جب والدین بچے کو کسی اسکول میں داخل کراتے ہیں تو اندراج کے وقت ایڈمیشن ریکارڈ میں اس کا صحیح اور پورا نام تحریر نہیں کیا جاتا اگر بچے کا نام اچھا اور بامعنی بھی ہو توانگریزی زبان میں نام کے عین مطابق ہجے نہیں ہوتے ۔ آج کے اس علمی دور میں جب ہم نے ایک طرف اسکولوں میں انگریزی زبان کو یعنی ذریعہ تعلیم قرار دیا ہے لیکن دوسری طرف ہم بہت سارے الفاظ اور ناموں کا حُلیہ بگاڑ کر رکھ دیتے ہیں ۔یہ بات عیاںاور واضح ہے کہ جب ہم اسکول ریکارڈ یا کسی بچے کی سند کو چیک کرتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اگر کسی طالب علم کا نام’’ محمد Mohammad ‘‘ ہو تو ریکارڈ میں محمد کے بجائے’’ محدMohd‘‘،’’ احمدAhmad‘‘کے بجائے ’’ احد Ah‘‘ اور ’’عبدلAbdul‘‘کے بجائے’’ ابAb.‘‘وغیرہ وغیرہ درج ہوتا ہے ۔ اگرچہ بچے کے داخلے کے حوالے سے اس کے کوائف کافی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں لیکن والدین اور اساتذہ ان چیزوں کو سرسری طور پر لیتے ہیں اور ان بنیادی چیزوں کے مکمل اور صحیح اندراج کی طرف دھیان نہیں دیتے ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس طرح ہم نے کئی معاملات میں دوسرے اقوام کی مشابہت اختیار کی ہے اسی طرح بچوں کے ناموں کے حوالے سے ہم نے ایسے ناموں کا انتخاب کیا ہے جو غیر مسلموں کے ہاں پا یا جاتا ہے۔ کبھی کبھا رایسا بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ اگر ہم نے بچے کا کوئی بامقصد اور پاکیزہ نام بھی رکھا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے ایسے بھی دو تین نام ہوتے ہیں جو معنی اور مفہوم کے حوالے سے نا پسندیدہ ہوتے ہیں۔ یہاں تک ایسے الفاظ اور نام غیر مسلم منحوس جانوروں وغیرہ کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ بقول اقبال ؔ ؎
وضع میں تم ہو نصاریٰ ، تو تمدن میںہنود
یہ مسلمان ہیں ! جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
نام سے آدمی کی شان اور شخصیت کا اظہار ہوتا ہے اور نفسیاتی طور پر نام کا بڑا اثر پڑتا ہے ۔ فطری طور بھی ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ ان کے بچے کو اچھے نام سے پُکاریں جس سے بچہ خوش ہو اور پکارنے والے کے لئے اس کے دل میں اچھے جذبات اُبھریں مگر یہ جب ہی ہو گا جب والدین اپنے پیارے بچے کا اچھا نام تجویز کریں ۔ لہٰذا بچے کا یہ بھی حق ہے کہ اس کا اچھا اور پاکیزہ نام رکھا جائے ۔ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی کرتا ہے ۔ بچے کا نام تجویز کرتے وقت جن چیزوں کی طرف دھیان دیا جائے ان میں چند یہ ہیں : نام کا مفہوم نہایت پاکیزہ اور ذہن و احساس پر نہایت خوش گوار اور دینی لحاظ سے مطلوب اثر ڈالنے والاہو ۔ ایسے ناموں سے پرہیز کیا جائے جن سے عقیدہ تو حید مجرو ح ہوتا ہو یا کوئی ایسا لفظ جس سے فخروریاء ، اپنی پاک بازی اور بڑائی کا اظہار ہوتا ہو۔ ایسا نام جو غیر اسلامی خواہشات وآرزوؤں کا آئینہ دار ہو اور خدا کی رحمت سے دوری ظاہر کرنے والا ہویا ایسا نام ہو جس سے اپنی ذات کے ساتھ کسی گناہ ، برائی یا بدشگونی کی نسبت ہو یا ایسا لفظ جس سے تحقیر و تذلیل یا تمسخر کا پہلو نکلتا ہو ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ نبیوں کے نام پر نام رکھو اور اللہ کے نزدیک پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمان ہیں ، پیارے نام حارث و حمّام ہیں اور نہایت نا پسندیدہ نام حرب اور مرّ ہ ہیں ‘‘ ۔ ( ابو داؤ د ، نسائی ) ۔اس حدیث پاک سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اگر اللہ کے ذاتی یا صفاتی نام کے ساتھ عبد کا لفظ ملا یا جائے تو یہ بچے کے لئے پسند یدہ نام بن جائے گا۔ کسی پیغمبر ؑیا صحابی ؓکا نام رکھنا باعث سعادت اور برکت ہے ۔ جیسے محمد ، ابراہیم ، یعقوب ،اسماعیل ، اسحاق ، یوسف ، ادریس ، صدیق ، عمر وغیرہ ۔ایک اور حدیث پاک میں پیارے نبی ﷺ نے فرمایا : ’’ تم لوگ قیامت کے روز اپنے اور اپنے باپوںکے نام سے پُکارے جاؤ گے ۔ لہٰذا اچھے نام رکھا کرو ‘‘ ۔ ( ابو داؤد )۔ صحابی ؓ اور صحا بیات ؓ اپنے بچے کا نام رکھنے کے لئے آپ ؐ سے درخواست کرتے تو آپ ؐ نہایت پاکیزہ بامعنی اور با مقصد نام تجویز فرماتے ۔ آپ ؐ کسی سے نام پو چھتے اور وہ اپنا کوئی بے معنی اور نا پسندیدہ نام بتا تا تو آپ ؐ نا پسند فرماتے اور اپنا کام اس کے حوالے سے نہ کرتے اور جب کوئی اپنا اچھا اور پاکیزہ نام بتا تا تو آپ ؐ پسند فرماتے ۔ اس کے مبارک نام سے مبارک شگون لیتے ، اس کے لئے دُعا ء خیر
کرتے اور اپنا کام اس کے حوالے کرتے ۔ اکثر ایسا بھی ہوتا کہ آپ ؐ ناپسندیدہ نام کو بدل دیتے، بُرا نام آپ ؐ گوارانہ کر سکتے ۔ آپ ؐ نے بہت سے مردوں اور عورتوں کے نام بدلے اور جو شخص آپ کے بد لے ہوئے نام کے بجائے پُرانے ہی نام پر اصرار کرتا تو وہ اپنے اس پرانے نام کے بُرے اثرات اپنی شخصیت پر بھی محسوس کرتا اور اس کی نسل پر بھی اس کے بُرے اثرات با قی رہتے ۔
بچے کے نام کی اس غیر معمولی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے والدین کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچے کے لئے ایک اچھے بامعنی نام کا انتخاب کریں ۔ دوسری طرف اُساتذہ پر بھی یہ ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ وہ نام کے اندراج کے وقت بچے کے کوائف اسی نام کے مطابق ریکارڈ کریں ۔اگر ماضی میں کہیں کسی بچے کا اصلی نام ادھورا ریکارڈ ہو چکا ہو یا کوئی ایسا نام درج ہو چکا ہو جو اسلام کے نزدیک پسندیدہ نہیں ہے تو اس کو بدلنے کے لئے بنیادی اور ضروری لوازمات و شرائط کو پورا کرتے ہوئے ریکارڈ کو درست کیا جائے تا کہ نام کی درستگی سے بچے کا مستقبل روشن ہوسکے ۔