عظمیٰ نیوز ڈیسک
واشنگٹن// امریکا کی حکمراں جماعت ڈیموکریٹس کے رہنما سابق امریکی صدر باراک اوباما اور پارلیمنٹ کی سابق اسپیکر نینسی پیلوسی پارٹی رہنماوں اور ووٹرز کے موجودہ صدر جو بائیڈن کے صدارتی الیکشن سے دستبرداری کے لیے دباو پر مشاورت کر رہے ہیں۔ درجن سے زائد ارکان پارلیمان، رہنماوں اور کارکنان کی کثیر تعداد جوبائیڈن کو صدارتی الیکشن سے دستبردار کرانے کے حق میں ہیں۔حریف امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ صدارتی مباحثے میں غیرمطمئن کارکردگی کے بعد سے صدر جوبائیڈن پر حامیوں کی طرف سے صدارتی الیکشن سے دستبرداری کے لیے شدید دباوہے۔سی این این کا دعویٰ کیا ہے کہ ایسی کئی شخصیات سے گفتگو ہوئی ہے جو اوباما اور پیلوسی کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ان میں سے اکثر کا کہنا ہے کہ بائیڈن کی بطور صدر نامزدگی کا اختتام واضح ہے اور صرف اتنی بات ہے کہ یہ سب کیسے ہوگا۔اس حوالے سے سابق اسپیکر نینسی پیلوسی کے کئی ساتھی یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ ڈیموکریٹس کو درپیش اس تذبذب بھری صورت حال کو ختم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گی۔ ادھرامریکی صدر جو بائیڈن نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے باور کرایا کہ “میں سمجھتا ہوں کہ صدارتی نامزدگی کا امیدوار بننے کے لیے میں سب سے زیادہ اہل شخص ہوں۔ میں نے اسے (ٹرمپ کو) ایک بار ہرایا اور اب ایک بار پھر شکست دوں گا۔ میں رکوں گا نہیں اور صدارتی دوڑ سے ہر گز دست بردار نہیں ہوں گا”۔۔ یہ گذشتہ ماہ ریپبلکن حریف ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابل صدارتی مباحثے میں خراب کارکردگی کے بعد ان کی پہلی پریس کانفرس ہے ۔العربیہ اور الحدث کی نامہ ناگار کے مطابق پریس کانفرنس کے آغاز پر 81 سالہ بائیڈن نے اپنے سامنے اسکرین سے جو پڑھا وہ ان کے لیے مقررہ مواد کے بر عکس تھا۔ البتہ امریکی صدر کا لہجہ معمول سے اونچا تھا۔پریس کانفرنس میں بائیڈن سے ایک بار پھر زبان کی لغزش ہو گئی۔ جب انہوں نے اپنی نائب صدر کملا ہیرس کو ڈونلڈ ٹرمپ بنا دیا۔ جو بائیڈن سے جب پوچھا گیا کہ اگر وہ دست بردار ہو جائیں تو کیا کملا ہیرس ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دے سکتی ہیں۔ اس پر بائیڈن کا کہنا تھا کہ “اگر میں شروع سے ہی یہ نہ سمجھتا کہ وہ صدر بننے کی اہلیت رکھتی ہیں تو میں نائب صدر ٹرمپ کو صدر کی نائب کے طور پر نہیں چُنتا”۔بائیڈن کے مطابق ان کے تین اعصابی ٹیسٹ ہو چکے ہیں جن میں آخری ٹیسٹ رواں سال فروری میں تھا۔ انہوں نے بتایا کہ “ٹیسٹ کی رپورٹوں سے معلوم ہوا ہے کہ میری (ذہنی) صحت اچھی ہے “۔ بائیڈن نے اس بات کی تردید کی کہ انہیں رات آٹھ بجے سو جانے کی ضرورت ہے ۔