۵؍ریاستوں کے انتخابی نتائج آگئے اور پانچوں میں بی جے پی ہار گئی۔۳؍میں تو بری طرح ہاری اور ان میں۲؍میں تو ایک ایک سیٹ پراسے اکتفا کرنا پڑایعنی ۱۱۹؍نشستوں والی تلنگانہ اسمبلی میں صرف ایک سیٹ کا ملنا بی جے پی کے لئے جنوبی ریاست میں کوئی اچھا شگون نہیں ہے ، جب کہ ۴۰؍رُکنی شمال مشرقی ریاست میزورم میں صرف ایک سیٹ حاصل کرنابھاجپا کے لئے بد شگونی ہے،اس وقت جب پارٹی دعویٰ کرتی ہو کہ شمال مشرقی کل ۷؍ریاستوں میں بچا ہوا میزورم بھی اس کی جھولی میں آگرے گا اور اس کا پرچار وہ سارزور شور سے شروع کردے گی کہ اب سارا شمال مشرق اس کے پاس ہے۔یہ خواب ٹوٹ سا گیاہے۔حالانکہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔آسام اور تریپورہ کو چھوڑ کر ہر ریاست میں وہاں کی مقامی پارٹیاں ہی حکومت کر رہی ہیں۔اس نے کمال ہوشیاری سے یہ کیا ہے کہ اُن کے ساتھ مل کر حکومت کا حصہ بن گئی ۔میگھالیہ اس کی تازہ مثال ہے کہ صرف ۲؍ارکان کے باوجود ریاست میں بی جے پی کا نائب وزیر اعلیٰ ہے۔ایسا اس لئے ہے کہ وزیر اعلیٰ سنگما کی پارٹی مرکز میں بھاجپا کی حلیف ہے اور اسے وزارت بھی تفویض کی گئی ہے ۔میزورم کی میزو نیشنل فرنٹ(ایم این ایف) جس نے کانگریس کو بری طرح شکست سے دوچار کیا ہے اورکل ۴۰؍نشستیں ۲۶؍ اپنے نام کر لی ہیں،مرکز میں این ڈی اے کا حصہ ہے لیکن تازہ الیکشن میں اس نے بھاجاپہا سے دوری بنائے رکھی۔اگر نہیں رکھی ہوتی تو بی جے پی کو ۳۹؍نشستوں پر اُمیدوار اتارنے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ بہر حال نتائج آنے کے بعد بی جے پی کی طرف سے ایسا تاثر دیا جانا کہ میزورم میں اس کی حلیف پارٹی ہی حکومت بنا رہی ہے،عجیب سا لگتا ہے۔
ایم این ایف چیف ژورام تھنگہ نے مودی میجک کے کافور ہونے کو اچھی طرح بھانپ لیا تھا اور انہیں اس کا احساس تھا کہ اب مرکز میں ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا کوئی مطلب نہیں ہے، اس لئے انہوں نے بی جے پی سے اتحاد نہ کر کے اسے ریاست میں پھلنے پھولنے سے روک دیا۔جہاں تک کانگریس کی شکست کا سوال ہے،تو یہ میزورم کی روایت رہی ہے کہ ہر ۱۰؍برس پر وہاں حکومت بدلتی رہتی ہے۔۱۰؍برس قبل ایم این ایف ہی کی حکومت تھی جس کے وزیر اعلیٰ ژورام تھنگہ ہی تھے اور اُن سے پہلے ۱۰؍برسوں تک موجودہ کانگریسی وزیر اعلیٰ لال تھان والا،اور یہ تبدیلی حکومت مخالف رجحان ( anti incumbancy) کی وجہ سے چلتارہتا ہے۔وہاں حکومت مخالف رجحان اس قدر شدید تھا کہ دو جگہوں سے چناؤ لڑنے والے موجودہ کانگریسی وزیر اعلیٰ، جو ۵؍دفعہ وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں اور۹؍مرتبہ ایم ایل اے ، اپنی دونوں روایتی سیٹیں نہ بچا سکے۔ایک سیٹ پر تو وہ ایک آزاد امیدوار سے ہار گئے۔
بُری طرح ہارنے والی تیسری ریاست چھتیس گڑھ ہے جہاں ۱۵؍برسوں سے اقتدار پر متمکن وزیر اعلیٰ ڈاکٹر رمن سنگھ جو چاول والے باباکے نام سے مشہور ہیں،ہارتے ہارتے بچے جب کہ اُن کے ۱۳؍وزیروں میں سے ۸؍بری طرح ہار گئے اور ۹۰؍رکنی اسمبلی میں بی جے پی صرف ۱۵؍نشستیں ہی حاصل کر سکی،وہیں کانگریس ۶۸؍نشستوں کے ساتھ تین چوتھائی سے بھی زیادہ سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔اس کا سہرا کانگریس صدر راہل گاندھی کے ساتھ ساتھ مقامی لیڈروںبھوپیش بگھیل، ٹی ایس سنگھ دیواور چرن داس مہنت کے سر جاتاہے۔انہی میں سے کسی ایک کو وزیر اعلیٰ بنایا جائے گا اور زیادہ امکان یہی ہے کہ بگھیل کا انتخاب عمل میں آئے۔بی جے پی کا اس طرح ہارنا یہ ثابت کرتا ہے کہ عوام بہت ناراض تھے اور حکومت مخالف لہر شباب پر تھی ۔ بھاجپا حکومت مخالف لہر راجستھان اور مدھیہ پردیش کیلئے نہیں کہی جا سکتی،جس طرح سے مدھیہ پردیش میں بی جے پی ،کانگریس کے شانہ بہ شانہ چل رہی تھی،کبھی کبھی تو ایسا لگ رہا تھا کہ وہ جیت بھی سکتی ہے یا کم از کم کانگریس سے دو ایک سیٹیں زیادہ لا سکتی ہے۔ایسا پہلی بار ہوا کہ اخیر تک آنکھڑوں کی آنکھ مچولی کا کھیل چلتی رہی اور لوگوں نے اپنے ٹی وی سیٹ بند کر دئے کہ اب واضح نتیجہ ہی دیکھیں گے۔مدھیہ پردیش کی گنتی وَن ڈے کرکٹ میچ کا سماں پیش کر رہی تھی اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ کھیل کا آخری اووَر ہو اور ایک رَن سے جیت ہار کا معاملہ ہو۔ہوا بھی ایسا ہی اور دوسرے دن صبح ہی وہاں کا نتیجہ پیش کیا گیا جس میںکل ۲۳۰؍نشستوں میں کانگریس کو۱۱۴؍،بی جے پی کو ۱۰۹؍بی ایس پی کو ۲؍،ایس پی کو ۱؍ اور دیگر آزاد کو ۴؍ نشستیں ملیں ۔یعنی کانگریس اکثریت سے ۲؍کم۔نتائج میں دیری کی وجہ یہ بھی بتایا گیا کہ ۴۰؍سیٹوں پر مقابلہ ہزارووٹوں سے چل رہا تھا اور ۷۰؍سیٹوں پر مقابلہ دو ہزارووٹوں کے فرق سے چل رہا تھا۔تو کہاں ہوئی حکومت مخالف لہر؟اس کے علاوہ ماما سے مشہور بی جے پی کے ۱۵؍برسوں سے رہ رہے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان تقریباً۵۶؍ہزار ووٹوں سے جیتے اور وہ بھی کانگریس کے سینئر لیڈر اورسابق مرکزی وزیرارون یادو سے ۔
اسی طرح راجستھان میں بھی کانٹے کی ٹکر رہی۔اگرچہ ایگزٹ پول نے کانگریس کی تین چوتھائی اکثریت سے جیت کی قیاس آرائی کی تھی اور کچھ نے تو بی جے پی کی بُری طرح سے شکست کا دعویٰ کیا تھا لیکن وہاں بھی کبھی ایسا لگا کہ کانگریس کو اکثریت نہیں ملے گی اور حکومت بنانے کیلئے اسے دوسری چھوٹی پارٹیوں کی ضرورت پڑے گی اور ایسا ہوا بھی۔ ۲۰۰؍رکنی راجستھان اسمبلی میں کانگریس کو ۹۹؍،بی جے پی کو ۷۳؍،بی ایس پی کو ۶؍اور آزاد امیدواروں کو ۲۱؍سیٹیں ملیں جن میں بی جے پی اور کانگریس دونوں کے باغی سابق اراکین اسمبلی ہیں جنہیں ٹکٹ نہیں ملا تھا۔یہاں بھی کانگریس اکثریت سے ۲؍پیچھے۔یہاں بھی کہاں ہے حکومت مخالف لہر؟اس کے علاوہ موجودہ وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے سندھیا تقریباً ۳۵؍ہزار ووٹوں سے جیتیں اور کسی اور کو نہیں بلکہ حال ہی میں کانگریس پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والے مانویندر سنگھ، جو سابق مرکزی وزیر خارجہ جسونت سنگھ کے بیٹے ہیں اورراجستھان میں اپنا ایک رسوخ رکھتے ہیں،کو ہرایا۔تو پھر اس صورت حال کو کیا کہیں گے؟اسے بی جے پی کی ہار بالکل نہیں کہیں گے بلکہ کانگریس کی جیت کہیں گے۔وہ یوں کہ کانگریس نے محنت کی،راہل گاندھی نے محنت کی،کانگریس کے مقامی لیڈروں نے محنت کی اور کانگریس کے ورکروں نے محنت کی اور ظاہر ہے کہ اعداد و شمار ہی اب بولتے ہیں۔اگر تھوڑی سی بھی اِن میں غفلت ہوئی ہوتی ،تو آج بی جے پی کہتی کہ ’’جو جیتا وہی سکندر‘‘ جیسا کہ اس نے گجرات میں کہا تھا۔کانگریس اور راہل گاندھی نے وہاں بھی محنت کی تھی جس کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ بی جے پی ہارتے ہارتے بچی تھی اور وہیں سے راہل گاندھی کو بوسٹ اَپ ملا تھا جب کہ وہ کانگریس صدر نہیں بنائے گئے تھے۔یہ ٹھیک ایک برس پہلے کی بات ہے اور اِن تین ریاستوں میں جو جیت کانگریس نے درج کی ہے ،اس کا تمام تر سہرا راہل کے سر جاتا ہے اور یہ پہلی جیت ہے جوان کے کانگریس صدر ہونے کے بعد کی ہے۔یہ تینوں ریاستیں اس لئے اہمیت کی حامل ہیں کہ ان میں سے ۲؍ تو بی جے پی کے پاس۵ ۱؍برسوں سے تھیں اور ایک راجستھان میں گزشتہ اسمبلی میں نام نہادمودی لہر کی وجہ سے بی جے پی نے بھاری اکثریت سے جیت درج کی تھی اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ تینوں ’ہندی بیلٹ‘ ہیں جن پر بی جے پی اور خود مودی جی انحصار کرتے ہیں۔اب معاملہ بالکل اُلٹ ہو گیا ہے۔کانگریس نے بی جے پی کے وار ہی سے اس کو شکست دی ہے اوراسی وار سے آگے بھی دے گی۔
کانگریس نے جو سیاسی موقف اور اسٹریٹجی اختیار کی ہوئی ہے ،اسے جاری رکھاجانا چاہئے کہ وہ لوگوں پر کچھ کام کرے اور اچھا کام کرے۔لوگوں میں پارٹی کے تئیں یقین پیدا ہو،اعتماد جاگے۔جس طرح اخبار یا رسائل نکالنے سے کسی کو روکا نہیں جا سکتا ُاسی طرح سیاسی پارٹی بنانے سے بھی کسی کو روکا نہیں جا سکتا۔ایک نہیں بلکہ سیکڑوں پارٹیاں وجود میں آئیں گی ۔اگر کسی پارٹی کو جیتنا ہے تو حساب کتاب کے ساتھ ساتھ وہ اچھا کام بھی کرے، تو لوگ اسے ضرور ووٹ دیں گے۔وہ یہ نہ کہے کہ فلاں پارٹی ہمارا ووٹ کاٹ رہی ہے یااس کا حریف ’ووٹ کٹوا پارٹی ‘ہے وغیرہ وغیرہ۔ساری پارٹیوں کو حق ہے کہ وہ عوام کے درمیان جا کر اپنے منشور کے حساب سے ووٹ مانگیں ۔کسی کو بدنام کرنے سے فائدہ نہیں اور کانگریس کو یہ سبق نہیں بھولنا چاہئے۔
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو ، نئی ممبئی کے مدیر ہیں ۔۔۔ رابطہ9833999883)