عاشق حسین وانی، عاشق
اے شمع کی رُوشن لَومیںجلنےوالےپروانو!اےباغِ بہار میں نرگس کی آنکھ پر منڈلاتےہوئے بھونّرو ! اے نسیمِ سحر کی ٹھنڈی ہواو ٔں، میں خد ا کی یاد میں آنسو بہانے والے مومنو ! اے غم ِ فراق میں دشتِ جنوں کی خاک اُڑانے والے عاشقو ! بے شک تمہارے ہی دم سے ہمیں یہ کا ئنات اتنی پُر کشش اور دلفریب نظر آتی ہے۔ اور اگر چہ ہم اپنے دل میں اس چیز کا جذبہ اس زوق و شوق سے نہیں رکھتے ہیں جس قدر کہ یہ تم میں موجود ہے لیکن پھر بھی ہم اس کے احساس سے واقف ہیں او ر اپنے اندر اس چیز کا جذبہ نہا یت گہرائی سے محسوس کرتے ہیں اور جب بھی ہم اس کا حسین او رمسکراتا ہوا چہرہ دیکھتے ہیں تو ہزاروں ولولے اور لا کھوں امنگیں خود بہ خو د ہمارے دل میں جاگ اٹھتے ہیں۔ زندگی میں جوانی کی نئی لہر دوڑنے لگتی ہے، مرجھائے ہوئے بیل بوٹوں اور جلتے ہوئے کھیت کھلیانوں پر آبِ حیات کی رحمت ِ باراں جیسے برسنے لگتی ہے۔ خشک و تھر تھراتے ہونٹوں پر تازگی آ جاتی ہے اور یوں ہمارے غم زدہ دل تیری روشنی سے منور اور تیری مہک سے ہمارے بدن معطر ہو جاتے ہیں۔
آخر وہ چیز کیا ہے ؟ ـ جس میں اعلی خوشیوں او ر عمدہ مسرتوں کا راز اس قدر پنہاں ہے اور جس کے تصور سے شکستہ دلوں کو راحت اور بے قراروں کوسکون پہنچتا ہے ۔ کیا عقل ہے۔ نہیں اس کا دائیرہ اتنا وسیع نہیں ہے کہ اس چیز تک اس کی رسائی ممکن ہو سکے ۔ پھر کیا ِانسانی فطرت کو خوش کرنے والا کوئی راگ ہے جو کسی غم زدہ عاشق کے آہوں و ارمانوں میں سا زبھر کر ان سے ان گیتوں کی لے نکالتا ہے کہ عاشق سن کر وصل کی لذت محسوس کرتا ہے، نہیں بلکہ جو کچھ ہے حقیقت میں اس چیز کا نام عشق ہے اور اس میں جل کر مر جانا پروانے کا مقصد اور عاشق کی ابدیِ حیات کا پیش خیمہ ہے۔
او حسنِ ازل کے عارضِ تاباں کو اپنے اندر دلنشین کرنے والے عشق ! تیرا ہی نام چاہت کا دوسرا نام ہے۔ تیر ی ہی بٹھی میں ایمان تپ کر پختہ و پائیدار بن جاتا ہے۔ تیرے ہی صحت مند جذبے سے ز ندگی کی تلخ و تند گھڑیوں میں احساس و امید کا خوش نما رنگ جگمگا تا ہے۔تیرے ہی نشیب و فراز راہوں پر چل کر انسان اپنے مقصد کو پہنچتا ہے اور تیرے ہی سبب محبوب کی شوخیاں و گستاخیاں ہر دل عزیز عاشق کے دا من میںخوشیاںبھر دیتا ہے۔ غرض تیری بے شمار خوبیوں نے اے عشق تجھے عقل سے بالا اور بلند جانا اور تیری طاقت و شجاعت کو بے پناہ و بے باک جانا۔
اے عشق ! اے ہمیشہ قائم رہنے والی حقیقت تیرے ہی تصرف میں ارض و سماں ، صبح و شام اور جہاں کا خشک و تر ہے۔ ریگِ رواں کی ویران راہوں سےبھٹکتا ہو ا مسافر تیرے ہی شاداب گھنے سایے میں اپنے بے قرار دل کو راحت پاتا ہے۔ دنیاوی نظام کے اعلی و ادنیٰ نشیب و فراز سے بے خبر تو جہاں چاہتا ہے اپنا راستہ نکال دیتا ہے۔ تیرا راز سمندر سے گہر ا اور تیری و سعت آسمان کی بلندی سے بھی ا ٓگے ہے۔
اے عشق ! تو وہ روشن حقیقت ہے جو عیاں صاف و پاک ہے اور لاکھ چھپانے پر بھی تم نے ہر ایک پردہ چاک کر کے اپنا سورج سا مسکراتا چہر ا نمایاں کیا۔ حسن کے دیے ہوئے چوٹ کو تیرے ہی دست شفا سے مرہم ملتا ہے اور اے عشق، ہم نے جب بھی تیر ا لہراتا ہوا دامن پکڑا تو ہزاروں شکا یتوں سے زمانہ چیخ اُٹھا۔ طعنوں و نیزوں کی بھر مار سے سارا جسم چھلنی ہو گیا ۔دشمن کی تیغ سے ہزار بار زخمی ہوئے اور جب بھی ہم نے سرد آہ بھر لی تو تم نے ہمارے غم زدہ دل کو فتخ مندی کا احساس دلایا او ر حوصلہ دے کر کٹھن منزلوں میں رہنمائی کی۔
