راج بھون پہنچتی ہیں،یعنی افسروں کو بھی اس بات کا پتہ چل ہی گیا کہ اصل تار کہاں سے ہلتے ہیں بلکہ پازٹیو اور نگیٹو کا جوڑ مل کر کہاں شعلے بکھیرتا ہے اسی لئے وہ بھی اقتدار کے سر چشمے کے پاس ہی اپنی پیاس بجھانے آتے تھے۔یا ہو نہ ہو اقتدار کے پاور ہائو س میں انہیں یہ پتہ چل ہی گیا تھا کہ آج نہیں تو کل راج بھون ہی راج کرے گا ۔باقی جگہوں میں فقط ہیلی کاپٹر کے پنکھے گھومتے ہیں اصل اقتدار کے پر کہیں اور جھولتے ہیں۔
مودی راج میں ہم سے وعدہ کیا گیا تھا کہ کچھ ہو نہ ہو پر اچھے دن آئیں گے،پندرہ پندرہ لاکھ آئیں گے، کروڑوں نوکریاں آئیں گی۔اب چار سال گزرے تو فٹنس ویڈیو آرہے ہیں ، یوگا کے آسن آرہے ہیں،دھمکیاں آ رہی ہیں کہ مودی سرکار کی تنقید کی تو خون بہے گا ۔پر یوگی سرکار تو مودی سرکار کا دم چھلا ہے وہاں پر کچھ نیا ہی آرہا ہے۔قاسم کی جان جارہی اور وہ پانی مانگے تو جواب میں لاتیں ، مُکے، تھپڑ آرہے ہیں، آدھ درجن پولیس اہلکاروں کی تصویریں آ رہی ہیں اور سب سے بڑھ کر جان جانے کے بعد پولیس کا معافی نا مہ آ رہا ہے ۔کہ قاسم بھائی تمہیں پانی نہ پلا پائے اسکی الگ سے معافی، تمہاری جان نہ بچا پائے اسکی معافی، اور سب سے بڑھکر ملزمین کو ہم بچانے کی پوری کوشش کریں گے اس کی فائنل معافی ۔سنا ہے معافیوں کا پورا گلدستہ سجا کر قاسم کی قبر پر ڈال کر اعلان کروائیں گے کہ یوگی راج تو رام راجیہ ہے ۔ کیا پتہ خود یوگی ہی قاسم کی قبر کا ادگھاٹن کرنے پہنچ جائے۔
ہم نے تو سنا تھا کہ بہار اور یو پی وغیرہ سے کاریگر مزدور ملک کشمیر آکر کام کرتے ہیں،پر اب یہ دلچسپ خبر کہ یوپی کے ٹیلروں کو سنگ بازی پر لگایا گیا۔یہ لوگ تو تعمیراتی کام بلکہ زرعی کام کاج کرتے پر یہ نیا کام بھی انہیں سونپا گیا ، دلچسپی سے خالی نہیں۔پولیس تحقیقات کر رہی ہے پر میدان صحافت کے مچھلی بازار میں یہ فیصلہ پیشگی سنایا گیا ہے کہ وہ جو کپڑے سینے گئے تھے وہ آزادی کے پرچم سینے پر مجبور ہو گئے۔کیا پتہ اب پرچم کی پہنائیوں پر کڑھائی بنائی اور لکھنوی چکن کا کام دیکھنے کو ملے۔اور وہ جو مودی سرکار نے نوٹ بندی پر اعلان کیا تھا کہ سنگ بازی ختم ہوگئی اور کچھ باقی بچی تو حریت قائدین کو دلی دربار میں زیر حراست رکھ کر کام تمام ہوا ۔مگر پکچر ہے ابھی باقی ، بات ابھی ہے باقی ہے، ملاقات ابھی ہے باقی میرے دوست!!
(رابط[email protected]/9419009169 )