لکھنؤ//اجودھیا میں چھ دسمبر 1992 کو بابری مسجد کے انہدام میں سابق نائب وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سابق صدرمرلی منوہر جوشی اور مرکزی وزیر اوما بھارتی کے کردار پر مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) کی خصوصی عدالت میں الزامات طے کئے گئے ۔ملزمین کو بہر حال پچاس پچاس ہزار روپے فی کس ذاتی مچلکے پر ضمانت دے دی گئی۔ عدالت نے ان ملزمان پر تعزیرات ہند کی دفعہ 153، 153 اے ، 295، 505 اور 120 بی کے تحت الزامات طے کئے ۔ سپریم کورٹ نے معاملے کی سماعت ہرحال میں دو سال میں ختم کرنے کے احکامات دیئے ہیں۔ کورٹ نے کہا ہے کہ سماعت مکمل ہونے تک سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے جج کی منتقلی نہ کی جائے ۔ یہ معاملہ 25 برسوں سے التوا میں ہے ۔ سپریم کورٹ اسکا جلد سے جلد فیصلہ دیکھنا چاہتا ہے ۔ معاملے کی سماعت روزانہ ہوگی۔ ملزمان کے وکیل کے کے مشرا نے بتایا کہ مقدمے کی سماعت روزانہ چلے گی۔ تمام گواہوں کے بیانات درج ہونے کے بعد ملزمان کو پھر حاضر ہونا پڑے گا۔ عدالت ملزمان کو درمیان میں بھی بلا سکتی ہے ۔ سیکورٹی کے سخت انتظام کے درمیان قریب 12 بجے دن میں اڈوانی عدالت میں پیش ہوئے . عدالت کے باہر سیکورٹی کا خاطر خواہ بندوبست تھا۔ ملک و بیرون ملک کے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے عدالتی احاطے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ قبل ازیں اڈوانی اور جوشی کے ساتھ کچھ دیگر ملزم دہلی سے صبح تقریبا نو بجے لکھنؤ ہوائی اڈے پہنچے . وہاں سے وہ گیسٹ ہاوس لائے گئے جہاں وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ اور لال جی ٹنڈن سمیت کئی لیڈروں نے ان سے ملاقات کی۔ ملاقات کے بعد تمام ملزمین براہ راست عدالت پہنچے ۔ اڈوانی اور دو دیگر12 ملزمان کو سی بی آئی نے متنازعہ عمارت گرانے کے سازش کے الزام سے 2001 میں بری کر دیا تھا۔سال 2010 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے بھی اس پر مہر لگا دی تھی، لیکن سپریم کورٹ نے سازش کی دفعہ 120 بی کے تحت بھی مقدمہ چلانے کا حکم دیا۔ سی بی آئی کی خصوصی عدالت میںکل 120 بی کے تحت مقدمہ چلانے پربھی اعتراض نامہ داخل کیا گیا۔ خصوصی عدالت میں سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق تعزیرات ہند کی اس دفعہ میں بھی مقدمہ چلے گا۔ اڈوانی، مسٹر جوشی، مرکزی وزیر اوما بھارتی، بی جے پی کے ایم پی ونے کٹیار، وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) لیڈر وشنو ہری ڈالمیا اور سادھوی رتمبھرا کو گزشتہ 26 مئی کو عدالت میں پیش ہونا تھا، لیکن عدالت کے بیٹھتے ہی ان کے وکیل نے حاضری معافی کی درخواست دے دی تھی۔خصوصی عدالت کے جج سریندر کمار یادو نے حاضری معافی تو دے دی تھی، لیکن 30 مئی کو ہر حال میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔ان ملزمان کے پیش نہ ہونے کی وجہ سے 26 مئی کو الزامات طے نہیں ہو سکے تھے ۔الزامات طے کرنے کے لیے ملزمین کا ذاتی طور سے عدالت میں حاضر ہونا ضروری ہوتا ہے ۔اس سے پہلے اڈوانی ، جوشی ، کٹیار، اوما بھارتی ،سادھوی رتنبھرا اور ڈالمیا کے خلاف رائے بریلی میں مقدمہ چل رہا تھا،لیکن 19 اپریل 2017 کو سپریم کورٹ کے حکم سے مقدمہ لکھنؤ کی خصوصی عدالت میں منتقل کردیا گیا۔ان لوگوں کے خلاف تعزیرات ہندکی دفعہ 153،153اے ،295،295اے ،120بی اور 505 کے تحت الزام طے کئے جانے ہیں۔ رائے بریلی میں ہی وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی)لیڈر اشوک سنگھل اور آچاریا گریراج کشور کے خلاف بھی مقدمہ چل رہا تھا،لیکن ان دونوں کی موت ہوگئی۔اترپردیش کے سابق وزیراعلی کلیان سنگھ کے خلاف بھی رائے بریلی میں ہی مقدمہ چل رہا تھا لیکن راجستھان کے گورنے بنائے جانے کی وجہ سے انہیں مقدمے میں فی الحال راحت ملی ہوئی ہے ۔ عدالت میں اڈوانی اور جوشی کے ساتھ ہی ونے کٹیار،مرکزی وزیر اوما بھارتی ،سادھوی رتنبھرا، ڈالمیا،شری رام جنم بھومی نیاس کے صدر نرتیہ گوپال داس،سابق رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر رام ولاس داس ویدانتی ،مہنت دھرم داس،چمپت رائے ،ستیش پردھان اور بیکنٹھ لال شرما حاضرہوئے ۔ پچھلی تاریخ کو عدالت نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق چارہفتوں میں الزامات طے کرنے ہیں،لیکن ملزمان کے پیش نہ ہونے کی وجہ سے اس میں دیر ہورہی ہے ۔