اے عشق تم نے نمرود کے خدائی دعووں کو فریب ثابت کیا اور حضرت ابراہیم کو اس امتحان میں خوب اُتار اجو پروردگار نے اُن سے لیا تھا۔ اے عشق ! تم نے ہی موسٰی کے دل میں شوقِ دیدار کی آگ بھڑکائی او ر تیرے ہی نام سے کوہ طور کی مبارک چوٹی کو آج بھی ہم عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اے عشق تیرے ہی بدولت پیارے نبیؐ سد رۃ المنتہٰی کے اس مقام تک پہنچا ،جہاں آپؐ کو پرور د گار سے راز و نیاز کا شرف حاصل ہوا او ر جہاں سے آپؐ نے اپنی امت کے لئے نماز لائے۔ وہ نماز جو شاہ و گدا ، سیاہ وسفید کے درمیان تمام تفرقات مٹا کر ایک ہی صف میں کھڑا کر دیتا ہے اور جس نماز کو ادا کرنے سے خد اکے رفیق بندے رُوحانی کیفیت سے سر شار ہو کر خالق ِکائنات کی رحمت کے طلب گار بن جاتے ہیں۔
دیکھ وہ جوان بہادر سپاہی اپنے وطن سے بے انتہا عشق رکھتا ہے ماں کا یہ سپوت میلوں دو ر یخ بستہ برف پوش چوٹیوں پر چاق و چوبند سر پر کفن باندھے ملک کی حا ظت کرتا ہے ۔ حب الوطنی کے جذبے سے سر شار ہے اور وطن ِ کی محبت رگ رگ میں سرایت کر گیا ہے اور جب کبھی جنگ لڑنے کا نقارہ بجتا ہے تو دشمن کے سامنے میدانِ جنگ میں چٹان کی طرح کھڑا ہو تا ہے اور ان کی صفوں میں گھس کر دلیری سے لڑتا ہے۔ وطن کی محبت میں اپنے عزیزوں کو بھول گیا ہے اور کی سر بلندی کو عبادت سمجھتا ہے، سامنے مخالف فوجیں ہیں اور وطن کا یہ بہادر سپاہی دشمن کو ہر محاذ پر شکست دینے کی تدبریں کرتا ہے۔ ملک کی سلامتی پر جاں نثاری کا جنون ہے ،ہمت و شجاعت سے لڑتے لڑتے سارے جسم سے خون بہہ رہا ہے، زندگی اور موت کے درمیان کا فاصلہ آخرکار سمٹتا نظر آتا ہے ۔آنکھوں پر اندھرا چھایاجاتا ہے اور سانسیں گلے میں رک جانے لگتے ہیں۔ اے عشق کی جاں باز قوت یہ تیری طاقت ہے جو اس دلاور سپاہی کو وطن عزیز پر زندگی فدا کرنے کا حوصلہ دیتی ہے ۔
دیکھ وہ بندۂ خد ا جس کا دنیاوی آفتاب لب ِ بام پر ہے۔ زندگی کی وہ طاقت ا ب اس کے جسم میں باقی نہیں ہے۔ آنکھوں کی روشنی، ہونٹوں کی نمی اور چہرے کی تازگی وقت کے تقاضوں نے سب کچھ ہضم کر لیا ہے ۔ تمام خوشیوں کو خیر باد کہہ گیا ہے اور کوئی خوشی اس کے ساتھ نہیں ہے۔ بچپن سے لے کر جوانی تک اور جوانی سے لے کر بڑھاپے تک کی ہوئی غلطیوں اور گناہوں پر آنسو بہاتے بہاتے ا س کی آنکھیں اب سفید ہو گئی ہیں ۔ کبھی آخرت کا خیال دل کو خوف زدہ کرتا ہے اور کبھی خدا کی بندگی حق کے ساتھ نہ نبھانے کا خیا ل د ل کو بے قرار کرتا ہے۔ غرض ہزاروں سوالات ذہن میں اُبھر کر اس کو بے چین کرتے ہیں لیکن آج جوں ہی موذن کی اذان کانوں میں پڑتی ہے تو شوق کا دریا اس قدر سینے اُمنڈ پڑتا ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ اے بے قراروں کو قرار بخشنے والا عشق ! تیرا ہی خیال آج اس کے سینے میں ایک نئی رُوح پھونک کر اس کے ڈگمگاتے ہوئے قدموں میں نئی جان پیدا کرتا ہے ۔ تو ہی اس کو جھاڑے کی شدید سردی میں گرم بستر سے اٹھا کر رحمت کے گھر تک پہنچا دیتا ہے ،جہاں وہ اپنا جھکا ہوا کمر سیدھا کر کے قیام کرنے کی کوشش کرتا ہے او ر نہایت نرمی و انکساری کے ساتھ خدا کے سامنے سر بہ سجود ہو کر رو رو کر اپنا حالِ زاز سناتا ہے اور اس طرح اپنے عشق کا حقیقی تصور پیش کر کے خدا کے سامنے کانپتے تھر تھراتے ہاتھ اُٹھا کر گناہوں سے نجات اور آ خرت کی فتح مندی مانگتا ہے۔ اور یوں سکونِ قلب کی ایک نئی کیفیت جس کا احساس نسیم سحر کی خوشبو کی مانند ہو تا ہے، بہت دیر تک وہ اپنے اندر محسوس کرتا ہے۔
اے آدم ! دیکھ وہ سفید سنگ مر مر کے پتھروں سے بنایا ہوا تاج محل ۔چاندنی رات میں اور بھی حسین و سنہری دیکھائی دیتا ہے اس کا قابل دید نظارہ دیکھ کر دل خوشی سے جھُو م اُٹھتا ہے۔ اس کا تماشا جتنا نشاط انگیز ہے اتنا ہی حیرت انگیز بھی ہے ۔ تاج جو اس کرہ ارض پر عشق کی ایک زندہ تصویر ہے ۔ در اصل دو دلوں کی اس ابدی محبت کی دلیل پیش کرتا ہے جس پر خود عشق بھی ناز کرتاہے اور اس کے پس منظر میں جو کچھ بھی دیکھائی دیتا ہے وہ انسان کے ہاتھوں عشق کی زندہ تصویر ہے ۔ ان سفید پتھروں میں سجایا ہوا حسیں خواب اور اس محل کے آغوش میں مدفون دو دلوں کے جذ بات آج بھی اسی طرح زندہ جاوید ہیں جیسے کہ کل تھے ۔ اس کی عمدہ بنیاد، اس کی عمدہ کاری گری ، دودھ کی طرح سفید پتھروں کا رنگ اور ساتھ میں شہد جیسا میٹھا رواں دواں صاف و شفاف جمنا کا بہتا ہوا پانی او ر اس کے کنارے پر یہ تاج ہماری آنکھوں کی گہرائیوں میں کبھی نہ مٹنے والا عکس ڈال دیتا ہے ۔ احساسات اس کی عظمت کو دیکھ کر بے قابو اور جذبات اُبلتے لاوے کی طرح آتش فشاں بن کر سینے میں پھٹنے لگتے ہیں۔ دل سے ہزاروں آہوں کا سمندر ٹھا ٹھائیں مار تا ایک طوفان اُٹھا کر دھبی آہ کے ساتھ خود بہ خود خاموش ہو جاتا ہے۔ دور دور سے انسان آ کر اس کے سائے میں باہمی اور کبھی نہ ختم ہونے والی محبت کے عہد و پیماں کے جام بھرتے ہیں اور یوں تاج عشق کا وہ لاثانی منظر پیش کر تا ہے، جس کی گہرائی میں صرف ا ور صرف عشق کا تصور ہی نظر آتا ہے۔
دیکھ وہ محبت کا پیاسا عاشق معشوق کی چاہ میں دشتِ جنوں کی خاک اُڑائے پھرتا ہے ۔ محبوب کی جستجو میں دن رات دل کو جلاتا ہے ۔ ہجر کا غم ہے لیکن وصل کی تدبیریں ڈھونڈتا ہے ۔ چہرہ زرد اور غم سے نڈھال ہے ۔ فقیروں کا سا حلیہ بنائے دربدر پھرتا ہے ہر د ہر چو کھٹ پر اپنے محبوب کو پکارتا ہے ا ور ہر میداں و بیاباں میں نالہ و فریاد کرتا ہے ۔ عجب دیو نگی کے عالم میں خود کو ڈبوئے بیٹھا ہے۔ بے قراری میں سکوں کا دم ملتا ہے تو سینے میں محبت کی آگ بھڑک اُٹھتی ہے، ہر قدم پر ٹھوکر کھا کر جی اٹھتا ہے ۔غرض اپنے محبوب کی خاطر دنیاکے سارے آرام و آرائیش کو خیر باد کہہ گیا ہے لیکن اے عشق کی جاں باز قوت ! تیرے ہی سبب اس کے بے قرا ر دل کو قرار پہنچ جاتا ہے، تیرے ہی پاس اس کو ہر درد کی دوا ، ہر رنج سے آسودگی اور امید کی خوشیاں ملتی ہیں اور تیرا ہی تصور اس کو نا امیدی میں کامیابی کی خوش خبری سناتا ہے ۔
(مصنف مضمون نگار اور شاعرہے )
[email protected]
(مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے)